Jasarat News:
2025-04-22@07:27:45 GMT

چیف جسٹس کا صائب مشورہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

چیف جسٹس کا صائب مشورہ

نوٹ: اسکول، کالج، یونیورسٹی اور جج وغیرہ انگریزی الفاظ ہیں، یہ اب مُوَرَّد ہیں، انہیں اردو میں قبول کرلیا گیا ہے۔ پس اب اردو میں ان کلمات کی جمع کو اردو کی طرز پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ججوں یا جج صاحبان لکھنا اور بولنا چاہیے۔ ’بیٹس مین‘ انگریزی کا لفظ ہے، جب تک صرف مرد کرکٹ کھیلتے تھے تو ’بیٹس مین‘ بولاجاتا تھا، اب چونکہ خواتین بھی کرکٹ کھیلتی ہیں، تو اس کے لیے حالیہ برسوں میں ’بیٹر‘ کی اصطلاح رائج کی گئی ہے، اس کا اطلاق لفظِ مشترک کے طور پر مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے کھلاڑیوں پر یکساں ہوتا ہے۔ پہلے بیٹس مین کو اردو میں ’بلے باز‘ بولتے تھے، مگر اب انگلش کے غلبے کی وجہ سے یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔

چیف جسٹس نے عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے کہا: ’’میں نے برادر ججوں کو مشورہ دیا تھا: سسٹم کو چلنے دیں، سسٹم کو نہ روکیں، مجھے جج لانے دیں، ہمیں چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا بلکہ حل کرنا ہے، ہمیں جاری نظام پر اعتبار کرنا ہوگا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’جج صاحبان کے خطوط لکھنے کی عادت پرانی چل رہی ہے، اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، پرانی چیزیں ہیں، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے نام لکھا جانے والا خط مجھے بعد میں پہنچتا ہے، میڈیا پر پہلے نشر ہوجاتا ہے، جج صاحبان ’پینک‘ کرجاتے ہیں، شاید انہیں اعتبار نہیں رہا‘‘۔ پینِک کے لفظی معنی ہیں: ’گھبراہٹ‘، شاید یہاں جھنجھلاہٹ مراد ہے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے جج لانے دیں، اچھے جج آرہے ہیں، جج صاحبان کے اٹھ کر چلے جانے کے سبب ایک اہل جج عدالت عظمیٰ کا حصہ بننے سے رہ گیا‘۔ انہوں نے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کو بھی عدالت عظمیٰ میں لانے کا دفاع کیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے: چیف جسٹس پاکستان جناب یحییٰ آفریدی متوازن مزاج کے حامل ہیں، اپنے مزاج میں تحمُّل اور بردباری رکھتے ہیں، جبکہ چند دوسرے جج صاحبان اس صفت سے عاری ہیں۔ موجودہ اور سابق جج صاحبان افتخار محمد چودھری، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، ثاقب نثار، عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن، سید منصور علی شاہ، منیب اختر، اطہر من اللہ، عائشہ ملک، قاضی فائز عیسیٰ، ملک شہزاد احمد خان اور عقیل عباسی اسی عدمِ تحمل کا مظہر ثابت ہوئے۔ انہوں نے پورے سسٹم کو جوتے کی نوک پہ رکھنا چاہا، حدود سے تجاوز کیا، لیکن انجامِ کار حاصل کچھ بھی نہ ہوا، یہی کیفیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی رہی۔ ایسی ہی بے اعتدالی کا مظاہرہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اُس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ مل کر کیا تھا اور اُس کے نتیجے میں ’بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم‘ کا مصداق بنے، نہ تاریخ میں عزت ملی، کیونکہ یہ اُصول پسندی کا نہیں، عُجبِ نفس اور جوڑ توڑ کا مسئلہ تھا۔ آج پاکستان کے نامور ترین ججوں کی فہرست میں اُن کا نام کہیں نہیں ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا تاثُّر بہت اچھا تھا، لیکن وہ اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ توازن کھو بیٹھے اور اپنے ’چیمبرکے ساتھی‘ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی بھی رعایت نہ کی۔

