چینی محققین نے چمگادڑوں میں ایک نیا کورونا وائرس دریافت کیا ہے، جسے HKU5-CoV-2 کا نام دیا گیا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ یہ حملے کیلئے وہی طریقہ استعمال کرتا ہے جس طرح کووڈ 19 خلیات میں داخل ہو کر نقصان پہنچاتا تھا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق مذکورہ وائرس HKU5 کرونا وائرس کی ایک نئی قسم ہے جو پہلی بار ہانگ کانگ میں ایک جاپانی چمگادڑ میں دریافت ہوئی۔

وائرس سے متعلق نئی تحقیق سیل سائنٹیفک جرنل (Cell scientific journal) نامی جریدے میں شائع ہوئی۔ اس تحقیق کی قیادت ایک اعلیٰ چینی سائنسدان وائرولوجسٹ نے کی جن کا نام شی زینگلی ہے، جسے ”بیٹ وومین“ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس نے چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس پر کافی تحقیق کی ہے۔ یہ مطالعہ گوانگزو لیبارٹری میں کیا گیا۔

چین میں سائنسدانوں نے چمگادڑوں میں HKU5-CoV-2 نامی ایک نیا وائرس پایا۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ یہ وائرس انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے، لیکن یہ سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی جا رہی ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں کیسے پھیل سکتا ہے۔

اگرچہ سینکڑوں کورونا وائرس موجود ہیں،لیکن صرف چند ہی انسانوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

محققین کے مطابق HKU5-CoV-2 نیا وائرس ہانگ کانگ میں چمگادڑوں میں پائے جانے والے ایک کورونا وائرس سے پیدا ہوا۔ یہ وائرس کے ایک گروپ سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ بھی شامل ہے جو MERS کورونا وائرس کی ایک قسم کا سبب بنتا ہے۔

سائنسدانوں نے تحقیق میں پایا کہ چمگادڑ میں چھپے وائرس HKU5-CoV-2 میں ایک عجیب خصوصیت ہے جو اسے COVID-19 وائرس کی طرح خلیوں میں داخل ہونے میں مدد دیتی ہے۔ یہ خصوصیت وائرس کو سیل کی سطحوں پر پروٹین سے منسلک کرنے کی اجازت دیتی ہے، جس سے وائرس کے لیے خلیات کو متاثر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

محققین نے کہا کہ چمگادڑوں کے نمونوں سے الگ تھلگ وائرس انسانی خلیوں کو متاثر کر سکتا ہے ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ چمگادڑوں کے وائرس براہ راست یا واسطہ کاروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہونے کا بہت بڑا خطرہ ہیں۔

محققین کے مطابق نئے HKU5-CoV-2 وائرس میں مختلف انواع کو متاثر کرنے کی زیادہ صلاحیت ہو سکتی ہے لیکن ابھی اس حوالے سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کورونا وائرس کو متاثر کر یہ وائرس سکتا ہے

پڑھیں:

سائنسدانوں کا ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ

سائنس دانوں نے ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو اس سے قبل کسی انسان نے نہیں دیکھا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق محققین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ریٹینا میں مخصوص خلیات متحرک کرکے نیلے اور سبز رنگ کا مشاہدہ کیا جسے سائنس دانوں نے ’اولو‘ کا نام دیا جب کہ کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ نئے رنگ کی موجودگی پر مزید بحث ہو سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر اور سائنسی جریدے میں شائع اس تحقیق کے شریک مصنف نے پیش رفت کو ’قابل ذکر‘ قرار دیا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ نتائج کی بنیاد پر ممکنہ طور پر کلر بلائنڈنس پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔

نئے رنگ کی دریافت کے تجربے میں حصہ لینے والے 5 افراد میں شامل پروفیسر این جی نے  کہا کہ ’اولو کسی بھی رنگ سے زیادہ بھرا ہوا ہے جسے آپ حقیقی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں‘۔

ٹیم کے تجربے کے دوران محققین نے ہر شرکا کی ایک آنکھ کی پتلی میں لیزر بیم چمکائی، اس مطالعے میں 5 افراد شامل تھے جن میں سے چار مرد اور ایک خاتون تھیں۔

تحقیقی مقالے کے مطابق شرکا نے نئے رنگ کو او زیڈ نامی ڈیوائس میں دیکھا جو شیشے، لیزر اور آپٹیکل ڈیوائسز پر مشتمل ہے، اس سے قبل اس آلے کو یو سی برکلے اور واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ڈیزائن کیا اور اس مطالعہ میں استعمال کے لیے اسے اپ ڈیٹ کیا گیا۔

ریٹینا آنکھ کے پیچھے ٹشو کی ایک ہلکی حساس پرت ہے جو بصری معلومات کو وصول اور پروسیس کرتی ہے، یہ روشنی کو برقی سگنل میں تبدیل کرتی ہے ، جو پھر بصری اعصاب کے ذریعے دماغ میں منتقل ہوتی ہے ، جس سے ہمیں دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

ریٹینا کون خلیات پر مشتمل ہوتا ہے، یہ خلیات رنگ کو سمجھنے کا کام کرتے ہیں، آنکھ میں 3 اقسام ایس ، ایل اور ایم کے کون خلیات ہوتے ہیں، اور ہر ایک بالترتیب نیلے ، سرخ اور سبز کے مختلف ویو لینتھ کے لیے حساس ہوتا ہے۔

تحقیقی مقالے کے مطابق نارمل ویژن میں کوئی بھی روشنی جو ایم کون سیل کو متحرک کرتی ہے اسے اس کے پڑوسی ایل اور / یا ایس کونز کو بھی متحرک کرنا چاہیے کیونکہ اس کا فنکشن ان کے ساتھ مل جاتا ہے۔

تاہم اس تحقیق میں بی بی سی نے اخبار کے حوالے سے بتایا  کہ لیزر نے صرف ایم کونز کو متحرک کیا جو اصولی طور پر دماغ کو رنگین سگنل بھیجے گا جو قدرتی بصارت میں کبھی نہیں ہوتا، اس کا مطلب ہے ’اولو‘ کو حقیقی دنیا میں کسی شخص کی ننگی آنکھوں سے مخصوص محرک کی مدد کے بغیر نہیں دیکھا جاسکتا۔

تجربے کے دوران دیکھے گئے رنگ کی تصدیق کرنے کے لیے ہرفرد نے کنٹرول ایبل کلر ڈائل کو ایڈجسٹ کیا اور ’اولو‘ کا مشاہدہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟
  • چیئرمین پی اینڈ ڈی نے والڈ سٹی کے تین منصوبوں کیلئے اجلاس طلب کرلیا
  • ہیٹ ویو کا خطرہ، یکم جون سے تعطیلات کی سمری منظوری کیلئے وزیراعلیٰ کو ارسال
  • میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ دریافت، سائنسدانوں کی حیران کن تحقیق سامنے آگئی
  • سائنسدانوں کا ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ
  • چین میں روبوٹس کی انسانوں کے ساتھ ریس کے دلچسپ مناظر
  • اجتماعی کوششوں سے پولیو وائرس پر قابو پالیں گے، وزیراعظم  
  • ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمولی جرم نہیں، اجتماعی سلامتی کیلئے خطرہ ہے، شرجیل میمن
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے