سکھ کمیونٹی کے خلاف مودی کی گھناؤنی سازش، جلاوطن بھارتیوں کو امرتسر میں اتارنے کی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
مودی سرکار کی سکھ دشمنی کا اصل چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا۔ امریکا سے جلاوطن بھارتیوں کے طیاروں کو بلاوجہ امرتسر میں اتار کر سکھوں کی عزت کو پامال کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق مودی سرکار نے جلاوطن بھارتیوں کے بحران کو سکھ بحران میں تبدیل کر دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسی کے تحت اب تک بھارت کے 332 شہریوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ جلاوطنی امریکی حکام کی غیر قانونی امیگریشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جس کے نتیجے میں 5 فروری 2025 کے بعد سے تین پروازیں بھارت پہنچ چکی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق جلاوطن افراد کو ہتھکڑیاں اور زنجیریں لگائی گئیں جبکہ سکھ جلاوطن افراد کی پگڑیاں پرواز کے دوران اُتار لی گئیں۔ مودی حکومت نے سکھوں کے مقدس شہر امرتسر میں جلاوطن بھارتیوں کو اتار کر سکھوں کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کی جس پر پنجاب اور سکھ کمیونٹی میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
سکھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل سکھ کمیونٹی کے خلاف مودی کا ایک بڑا سازشی منصوبہ ہے جس کا مقصد ان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت اور بدگمانی پیدا کرنا ہے۔ مودی سرکار ایسے اوچھے ہتکھنڈے استعمال کر کے سکھوں کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیاں کررہی ہے اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے ڈی پورٹ کیے گئے افراد کے طیاروں کو پنجاب میں اتارنے پر مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پنجاب بھارت کا زرعی مرکز اور دفاعی قوت ہے مگر بی جے پی کی حکومت نے ریاست کو بدنام کرنے کے لیے مہم شروع کر دی ہے۔ امریکا سے جلاوطن بھارتیوں کو امرتسر میں اتارنا مودی سرکار کا ایک اور حربہ ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر سکھوں کی شہرت کو نقصان پہنچانا ہے۔
بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے سوال کیا کہ وزارت خارجہ نے ان طیاروں کو امرتسر میں اتارنے کا فیصلہ کیوں کیا حالانکہ ملک بھر میں سینکڑوں دوسرے ہوائی اڈے موجود ہیں؟ اگر بنگلا دیش کی شیخ حسینہ کا طیارہ ہنڈن ایئرپورٹ پر اتارا جا سکتا ہے اور رافیل طیارہ امبالا میں اتر سکتا ہے تو جلا وطنوں کا طیارہ ملک کے کسی دوسرے حصے میں کیوں نہیں لے جایا جا سکتا؟ غیر قانونی امیگریشن صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے پھر بھی یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پنجاب اس سے شدید متاثر ہے۔ خود ساختہ عالمی رہنما‘‘ مودی نے اپنی خود ستائشی کے سوا ملک کے لیے کچھ حاصل نہیں کیا۔
مودی سرکار کی یہ شرمناک سازشیں سکھوں کے خلاف ایک واضح سیاسی انتقامی کارروائی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مودی سرکار کے خلاف
پڑھیں:
گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
یقین کریں… آپ نے بھی ہماری طرح یہ حرکت تو ضرور کی ہوگی، کہ چپس، چاکلیٹ یا شاید گرما گرم سموسہ نیچے گرا… اور آپ نے فوراً نظریں دوڑائیں، تیزی سے اسے اٹھایا، اور منہ میں ڈال لیا!
کیوں؟ کیونکہ آپ نے دل ہی دل میں کہا ہوگا: ’پانچ سیکنڈ نہیں ہوئے… ابھی کھایا جا سکتا ہے!‘۔
لیکن… اگر ہم آپ سے کہیں کہ یہ پانچ سیکنڈ والا رول صرف ایک جھوٹ ہے؟ جی ہاں، آپ برسوں سے ایک غلیظ فسانے کے ہاتھوں بےوقوف بن رہے ہیں!
”خان رول“ — جرم کی ابتدا!
پانچ سیکنڈ کا یہ عجیب قانون آخر آیا کہاں سے؟
1995 میں پہلی بار یہ اصول چَھپ کر سامنے آیا، مگر اس کا اصل قصہ تو بارہویں صدی میں، چنگیز خان کے زمانے سے جُڑا ہے۔
جی ہاں! افسانوی منگول فاتح چنگیز خان کے دربار میں ایک اصول تھا: ”جو کھانا خان کے لیے بنایا گیا ہے، وہ اتنا پاک ہے کہ اگر زمین پر بھی گر جائے، تب بھی کھانے کے قابل ہے!“
چاہے کھانے کے ذرے فرش پر کتنی دیر بھی پڑے رہیں — بس آنکھوں دیکھی مٹی جھاڑو، اور کھا جاؤ!
اس زمانے میں جراثیم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ صفائی کا مطلب تھا: ”جو نظر آئے، اسے صاف کرو… باقی اللہ مالک!“
لیکن پھر سائنس بولی: ”خان صاحب، آپ غلط تھے!“
انیسویں صدی میں لؤی پاسچر نے سائنس کی دنیا کو چونکا دیا۔
انہوں نے بتایا کہ جراثیم نہ صرف موجود ہیں، بلکہ وہ ہر جگہ ہیں! ہوا میں، ہاتھوں پر، کپڑوں میں، اور زمین پر بھی!
مگر اس کے باوجود، پانچ سیکنڈ والا یہ جھوٹ صدیوں تک زندہ رہا۔
اور پھر آئی تباہ کن تحقیق!
2016 میں ایک امریکی سائنسدان، پروفیسر ڈونلڈ شیفر نے پانچ سیکنڈ رول کی دھجیاں اُڑا دیں۔
انہوں نے دو سال ایک تحقیق کی، جس میں کھانے کی مختلف اشیاء مثلاً مکھن لگی بریڈ، بغیر مکھن کی بریڈ، سٹرابری کینڈی اور تربوز کو مختلف سطحوں پر گرایا: لکڑی، ٹائل، اسٹیل، اور یہاں تک کہ کارپٹ پر بھی۔
اور ہر بار وقت بدلا گیا: ایک، پانچ، تیس، اور تین سو سیکنڈ۔ کُل 2560 تجربے کیے گئے۔
نتیجہ؟
جتنی بھی جلدی کھانے کو زمین سے اٹھا لیں — وہ جراثیم سے بچ نہیں سکتا!
کچھ دلچسپ حقائق:
حیرت انگیز طور پر کارپٹ پر جراثیم کی کھانے ممیں منتقلی سب سے کم تھی۔ کیونکہ اُس کی سطح اونچی نیچی ہوتی ہے، اور کھانے کو کم چھوتی ہے۔
سب سے زیادہ جراثیم چوسنے والی چیز نکلی تربوز! کیونکہ وہ گیلا ہوتا ہے، اور جراثیم کو نمی چاہیے ٹرانسفر ہونے کے لیے۔
خشک چیزوں جیسے ٹافی یا روٹی پر تھوڑے کم جراثیم چپکتے ہیں، لیکن ”کم“ کا مطلب ”صفر“ نہیں!
تو، اگلی بار کیا کریں؟
جب ٹافیاں، چپس یا فرائز نیچے گریں تو ”پانچ سیکنڈ“ گننے کی بجائے، سیدھا اسے کوڑے دان میں ڈالیں۔
کیونکہ جراثیم نظر نہیں آتے، مگر آپ کا پیٹ، آپ کی صحت، آپ کی ذمہ داری ہے۔
Post Views: 3