دانا لوگوں کا کام دیوار سے ٹکریں مارکر دیوار کو گرانا یا خود کو لہولہان کرنا نہیں ہوتا، بلکہ مشکل حالات میں راستہ نکالنا ہوتا ہے، نظام کو بھی لے کر چلنا ہوتا ہے اور نظام کی خامیوں کو بھی آہستہ آہستہ دور کرنا ہوتا ہے، ضدی مُعانِد کا کردار ادا کرنے کے بجائے مُصلح کا کردار ادا کرنا اعلیٰ عدلیہ کے منصِب کو زیادہ زیب دیتا ہے۔ کیا ٹکریں مار کر نوے دن میں انتخابات کا ہدف حاصل کرلیا تھا، کیا تاریخ میں عدلیہ کے اس پورے دور کو سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ کیا بین الاقوامی معاہدات کو عالمی قوانین سے ناواقفیت کی بنیاد پر ردّ کرنے کے نتائج ملک کے لیے مثبَت نکلے۔ امیر المؤمنین علی المرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی طرف یہ قولِ زرّیں منسوب ہے: ’’لَا تَکُنْ لَیِّنًا فتُعْصَرَ وَلَا یَابِسًا فُتُکْسَر‘‘، ترجمہ: ’’اتنے نرم نہ بنو کہ تمہیں نچوڑ دیا جائے اور اتنے خشک بھی نہ بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے‘‘۔ یعنی ایک سلیم الفطرت اور متوازن انسان کے مزاج میں اعتدال ہوتا ہے، لچک ہوتی ہے، وہ ایک حد تک دبائو بھی قبول کرتا ہے اور ایک حد تک مزاحمت بھی کرتا ہے، لیکن معاملے کو بند گلی میں جانے نہیں دیتا۔

رسول اللہؐ کو نماز میں خشوع وخضوع بے انتہا پسند تھا، نماز کی معراج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی درجے کی حضوری ہے کہ کسی اور طرف ذہن متوجہ ہی نہ ہو۔ مگر آپؐ اپنے ربّ کی حضوری میں بھی لوگوں کے بشری احوال کی رعایت فرماتے تھے، حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: (کبھی) میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں، اس دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کو پریشان کردے گا (اور نماز میں اس کی توجہ بٹ جائے گی)‘‘۔ (مسند احمد) الغرض ایک ماں کی قلبی کیفیت کی رعایت فرماتے ہوئے رسول اللہؐ اپنی شدید خواہش کے باوجود نماز کو مختصر فرما دیتے تھے۔

’’سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں فجر کی جماعت چھوڑ دیتا ہوں، کیونکہ (فلاں) امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے، پس رسول اللہؐ اتنے غضب ناک ہوئے کہ میں نے کسی اور موقع پر آپ کو اس کیفیت میں نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض (لوگوں کودین سے) متنفر کرنے والے ہیں، پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے، وہ اعتدال سے کام لے، کیونکہ اس کی اقتدا میں کمزور، بوڑھے اور کام کاج پر جانے والے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں‘‘، (بخاری) اس سے پہلی حدیث میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ’’اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہا اپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔

