WE News:
2025-04-22@06:02:21 GMT

زچگی کے عمل کا دوسرا فریق

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

وجائنل ڈلیوری کو آئیڈیل مانتے اور سیزیرین زچگی پر لعنت بھیجتے ہوئے بیشتر لوگ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ ڈیلیوری کے اہم ترین فریقین میں عورت، گھر والوں اور ڈاکٹر کے علاوہ ایک اہم ترین فریق اور بھی ہوتا ہے، یعنی بچہ!

زچگی کے عمل میں عورت اور بچہ ایک ایسا سفر طے کرتے ہیں جس کا ہر پیچ وخم  ایک اندھا موڑ ہے جس کے آگے کھائی ہے یا منزل، جاننا مشکل ہے۔ سو انہیں ایک ایسا رہبر چاہیے جو بروقت بھانپ سکے کہ کس وقت کیا ہونے والا ہے اور اب کیا کرنا چاہیے۔

احباب کو بہت شوق ہے یورپ اور امریکا میں زچگی کی مثالیں دینے کا سو وہیں کی بات کر لیتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ہر زچگی تربیت یافتہ مڈوائف اور ڈاکٹر کی نگہداشت میں ہوتی ہے۔ بعض مڈوائفز تو بسا اوقات ڈاکٹر سے بھی زیادہ سمجھ دار ہوتی ہیں اور ڈیوٹی ڈاکٹر کے چھکے چھڑا دیتی ہیں۔

ہمیں سعودی عرب کے جس اسپتال میں کام کرنے کا موقع ملا وہاں سب مڈوائفز ساؤتھ افریقین تھیں۔ حد سے زیادہ ہوشیار اور کائیاں کہ ڈاکٹر کی معمولی سی لغزش بھی بھانپ لیتیں اور بااعتماد اس قدر کہ شکایت کرنے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے پاس پہنچ جاتیں۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی مجال نہیں تھی کہ وہ ان کی بات کو نظر انداز کریں۔ سو سب ڈاکٹرز بہت محتاط رہ کر کام کرتے اور اگر مڈوائف کسی مسلے کی نشان دہی کرتیں، ڈاکٹر فورا اس پر کان دھرتے۔ ہم نے پہلی بار وہاں جانا کہ نرسنگ اسٹاف اور مڈوائف کی اتھارٹی اور رائے کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

اسٹاف کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکا میں زچگی کے عمل کو مسلسل سی ٹی جی کی مدد سے مانیٹر کیا جاتا ہے اور بچے کے دل کی دھڑکن کا گراف پیپر مشین سے ریکارڈ ہو کر نکلتا رہتا ہے۔ ڈیلیوری کا عمل اگر طویل ہو جائے تو 200،100 میٹر گراف تو کہیں نہیں گیا۔

ہر مریضہ کے ساتھ ایک مڈوائف زچگی کے پورے عمل کے دوران موجود رہتی ہے جو نہ صرف اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے بلکہ اس کا پیٹ سہلاتی، پانی پلاتی، پوزیشن بدلواتی، ڈرپ لگواتی اور پیشاب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر انہونی کی طرف نظر رکھتی ہے خاص طور پر سی ٹی جی مشین کی طرف۔ یاد رہے کہ سی ٹی جی گراف پڑھنے میں بھی وہ ہوشیار ہے سو جونہی شائبہ ہو کہ سی ٹی جی میں کچھ گڑبڑ ہے، مڈوائف ڈاکٹر کو کال کرتی ہے کہ آکر دیکھو۔ جونیئر ڈاکٹر اگر مصروف ہو تو وہ فوراً سینیئر ڈاکٹر کا فون ملا لیتی ہے۔ کسی ڈاکٹر کی مجال نہیں کہ اس کی بات نہ سنے یا اسے جھاڑ  دے۔ بخدا جب کبھی ہمیں مڈوائف کی کال آ جاتی کہ جونیئر دوسرے کمرے میں مصروف ہے، تم پہنچو۔ ہم اسپتال کے جس کونے میں بھی ہوتے وہاں سے دوڑ لگا دیتے کہ مڈوائف ڈاکٹر کے پہنچنے کاوقت بھی نوٹ کرتی ہے اور ڈاکٹر کو سی ٹی جی گراف پر اپنی مہر لگانی ہوتی ہے کہ اس مرحلے پر ڈاکٹر پہنچ گیا تھا۔ مڈوائف کی بات سن کر اور مریضہ پلس سی ٹی جی کا معائنہ کر کے فیصلہ ڈاکٹر کو کرنا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟

اگر سی ٹی جی ظاہر کرے کہ بچے کو آکسیجن ٹھیک طرح نہیں مل رہی اور بچے کی طبعیت خراب ہو رہی ہے تب اگلا قدم اس آبزرویشن کو کنفرم کرنا ہے۔

وجائنا میں ایک اوزار ڈال کر بچے کے سر پر بلیڈ سے ہلکا سا کٹ لگا کر خون کے 2، 3 قطرے لیے جاتے ہیں اور انہیں ایک مشین میں ڈال کر پی ایچ چیک کی جاتی ہے۔

انسانی خون کی پی ایچ 7 اعشاریہ 2 سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر بچے کے خون کی پی ایچ اس سے کم ہو مگر 7 اعشاریہ ایک سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ دیر انتظار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پی ایچ 7 اعشاریہ ایک سے کم نکلے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ فوراً پیدا کروایا جائے۔ فوراً کا مطلب فوراً۔

اب یہ ہے وہ فوراً جس پر پاکستانی عوام ڈاکٹرز پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ ابھی تک تو سب ٹھیک تھا پھر ایک دم کیسے سب بدل گیا؟

یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ پاکستان میں نہ تو بچے کے سر سے خون کے قطرے لے کر پی ایچ چیک کرنے والا سسٹم موجود ہے، نہ ایسی مڈوائفز جو’ون ٹو ون‘ کی بنیاد پر ہر مریض کے سرہانے بیٹھیں، نہ ہر مریض کے لیے علیحدہ سی ٹی جی مشین اور نہ ہی مشین میں 200،100 میٹر گراف پیپر۔

پاکستان میں ایک انار سو بیمار کے مصداق ڈھیروں مریضوں میں ایک 2 نرسیں، ایک آدھ سی ٹی جی مشین، گراف پیپر کی قلت اور ایک 2 ڈاکٹر۔ سرکاری اسپتال ہو تو معمولی تنخواہ میں کام کر کر کے بے حال اور پرائیویٹ اسپتال ہو تو ڈاکٹر کی مہارت مشکوک۔

کوئی بھی ڈیلیوری اس وقت تک محفوظ نہیں ہے جب تک مریضہ کے پاس ’ون ٹو ون‘ نرس یا مڈوائف، مسلسل چلتی سی ٹی جی مشین اور ماہر ڈاکٹر موجود نہ ہو۔

اسی لیے جب تقابل کیا جاتا ہے یورپ اور امریکا کے لیبر روم اور سہولیات سے جن کا عشر عشیر بھی ہمارے یہاں موجود نہیں تو ہم سر پیٹ لیتے ہیں۔

ایسے حالات میں کوئی بھی درد دل رکھنے والی ڈاکٹر ماں اور بچے کی زندگی کی ذمہ داری کیسے اُٹھائے؟ اس سوال کا جواب سب کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیے: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟

زچگی کے عمل میں جب بچے دانی سکڑتی ہے تب بچے کو پہنچنے والی آکسیجن منقطع ہو جاتی ہے ۔ یہ وقفہ درد کا وقت ہوتا ہے یعنی یوں سمجھیے کہ ماں کو ہونے والے ہر درد میں بچے کو آکسیجن نہیں پہنچتی۔ ایک سے دوسرا درد آنے کے بیچ جو وقفہ ہوتا ہے اس میں آکسیجن کی سپلائی دوبارہ بحال ہوتی ہے۔ سو بچہ مسلسل آکسیجن کی سپلائی کی کمی اور بحالی کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل سی ٹی جی مشین کے گراف پیپر پر ریکارڈ ہوتا رہتا ہے اگر سی ٹی جی مشین مسلسل چلتی رہے تو۔

ماہر ڈاکٹر اور مڈوائف آکسیجن کی کمی اور بحالی کے وقت پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر انہیں لگے کہ آکسیجن کمی کا دورانیہ زیادہ ہو گیا ہے اور بحالی کا کم تب سوچا جاتا ہے کہ کیا کیا جائے؟

کیا بچہ ایسی جگہ پر ہے کہ اسے اوزار لگا کر نکالا جائے؟ یا ابھی وہ اس مرحلے سے دور ہے؟

اگر بچے اوزاری ڈیلیوری والی جگہ پر ابھی نہیں پہنچا اور بچے کی آکسیجن کمی کا وقت زیادہ ہوتا جا رہا ہے تب آپ بتائیے کیا کیا جائے؟

مزید پڑھیں: چھلاوہ حمل!

لیکن یاد رکھیے کہ زچگی کی اس سائنس پر مہارت ہونے کے لیے وہ سب عناصر درکار ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا۔ یقین کیجیے یہ سب ہمیں ڈاکٹر بن کے بھی نہیں آتا تھا، اس کے پیچھے برسہا برس کی ریاضت اور بدیسی یاترا شامل ہے۔

اسی لیے تو ہمارے تصورمیں کروڑ پکا، کوٹ ادو، لیہ، قصور، احمد نگر چٹھہ ، ژوب، چترال ، اسکردو، زیارت، تھر اور ان کے آس پاس کے سب دیہاتوں میں بسنے والی عورتیں آتی ہیں کہ کیا کرتی ہوں گی وہ سب اور ان کے پیٹ میں موجود بچہ؟

آپ بھی سوچیے!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پی ایچ زچگی زچگی کا دوسرا فریق زچہ و بچہ سیزیرین ڈیلیوری مڈوائف مڈوائف کی اہمیت نارمل ڈیلیوری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ایچ زچگی زچگی کا دوسرا فریق زچہ و بچہ سیزیرین ڈیلیوری مڈوائف نارمل ڈیلیوری یورپ اور امریکا سی ٹی جی مشین مڈوائف کی گراف پیپر زیادہ ہو ڈاکٹر کی ہوتی ہے ہوتا ہے اور بچے بچے کے ہے اور پی ایچ ہیں کہ کی بات کے لیے

پڑھیں:

شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا یوم وفات عقیدت واحترام سے آج منایا جارہا ہے

حکیم الامت، مفکرپاکستان اور  شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا یوم وفات پورے عقیدت واحترام سے آج منایا جارہا ہے۔علامہ اقبال کے یوم وفات پرصدر مملکت  نے ان کی سیاسی اور فکری خدمات پرخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ علامہ اقبال کے افکار، فلسفہ اور شاعری ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، ہمیں اپنی زندگی میں پیغامِ اقبال پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ اقبال کے نزدیک نوجوان ہی وہ طاقت ہیں جو قوموں کوعروج پرپہنچاسکتےہیں، نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہےتاکہ وہ ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔یاد رہے کہ علامہ اقبال نے 21 اپریل 1938 کو 61 سال کی عمر میں وفات پائی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • وائس چانسلر کا انتخاب؛ این ای ڈی کے لیے تین نام شارٹ لسٹ
  • شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا یوم وفات عقیدت واحترام سے آج منایا جارہا ہے
  • ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 87 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • پیکر کردار مثالی لوگ
  • پنجاب اور کے پی میں 1 ہفتے میں دوسرا زلزلہ
  • پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا