WE News:
2025-04-22@11:29:20 GMT

جرمنی میں 4 لاکھ ملازمتیں، ویزہ کیسے اپلائی کریں؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

جرمنی میں 4 لاکھ ملازمتیں، ویزہ کیسے اپلائی کریں؟

جرمنی کو نئے ڈیجیٹل ویزا سسٹم کے تحت 4 لاکھ ہنر مند غیرملکی کارکنوں کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں بڑی تعداد میں ملازمین کی ضرورت، کوالیفکیشن کیا ہو؟ تنخواہ کتنی ملے گی؟

جرمنی  نے باضابطہ  طور پر اپنا قونصلر سروسز پورٹل متعارف کرایا ہے، جس سے دنیا بھر کے افراد جرمن ویزا کے لیے آن لائن درخواست دے سکتے ہیں، یہ ڈیجیٹل اقدام جرمنی کے ویزے کے حصول میں رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے  غیر ملکی ہنر مند کارکنوں، اپرنٹس اور طلبا کے لیے ویزا منظوری کے عمل کو تیز کرتا ہے۔

جرمنی کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا

جرمنی کو مزدوروں کی نمایاں کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے حکومت بین الاقوامی ٹیلنٹ کو فعال طور پر تلاش کرنے کے لیے  کوشاں ہے، جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے ملک کی اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے اور عالمی مسابقت کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ کم از کم 4 لاکھ ہنر مند کارکنوں کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

2025 کے لیے جرمنی میں زیادہ مانگ والے شعبے

جرمنی مندرجہ ذیل صنعتوں میں زبردست مانگ کے ساتھ 28 زمروں میں پیشہ ور افراد کو بھرتی کر رہا ہے۔

ہنر مند تجارت اور دستکاری: تعمیراتی کارکن، الیکٹریشن، پلمبر، بڑھئی، مکینکس

صحت اور بزرگوں کی دیکھ بھال:  نرسیں، دیکھ بھال کرنے والے، طبی تکنیکی ماہرین

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی آئی ٹی ماہرین کے لیے جرمنی میں 6 ہزار یورو کی ملازمت کے مواقع

ٹیک اینڈ آئی ٹی: سافٹ ویئر انجینئرز، سائبر سیکیورٹی ماہرین، اے آئی ماہرین، ڈیٹا تجزیہ کار

مینوفیکچرنگ اور انجینئرنگ:  مکینیکل انجینئرز، آٹوموٹو ٹیکنیشنز، صنعتی کارکن

لاجسٹکس اور ٹرانسپورٹ: ٹرک ڈرائیور، گودام کارکن، سپلائی چین مینیجر

مہمان نوازی اور سیاحت: باورچی، ہوٹل مینیجر، ریستوراں کا عملہ

تعلیم اور تربیت: پیشہ ورانہ تربیت دہندگان، انگریزی اساتذہ

ہنر مند لیبر کے لیے بڑھتی ہوئی عالمی مسابقت کے ساتھ جرمنی نے بین الاقوامی درخواست دہندگان کو زیادہ مؤثر طریقے سے راغب کرنے کے لیے ایک تیز، ڈیجیٹلائزڈ ویزا سسٹم متعارف کرایا ہے۔

جرمنی کا نیا ڈیجیٹل ویزا سسٹم

قونصلر سروسز پورٹل کا آغاز جرمنی کے ویزے کے عمل میں ایک بڑی پیشرفت کی نشاندہی کرتا ہے، جو آن لائن درخواست کا ایک آسان طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔

ڈیجیٹل ویزا سسٹم کی اہم خصوصیات

جرمنی کا نیا ویزہ سسٹم جرمی میں کام اور تعلیم کے ویزوں کے لیے 100 فیصد آن لائن درخواست دینے کی سہولت دیتا ہے۔

نیا نظام اپوائنٹمنٹ میں تاخیر کو ختم کرتا ہے۔

آن لائن نظام دنیا بھر میں 167 ویزا دفاتر تک رسائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کینیڈا کے ایک ویزے پر ملٹی پل انٹری کے قوانین میں کی جانیوالی اہم تبدیلی کیا ہے؟

یہ نظام متعدد ویزہ زمروں کا احاطہ کرتا ہے، بشمول ملازمت، اپرنٹس شپ، اور خاندان کے افراد کا ملنا۔

وزیر خارجہ انالینا بیرباک نے زور دیا، ’ ہم کاغذی درخواستوں اور طویل انتظار کی مدت کی وجہ سے اعلی ٹیلنٹ کی آمد میں تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک جدید امیگریشن ملک کے طور پر ہمیں ایک جدید ترین ویزا عمل کی ضرورت ہے۔

جرمنی کے نئے ڈیجیٹل ویزا سسٹم کی افادیت

جرمنی کا ڈیجیٹل ویزا سسٹم  ہنر مند پیشہ ور افراد کے لیے ایک گیم چینجر ہے، جس کے فائدے درج ذیل ہیں۔