ایک این جی او کی بیگم کے اُکسانے پر اور اپنی اَنا کے سبب اُس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ کراچی میں ’نسلا ٹاور‘ کے مکینوں کو پرتعیّش فلیٹوں سے اتار کر فٹ پاتھ پر لاکھڑا کیا، اُن کے بحیثیت ِ مجموعی اربوں روپے ایک انا پرست شخص کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگئے، اُن کو اپنے فیصلے میں کوئی تحفظ بھی نہ دیا، حالانکہ ایک معقول حل موجود تھا کہ جرمانہ لگاکر ان فلیٹوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دی جائے، اسلام آباد میں ثاقب نثار ایسا کرچکے تھے۔ حکومت کو رقم بھی مل جاتی اور لوگوں کی جمع پونجی بھی تباہ وبرباد نہ ہوتی۔ لیکن اس سنگدل انسان کے دل میں ذرا بھی ترس نہ آیا، لوگوں کو رُلادیا اور وہ رُل گئے۔ وہ لوگ آج بھی اُس شخص کو بددعائیں دے رہے ہوں گے اور تین کروڑ کی آبادی والے شہر میں چند ہزار انسان بھی نہیں ہوں گے جو اُن کا نام عزت اور احترام سے لے رہے ہوں۔ آج وہ تاریخ کے ملبے تلے دفن ہوچکے ہیں، فرعونی مزاج کا انجام ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔

ہم بحیثیت ِ ملک وقوم کبھی بھی مثالی صورتِ حال میں نہیں رہے اور حالاتِ حاضرہ میں تو قطعاً نہیں ہیں، چند صاحبِ منصب شخصیات کی انتہائی حد تک ناپسندیدگی کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا ہرگز دانش مندی نہیں ہے۔ دو صوبوں میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، روزانہ کے حساب سے ہمارے فوجی جوان وافسر اور عام شہری جان سے ہاتھ دھورہے ہیں، شہید ہورہے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا بھی مُدّعا یہی معلوم ہوتا ہے کہ نظام کتنا ہی برا ہو، اُس کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا دانش مندی نہیں ہے۔ ہم من حیث القوم انقلابی ہیں، نہ یہاں کوئی انقلابی تحریک چل رہی ہے، نہ قوم کا مزاج انقلابی ہے اور نہ انقلابی قیادت یہاں میسر ہے۔ جو کچھ بھی ہمیں حاصل کرنا ہے، اس نظام کے اندر رہتے ہوئے حاصل کرنا ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی کے بقول 2018 کے قومی انتخابات چوری ہوئے اور 2024 کے انتخابات میں ڈکیتی ہوئی، پس کوثر وتسنیم میں دھلا کوئی بھی نہیں ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کبھی بھی آئین میں دی گئی خود مختاری کی حامل نہیں رہی، یہی صورتِ حال عدلیہ کی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم پابندیوں میں انتہائی تابع فرمان بن جاتے ہیں اور آزادی کی ہوا چلے تو ساری حدیں عبور کرجاتے ہیں، توازن کھوبیٹھتے ہیں اور جمع شدہ پونجی بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں، ہم نے 1960 کے عشرے سے پاکستان کی تاریخ کو دیکھا اور برتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس انہوں نے ہوتا ہے نہیں ہے ا ہستہ بھی نہ ہے اور

پڑھیں:

امرود

امرود کا نباتاتی نام پسیڈیم گواوا (psidium guajava) ہے.

تاریخی پس منظر

امرود کی ابتدا ایک ایسے علاقے سے ہوئی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ میکسیکو وسطی امریکا یا شمالی جنوبی امریکا سے پورے کیروبین خطے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پیرو میں آثارقدیمہ کے مقامات سے امرود کی کاشت کے ثبوت قبل از مسیح کے اوائل میں ملے ہیں۔ امرود 19 ویں صدی میں فلوریڈا، امریکا میں متعارف کرائے گئے تھے۔ تقریباً سیب اور امرود کی کاشت دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔ امرود جنوبی مغربی یورپ میں بھی اُگتے ہیں، خاص طور پر اسپین اور یونان میں۔ امرود کے پودے دو سال کے اندر اندر پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی پودے 40 سال تک پھل دیتے ہیں۔ پتے گہرے بھاری ہوتے ہیں۔ یہ بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ ان کی لمبائی پانچ سے پندرہ سینٹی میٹر یا دو سے چھے انچ تک ہوتی ہے۔ پھول سفید ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں خوش نما نظر آتے ہیں۔ سائنسی لحاظ سے اس کے پھل اور پتوں میں وٹامن سی اور پوٹاشیم سمیت کئی غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ امرود دل، ہاضمے اور جسم کے دیگر اعضاء کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ پھل رنگت کے اعتبار سے ہلکے سبز اور پیلے ہوتے ہیں۔ کچا پھل سخت جب کہ پکنے پر نرم ہو جاتا ہے۔ شکل و صورت ناشپاتی جیسی ہوتی ہے۔

اس کے گودے میں چھوٹے چھوٹے بیچ ہوتے ہیں۔ اس کے پودے ہر قسم کی زمین میں اُگنے کی وجہ سے تجارتی درجہ اختیار کرگئے ہیں۔ امرود کی کاشت مرطوب اور معتدل آب و ہوا والے علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی کاشت پاکستان کے تمام شہروں میں کی جاتی ہے۔ 2019 کے اعدادوشمار کی مطابق اسے سات ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں زیادہ تر اس کی کاشت شیخوپورہ، قصور، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد، گوجرانوالہ۔ خیبر پختونخوا میں کوہاٹ، بنوں، ہری پور ہزارہ، سندھ میں حیدرآباد، لاڑکانہ زیادہ مشہور ہیں۔

پاکستان میں امرود کی اوسط پیداوار 4.7 ٹن فی ہیکٹر ہے۔

اقسام:

امرود کی مجموعی طور پر 30 اقسام ہیں۔ تاہم اختصار کے سات دس اہم پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔

ٹراپیکل وائٹ

یہ جنوبی ایشیا میں بڑے پیمانے پر اُگائی جانے والی قسم ہے۔ نمی والی زمین میں اُگنے کے لیے موزوں ہے۔ مٹی نہ زیادہ گیلی اور نہ زیادہ خشک ہو۔ اس کے پودے 20 سینٹی گریڈ درجۂ حرارت برداشت کر لیتے ہیں۔ یہ پودے 20 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ یہ قسم ایک سال میں پھل دینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ پھل بڑا اور بھاری ہوتا ہے۔

اس کا قطر تین سے چار انچ تک ہوتا ہے۔ یہ سال میں دو بڑی فصلیں دیتا ہے۔ اگست سے اکتوبر اور پھر فروری سے مارچ تک۔ یہ ذائقے میں میٹھا اور تھوڑا سا تیزابی ہوتا ہے۔ اس کا گودا اندر سے مضبوط ہوتا ہے۔

میکسیکن کریم

جیسا نام سے ظاہر ہے اس قسم کی کاشت میکسیکو اور وسطی امریکا میں بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس قسم کے درخت چالیس سال تک زندہ رہتے ہیں۔ یہ پودے 30 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ یہ گرم مرطوب موسم میں پرورش پاتے ہیں۔ یہ سارا سال دست یاب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود جنوبی کیلیفورنیا میں فصل کی کٹائی موسم خزاں میں شروع ہوتی ہے۔

اس کی خوشبو انناس جیسی ہوتی ہے۔ پکنے پر پھل سرخ اور زرد ہو جاتا ہے۔

چائنا وائٹ

یہ ناشپاتی جیسا پھل مختلف ناموں سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ مثلاً تھائی امرود، تائیوان امرود، ایشیائی امرود اور ایپل امرود۔ اس قسم کے پودے 12 سے 20 فٹ اونچے اور آٹھ فٹ چوڑے ہوتے ہیں۔ یہ بھاری اثر والا پھل ہے۔ اس کے پودے ایک سے دو سال کے دوران پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ عموماً سفید گودے والے امرود سارا سال دست یاب رہتے ہیں۔ پھل دیگر امرود کی نسبت زیادہ بڑا اور وزن تقریباً ایک پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ جیسے جیسے پھل پکتا ہے۔ یہ خوش گوار مہک خارج کرتا ہے۔ اس کی جلد سبز سے پیلی ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے آرائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سویٹ وائٹ انڈونیشین

