بیرسٹر سیف سے ضلع کرم کے وفود کی ملاقات، امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
پشاور(ویب ڈیسک) مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف سے کرم کے اہلسنت اور اہل تشیع وفود نے الگ الگ ملاقات کی جس میں کرم میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
دونوں وفود نے بیرسٹر ڈاکٹر سیف کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ، فریقین نے شرپسند عناصر کے خلاف سخت کارروائیوں کی استدعا کی ، دونوں فریقین نے امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا اور امن کے قیام کے لیے سکیورٹی فورسز اور حکومت سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
وفود کے شرکاء نے کہا کہ شرپسند عناصر ضلع کرم کے امن کے دشمن ہیں، حکومت پائیدار امن کے لیے شرپسند عناصر کا قلع قمع کرے، بدامنی کے باعث علاقے میں تعلیمی، تجارتی اور دیگر معاشی و سماجی سرگرمیاں متاثرہیں۔
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے دونوں فریقین سے امن کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور خلوص نیت کے ساتھ ایک صدی سے زائد پرانےتنازع کے پائیدار حل کیلئے کوشاں ہیں، حکومت مستقل امن کے قیام کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے، فریقین شرپسند عناصر سے دور رہیں اورسرکوبی میں حکومت کا ساتھ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شرپسند عناصر اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم شرپسند عناصر کو ان کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، شرپسند عناصر نہ صرف ضلع کرم بلکہ پوری ریاست کے دشمن ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امن کے
پڑھیں:
آغا راحت کے بیان کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے، ساجد علی بیگ
انجمن امامیہ گلگت کے سابق صدر نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ خطبہ جمعہ میں قائد ملت جعفریہ گلگت بلتستان آغا راحت حسین الحسینی نے حکومتی وزراء اور سیکرٹریوں کے حوالے سے جو مذمتی بیان دیا تھا اس کو غلط رنگ دے کر اچھالا جا رہا ہے اور ان کی تحقیر کی جا رہی ہے جو کہ نہایت ہی قابل مذمت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی انجمن امامیہ گلگت کے سابق صدر ساجد علی بیگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ خطبہ جمعہ میں قائد ملت جعفریہ گلگت بلتستان آغا راحت حسین الحسینی نے حکومتی وزراء اور سیکرٹریوں کے حوالے سے جو مذمتی بیان دیا تھا اس کو غلط رنگ دے کر اچھالا جا رہا ہے اور ان کی تحقیر کی جا رہی ہے جو کہ نہایت ہی قابل مذمت ہے۔ آغا راحت اس وقت گلگت بلتستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے امن، محبت اور بھائی چارگی کا استعارہ ہیں جو آئے روز علاقے کو درپیش مسائل سے اداروں اور حکومتی حلقوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں، چاہے وہ جمعہ کے خطبوں کی شکل میں ہو یا ذیلی نشستوں میں ہو۔ انہوں نے کہا کہ جن کرپٹ افسران و وزراء کو نشانہ بنایا گیا اگر واقعی میں یہ لوگ کرپٹ نہیں ہیں تو اپنی صفائی پیش کریں، بجائے حکومتی ٹکڑوں پہ پلنے والے مشیروں اور کوارڈینیٹرز کے ذریعے سوشل میڈیا یا میڈیا پہ پریس ریلیز جاری کیے جائیں۔ آغا راحت کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ انہوں نے ہر دور میں وقت کے حکمرانوں کو جنہوں نے فرعون بننے کی کوشش کی ہے للکارا ہے، چاہے وہ مہدی شاہ کا دور ہو یا حفیظ الرحمان کا دور ہو اور چاہے موجودہ حاجی گلبر خان کا دور ہو۔ جب بھی گلگت بلتستان کے حقوق کی بات آئی ہے یا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، آغآ راحت نے کلمہ حق بلند کیا ہے اور یہ نہیں دیکھا کہ اگلے منصب پر بیٹھا ہوا شخص کون ہے، کس قوم، قبیلے سے تعلق ہے یا کس فرقے سے اس کی وابستگی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سید راحت حسین الحسینی نے ہر وقت عدل اور انصاف کی بات کی ہے اور معاشرے کو کرپشن جیسے عناصر سے پاک رکھنے کی بات کی ہے اور اس میں نہ صرف حکمرانوں کو للکارا ہے بلکہ اداروں میں بیٹھے ہوئے افسران کو بھی بارہا یاد دہانی کرائی ہے کہ ایسے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ محراب و ممبر کا کام آگاہی دینا ہوتا ہے، بتانا ہوتا ہے اور ایسے عناصر کے خلاف ثبوت جمع کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا اداروں کا کام ہوتا ہے۔ ایسے تمام کرپٹ عناصر جو ہمارے معاشرے میں ناسور بن کے بیٹھے ہوئے ہیں ان کی نشاندہی ضروری ہو چکی ہے اور آج ہر اس شخص پہ جو علاقے کا خیرخواہ ہے اور جو حق اور انصاف کی بالادستی چاہتا ہے اور علاقے کو امن کا گہوارہ اور ترقی کی راہ پر گامزن دیکھا چاہتا ہے، ایسے کرپٹ عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آچکا ہے اور ظلم، ناانصافی اور اقربا پروری کے خلاف یہی وقت جہاد ہے۔ ساجد علی بیگ نے کہا کہ ہم آغا راحت کے بیان کی تائید کرتے ہیں اور مقتدر حلقوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے عناصر کی فلفور نشاندہی کر کے ان کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اداروں سے ایسے عناصر کا خاتمہ کیا جائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو اور علاقہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ان تمام نوجوانوں، تمام مکاتب فکر کے علماء و اکابرین، سیاست دانوں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کا جنہوں نے آغا کے بیان کی تائید کی ہے ان سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