پیپر لیس ایپلی کیشنز: مزید لمبے فارمز اور فزیکل دستاویز کی گذارشات نہیں۔

تیز تر پروسیسنگ: درخواست کی منظوری میں آسانی

زیادہ قابل رسائی: دنیا میں کہیں سے بھی درخواست دیں۔

مضبوط کاروباری مرکز : ملازمتوں آسامیوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے پُر کرنے میں کمپنیوں کی مدد کرنا

اپلائی کرنے کا طریقہ

جرمن قونصلر سروسز پورٹل ویزا کی درخواست کے عمل کو آسان بناتا ہے، جس سے ہنر مند کارکنوں، طلباء اور اپرنٹس کو مکمل طور پر آن لائن درخواست دینے کی اجازت ملتی ہے، جرمنی کے لیے ویزہ اپلائی کرنے کے لیے درج ذیل طریقہ آزمائیں۔

قونصلر سروسز پورٹل پر جائیں: جرمن ویزا کی سرکاری ویب سائٹ تک رسائی حاصل کریں۔

یہ بھی پڑھیں: گرین پاسپورٹ کا رنگ پیلا کیوں پڑ گیا؟  

ایک اکاؤنٹ بنائیں: اپنی ای میل اور ذاتی تفصیلات کا استعمال کرتے ہوئے رجسٹر کریں۔

اپنی ویزا کیٹیگری منتخب کریں: 28 دستیاب آپشنز میں سے انتخاب کریں۔

مطلوبہ دستاویزات اپ لوڈ کریں: شناخت، قابلیت، ملازمت کی پیشکش (اگر قابل اطلاق ہو) اور دیگر ضروری دستاویزات جمع کروائیں۔

انٹرویو کا شیڈول بنائیں (اگر ضرورت ہو): ویزا کی کچھ اقسام کے لیے آن لائن یا ذاتی طور پر انٹرویو کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

اپنی درخواست جمع کروائیں اور فیس ادا کریں: درخواست مکمل کریں اور ضروری ادائیگیوں پر کارروائی کریں۔

اپنی درخواست کو ٹریک کریں: پورٹل کے ذریعے اپنے ویزا کی حیثیت کی نگرانی کریں کہ آیا آپ کو ویزا ملا ہے یا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان جرمنی ڈیجیٹل ویزہ سسٹم قونصلر سروسز پورٹل ہنرمند افراد ویزے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان ڈیجیٹل ویزہ سسٹم قونصلر سروسز پورٹل ہنرمند افراد ویزے قونصلر سروسز پورٹل ڈیجیٹل ویزا سسٹم آن لائن درخواست جرمنی کے کی ضرورت ویزا کی کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

گورننس سسٹم کی خامیاں

پاکستان میں طرز حکمرانی اور داخلی و خارجی معاملات پر مسلسل سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اس نظام پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔اسی کے ساتھ ملک کو سیکیورٹی و معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اصل میں حکمران طبقہ حکمرانی کی فرسودگی کو یا تو سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتے یا ان کی ترجیحات میں ان مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عملاً حکمرانی کے نظام کے تناظر میں متعدد تجربات کے باوجود ناکامی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا میں ہونے والے بہتر حکمرانی کے تجربات کی بنیاد پر بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں طرز حکمرانی کے مسائل کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی نشاندہی کی تھی اور ان کے بقول اگر ہم نے گورننس کے بحران کو ترجیح بنیادوں پر حل نہ کیا تو دہشت گردی سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔

حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے قانونی مشن نے اپنے 12 روزہ دورے کا اختتام کیا ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ اس برس اگست میں آنے کی توقع ہے۔یہ رپورٹ کرپشن کی امکانات کو ختم کر کے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلوں کے ذریعے زیادہ شفافیت کو یقینی بنا نے اور پبلک سیکٹر کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

آئی ایم ایف نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں سیاست زدہ بیورو کریسی،کمزور احتساب پر مبنی نظام،قلیل مدتی اہداف پاکستان کی اہم خامیاں ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اہم افراد یا عہدے دار سیاسی وفاداریاں رکھتے ہیں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔اسی طرح پاکستان پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف بھی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے ۔

 آئی ایم ایف نے ابتدائی طور پر جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ ہمارا بیوروکریسی پر مبنی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کی موجودگی میں گورننس کے نظام کی شفافیت کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہے۔اس بات کی درست طورپر نشاندہی کی گئی ہے کہ جب حکمران طبقہ انتظامی اداروں کو سیاسی بنیادوں پر چلائے گا یا اہم عہدوں پر میرٹ سے زیادہ سیاسی بنیادوں کو بنیاد بنا کر تقرریاں اور تبادلے کیے جائیں گے تو پھر نظام کی شفافیت کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

آئی ایم ایف نے کمزور احتساب کے نظام کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی پنڈت یا دانشور یا کاروباری طبقات کے بڑے افراد کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ان کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن اس نظام کا حصہ ہے اور ہمیں اس کو قبول کرنا ہی ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی کرپشن کی یا احتساب پر مبنی نظام کی بات کی جاتی ہے تو یہ سارا عمل سیاسی طور پر متنازعہ بن جاتاہے یا اس کو متنازعہ بنادیا جاتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی ادارے بنائے گئے ہیں وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہیںیا ان پر اس حد تک سیاسی دباؤ ہے کہ وہ شفافیت کی بجائے سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں گورننس کے مسائل محض آئی ایم ایف کی پیش کردہ نکات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اور بھی مسائل ہمیں حکمرانی کے نظام میں درپیش ہیں۔مثال کے طور پر عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت پر مبنی نظام جہاں اختیارات کا مرکز کسی ایک سطح تک محدود ہوتا ہے یا ہم سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح سے پاکستان میں حکمرانی کے نظام میں موجود جو سائز آف گورننس ہے وہ ریاستی اور حکومتی نظام پر نہ صرف سیاسی اور انتظامی بوجھ ہے بلکہ اس کی بھاری مالیاتی قیمت بھی ہمیں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

بے تحاشہ ادارے،محکمے اور ان کے سربراہان کی فوج در فوج سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ یہ موجودہ نظام میں کوئی شفافیت کا عمل پیدا کر سکے ہیں۔دنیا کے جدید حکمرانی کے نظام میں نچلی سطح پر موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ہم مسلسل مقامی حکومتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔

حالانکہ پاکستان کے آئین میں اس وقت بھی تین سطحوں پر حکومت کا تصور موجود ہے یعنی وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتیں لیکن اس کے باوجود ہمارا ریاستی نظام مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کا شکار نظر آتا ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی بنیادی طور پر ریاست،حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج کو پیدا کرتی ہے اور یہ خلیج ان فریقوں میں بد اعتمادی کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

بااختیار مقامی حکومتی نظام معاشرے میں موجود کمزور اور محروم طبقات کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام طبقاتی تقسیم کا شکارہے اور اس تقسیم میں طاقتور طبقات کے مفادات کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں کمزور طبقات مختلف سطح پر استحصال کاشکار ہوتے ہیں۔

 18 ویں ترمیم کی منظوری کہ باوجود بھی ہم صوبائی یا مقامی سطح پر حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل حل نہیں کر سکے ہیں۔ماضی میں وفاق کا نظام مرکزیت پر مبنی تھا تو آج صوبائی حکومتوں کا نظام صوبائی مرکزیت کا شکار نظر آتا ہے۔

اس طرز عمل کی وجہ سے صوبوں میں موجود ضلعوں کا نظام نہ صرف کمزور ہے بلکہ اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔ایک طرف سیاسی نظام میں موجود سیاسی طاقتور افراد ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی صورت میں سیاسی نظام پر قابض نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی ہے جو نظام کی شفافیت میں خود بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اسی طرح سے ہمیں سیاسی اور بیوروکریسی پر مبنی نظام کا ایک ایسا کٹھ جوڑ بالادست نظر آتا ہے جو عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی سطح کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ہمارے ہاں وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ادارے اپنے اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے عادی نہیں ہیں۔

ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہمارے نظام کی اہم خصوصیت بن چکی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی دلچسپی قانون سازی یا پالیسی سازی کی شفافیت کی بجائے ترقیاتی فنڈ تک محدود ہوتی ہے اور اس وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود بھی ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کے عملی طور پر خلاف ہیں ۔

ایک طرف ہم اپنے نظام کو عوام کے منتخب نمائندوں کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری ترجیحات عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی پر حد سے بڑھتا ہواانحصار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود ارکان اسمبلی موجودہ نظام سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ 

ہم عملاًحکومتوں کے مقابلے میں یا منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے کمپنیوں اوراتھارٹیوں کی بنیاد پر صوبوں کے نظام کوچلانااپنی ترجیح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرے معیارات اورمختلف تضادات پر مبنی پالیسیوں نے حکمرانی کے نظام کواور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

یہ نظام جہاں اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے وہیں اس کی ساکھ پر بھی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔حکمران طبقات کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں یا ان کی پسند پر مبنی حکمرانی کا یہ نظام لوگوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر رہا ہے۔ان کو لگتا ہے کہ اس نظام میں بہتری کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں توان کے بقول ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ و فکر میں یہ تضاد ہمارے حکمرانی کے نظام کی خرابی کواور زیادہ نمایاں کرتاہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر بڑی پیش رفت
  • پاکستانی گھر بیٹھے صرف 1300 روپے میں ملائیشیا کا ویزا حاصل کریں
  • ب فارم کیلئے نادرا دفتر جانے کی ضرورت نہیں،گھر بیٹھے بنوائیں
  • ملائیشیا جانے کے خواہشمند افراد کے لیے اہم خبر
  • ب فارم کیلئے نادرا دفتر جانے کا جھنجھٹ ختم
  • عرب ممالک کے ویزوں کا معاملہ، وزیر دفاع خواجہ آصف نے ویزہ مسائل کی بڑی وجہ بتادی
  • ملائیشیا جانے کے خواہشمند افراد کیلئے اہم خبر
  • غزہ کا دورہ کرنے والے امریکی ویزا درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس دیکھنے کا حکم
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • حج انتظامات، عازمین کو حاجی کیمپ سے ٹکٹ، ویزہ، شناختی لاکٹ، اسٹیکرز اور موبائل سم فراہم کی جائے گی