جیسے نام سے ظاہر ہے کہ یہ پودا انڈونیشیا سے آتا ہے۔ اس کا تعلق سدابہار پودے سے ہے۔ اس کی جلد زرد سبز ہوتی ہے۔ اس کے گودے کا رنگ سفید، گلابی اور کریم جیسا ہوتا ہے۔ یہ ذائقے کے اعتبار سے کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔ مقامی لوگ اسے ناشتے میں بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

جینٹ ویتنام

امرود کی اقسام میں جینٹ ویت نامی امرود کا سائز سب سے بڑا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ اس طرح کے دوسرے ناموں سے واقف ہوں۔ مثلاً بینکاک جینٹ ، ایشین جینٹ وغیرہ۔

یہ ایک پیداواری پودا ہے براعظم ایشیا میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ یہ قدوقامت میں 12 فٹ تک ہوتا ہے۔ اس کے لیے گرم آب ہوا کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً جب بہار شروع ہوتی ہے تو سفید پھول کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پہلی فصل ایک سے دو سال کے اندر مل جاتی ہے۔ پھل کا وزن 1.5 سے 2.7 پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ یہ قسم زیادہ تر مشروبات بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

کاس ریکن گواوا

یہ ایک چھوٹا سا درخت ہے۔ یہ جنوبی امریکا کا مقامی پودا ہے۔ یہ کاستہ ریکن کی ثقافت اور کھانوں میں اہم مقام رکھتا ہے۔ موسم خزاں میں پکنے پر پیلا ہوجاتا ہے۔ عموماً پھل ایک سے دو انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ یہ پودے سردی کو کم برداشت کرتے ہیں۔ ان کے لیے زیادہ درجۂ حرارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان پودوں کی اونچائی 20 سے 35 فٹ تک جاتی ہے۔ یہ پھل ایک مخصوص ذائقہ فراہم کرتا ہے۔ مزید ٹارٹک اور انناس کی یاد دلاتا ہے۔ یہ قسم زیادہ تر کہلاتی ہے۔ اس لیے اکثر اس پھل کا جوس بنایا جاتا ہے۔ پکانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قسم سارا سال پھل دیتی ہے۔ سب سے بڑی فصل دسمبر سے فروری تک پھر جون سے اگست تک پھل دیتی ہے۔

وائٹ انڈین

یہ قسم فلورائڈا میں پائی جاتی ہے۔ اس کے پودے دو سے تین انچ قطر کے چھوٹے سے درمیانے سائز کے پھل کی شان دار پیداوار دیتے ہیں۔ یہ سدا بہار درخت ہندوستان اور امریکا میں بڑے پیمانے پر کاشت کیے جاتے ہیں۔ یہ سردیوں کے آخر اور موسم بہار کے شروع میں پھل دیتے ہیں۔ پکنے کے بعد پھل کی خوشبو کیلے اور انناس جیسی ہوتی ہے۔ آپ ایسا محسوس کریں گے جیسے کسی باغ میں گھوم رہے ہیں۔

ان کی جلد کافی حد تک سخت ہوتی ہے۔ پھل میں موجود بیج بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔ عموماً گودا نرم ہوتا ہے جب کہ ذائقہ ہلکا کھٹا میٹھا۔ دوسری اقسام کے مقابلے میں یہ سفید فارم انڈین زیادہ سرد ہیں۔ یہ سردی کو زیادہ برداشت کرنے والی فصل ہے۔ یہ پودے 20 سے 22 فٹ تک بڑھتے ہیں۔

ایپل سیڈلیس گواوا

یہ بیج کے بغیر پھل ہوتا ہے۔ اس سے ایپل امرود بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قسم زیادہ تر ہندوستان، جنوب مشرقی ایشیا مثلا تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں پیدا ہوتے ہیں۔ جب خزاں شروع ہوتی ہے تو دن اور رات کے درمیان درجۂ حرارت کی تبدیلی امرود کی مٹھاس بڑھا دیتی ہے۔ اس قسم کے پودے 6 سے 32 فٹ تک بڑھتے ہیں۔ پھل 1.9 سے 3 انچ تک بڑا ہوتا ہے۔ گودا خوشبودار ہوتا ہے۔ اس میں آڑو جیسی مہک پائی جاتی ہے۔ یہ قسم ستمبر سے نومبر تک پھل دیتی ہے۔ اس کا پھل گچھوں کی صورت میں پکتا ہے۔ عموماً پھل میں بیج نہیں ہوتا۔ دوسری اقسام کی نسبت زیادہ مضبوط اور میٹھی ہے۔ اسے توڑ کر زیادہ تر کھایا جاتا ہے۔ بطور سلاد بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ناشتے میں بھی کھایا جا سکتا ہے۔ ادویات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایجپٹین یلو

یہ قسم گرم آب و ہوا میں زیادہ پھلتی پھولتی ہے۔ ان کی لمبائی 20 سے 40 فٹ تک مشہور ہے۔ پھل کا رنگ پیلا اور سائز چار انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ پھل کا موسم بہار اور گرمیوں میں ہوتا ہے۔ پھل 60 سے 90 دنوں میں پک جاتا ہے۔ یہ اندر سے میٹھا اور راست دار ہوتا ہے۔ مصری پیلے امرود کی خوشبو کی وجہ سے اسے شیمپو کی مصنوعات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پودے گھریلو آرائش کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کام یاب فصل حاصل کرنے کے لیے اس کے پودوں کو باقاعدگی سے پانی دینا پڑتا ہے۔ عموماً پودے دو سال بعد پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔

الہ آباد صفدہ

یہ ہندوستان میں دست یاب امرود کی سب سے زیادہ محفوظ قسم ہے۔ یہ الہ آباد کا سب سے مشہور اور مطلوب پھل ہے۔ یہ قسم تقریبا 30 سے زائد ممالک میں دست یاب ہے۔ اگر آپ اسے امریکا میں اگانا چاہتے ہیں تو 9 سے 12 سینٹی گریڈ درجۂ حرارت کافی ہے۔ اس کی کاشت اکثر اس کے آبائی ممالک میں سال بھر جاری رہتی ہے۔ یہ پودے 19 سے 30 فٹ تک بڑھتے ہیں۔ درخت کا بیرونی چھلکا ناقابل یقین حد تک نرم ہوتا ہے۔ پھل عام طور پر گول ہے۔ اسے کھائیں تو منہ خوش گوار مٹھاس سے بھر جاتا ہے۔

مجموعی پیداوار

امریکی ادارے فوسٹ (FAOAST) 2022 کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی سالانہ پیداوار 59.2 ملین ٹن تھی۔ ہندوستان کے پاس پیداوار کا کل حصہ تقریبا 44 فی صد ہے۔ دیگر ممالک میں اس کا پیداواری حجم مندرجہ ذیل ہے:

٭  انڈیا   26.3

٭  انڈونیشیا           4.1

٭  چین   3.8

٭  پاکستان            2.8

٭  میکسیکو             2.5

٭  برازیل           2.1

دفاعی مرکبات

٭   Tannis                 ٭   flavonoids

٭   pentacyclic                     ٭   Carotenids

٭   Polyphennols     ٭   Saponins

٭   Triterpenoids

غذائی حقائق

100 گرام یعنی 3.5 اونس امرود میں مندرجہ ذیل غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔

٭  توانائی             68 کیلوریز

٭  کاربوہائیڈریٹس 14.32گرام

٭  شکر               8.92 گرام

٭  ڈائٹری فائبر    5.4 گرام

٭  پروٹین                       2.55 گرام

٭  پانی               81 گرام

٭  لائکوپین                     5200 مائیکرو گرام

حیاتین / Vitamins مقدار / Quantity

٭  بیٹا کیروٹین      3743 مائیکرو گرام

٭  تھایا مین بی ون   0.0676 % ملی گرام

٭  رائبو فلیون بی ٹو 0.043 % ملی گرام

٭  نیا سین بی تھری 1.0847 % ملی گرام

٭  پینٹوتھینک ایسڈ 0.4519 % ملی گرام

٭  وٹامن بی سکس  0.118 % ملی گرام

٭  فولک ایسڈ                    4912 % مائیکرو گرام

٭  وٹامن کے                   2.22 % مائیکرو گرام

معدنیات / Minerals مقدار / Quantity

٭  کیلشیم             18 % ملی گرام

٭  آئرن            0.262 % ملی گرام

٭  مگنیشیم                       226 % ملی گرام

٭  میگنیز             0.157 % ملی گرام

٭  فاسفورس                     406 % ملی گرام

٭  پوٹاشیم                       4179 % ملی گرام

٭  سوڈیم            20 % ملی گرام

٭  جست                        0.232 % ملی گرام

طبی فوائد:

طبی لحاظ سے امرود کھانے کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔

ہاضمہ کی بہتری کے لیے

امرود میں پائے جانے والے اہم غذائی اجزاء میں سے ایک فائبر ہے۔ فائبر پاخانے کو ٹھوس اور نرم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ اسہال اور قبض دونوں کی علامات کو کم کرتا ہے۔ مطالعے سے اس بات کا بھی پتا چلا ہے کہ اس کے پتوں کا عرق اسہال کی شدت کم کر دیتا ہے۔ چڑچڑا پن ختم کر دیتا ہے۔ طبی لحاظ سے امرود کے پتوں کا عرق اینٹی مائیکرو بیل ہے۔ اس کا عرق آنتوں میں موجود نقصان دہ جرثوموں کو بے اثر کر دیتا ہے۔

خواتین کے لیے

ایسی خواتین جن کو ماہواری کے دوران درد ہوتا ہے وہ امرود کے پتوں کا عرق ضرور پییں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امرود کے پتوں کا عرق ماہواری کے درد سے نپٹنے کے لیے درد کش ادویات سے کہیں زیادہ موثر ہے۔

آنکھوں کے امراض

امرود وٹامن اے سے بھرپور پھل ہے، کیوںکہ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے بینائی بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر ا سے روزانہ کی بنیاد پر کھایا جائے تو سفید موتیا یا میکولر ڈی جنریشن جیسی علامات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگرچہ گاجر میں وٹامن اے بکثرت پایا جاتا ہے۔ تاہم امرود میں دوسرے نمبر پر وٹامن اے کی بکثرت مقدار پائی جاتی ہے۔

صحت مند جلد

امرود جلد کی رنگت کو کئی اعتبار سے خوب صورت بناتا ہے۔

امرود میں اینٹی آکسیڈنٹ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ قبل ازوقت بڑھاپے کو روک دیتا ہے۔ چہرے کی جھریوں سے بچاتا ہے۔ جلد کی ساخت کو تر اور چمک دار بناتا ہے۔ اس میں وٹامن کے کی مقدار کیل مہاسوں کے علاج میں مفید ہے۔ سیاد دھبوں اور حلقوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

وبائی امراض

امرود وبائی امراض سے لڑنے کی بھرپور قوت رکھتا ہے۔ وٹامن سی سے بھرپور ہے۔ یہ کھانسی کو روکتا ہے۔ یہ بلغم توڑنے میں مدد دیتا ہے۔ گلے اور سانس کے امراض میں بہتری لاتا ہے۔ یہ جراثیم کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے۔

تناؤ میں کمی

امرود میں مگنیشیم کی خاص مقدار پائی جاتی ہے جو قدرتی طور پر جلد اور تناؤ کے پٹھوں کو سکون دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آپ تناؤ والے ماحول میں کام کرتے ہیں تو دوپہر کے کھانے کے بعد امرود کھانا اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔

وزن میں بتدریج کمی

صحت مند متوازن غذا میں امرود کو شامل کرنا وزن میں بہ تدریج کمی کا باعث ہے۔ یہ ایک پیٹ بھرنے والا پھل ہے۔ یہ وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور پھل ہے، کیوںکہ اس میں صرف 37 کیلوریز ہوتی ہیں۔

یادداشت بڑھانے کے لیے

امرود وٹامن بی سے بھرپور پھل ہے۔ یہ دماغی گردش بہتر بناتا ہے۔ علمی کارکردگی بڑھاتا ہے۔ پوٹاشیم کی موجودگی یادداشت کو بہتر بناتی ہے۔

قلبی صحت

امرود کا باقاعدگی سے استعمال بلڈ پریشر کو کم اور برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ جسم میں پوٹاشیم اور سوڈیم کی مقدار متوازن رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ ٹرائی گلیسرائڈ کی سطح کم کر دیتا ہے۔ دل کے امراض سے تحفظ بخشتا ہے۔ بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ امرود کے پتوں میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ اور وٹامنز کی اعلٰی سطح دل کو آزاد ریڈیکل کے نقصان سے بچانے کی قدرت رکھتی ہے۔

قوت مدافعت بڑھانے کے لیے

امرود میں موجود وٹامن سی غذائی اجزاء اور معدنیات سے بھرپور پھل ہے۔ اس میں سنگترے سے زیادہ وٹامن سی کی مقدار پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سے دور رہنے کے لیے دن میں ایک امرود ضرور کھائیں۔

بلڈ شوگر کم کرنے کے لیے

طبی لحاظ سے امرود بلڈ شوگر میں واقع کمی لاتے ہیں۔ اس کے پتوں کا عرق پینا انتہائی مفید ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس والے 20 افراد میں ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امرود کے پتوں کی چائے پینے سے بلڈ شوگر کی سطح میں 10 فی صد کمی آ گئی۔

کینسر سے بچاؤ

امرود کے پتوں میں کینسر کو روکنے کی بھرپور استعداد موجود ہے۔ اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ اور وٹامنز فری ریڈیکل سے لڑنے کی بھرپور استعداد رکھتے ہیں۔ یہ کینسر کی نشوونما والے سیلز کو فوری طور پر روک دیتا ہے۔     

احتیاطی تدابیر

امرود کھاتے وقت مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔

 ایسے لوگ جو الرجی کا شکار ہیں مثلاً خارش یا سانس میں دشواری انہیں چاہیے کہ وہ اسے کھانے سے گریز کریں۔

 امرود میں چوںکہ فائبر کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اسے اعتدال سے کھائیں۔ زیادہ کھانے سے گیس یا پیٹ میں اپھارہ ہو سکتا ہے۔

 جن لوگوں کا خون گاڑھا رہتا ہو انہیں بھی اسے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

 پائریا کے مریضوں کو امرود کو ماڈرن اسٹائل میں کھانا چاہیے خاص طور پر جن کے دانت بھربھرے ہوں۔

امرود کو کھانے سے پہلے ہمیشہ اچھی طرح دھو لیں تاکہ مٹی اور جراثیم اتر جائیں۔

 خواتین کو پریگننسی اور بریسٹ فیڈنگ کے دوران اسے احتیاط سے کھانا چاہیے۔ بہت زیادہ کھانے سے یوٹرس پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے لندن میں قیام بڑھا دیا
  • معروف شیف ذاکر حسین انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • امرود
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • کسی صوبے کا دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: احسن اقبال
  • وہ ملک جس نے بجلی کی بچت کے لیے مساجد میں نماز کا دورانیہ مختصر کر دیا
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • طلال چودھری کو مشورہ ہے وہ نون لیگ کی تنظیم سازی پر توجہ دیں، عمر ایوب
  • سوشل میڈیا سے خوفزدہ لوگ اپنے غصے کو ٹھنڈا کریں، عارف علوی کا مشورہ