پاکستان کا شمسی توانائی کا عروج پاور گرڈ کو دبا ﺅمیں ڈال رہا ہے.ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 فروری ۔2025 )لاگت کی بچت اور عالمی تقاضوں کی وجہ سے پاکستان کا شمسی توانائی کا عروج دن کے وقت بجلی کی طلب میں زبردست کمی کر رہا ہے پاور گرڈ کو دباﺅ میں ڈال رہا ہے جس کی ر فوری جدید کاری کی ضرورت ہے پاکستان ایک بے مثال شمسی عروج کا سامنا کر رہا ہے اپنے توانائی کے منظر نامے کو تبدیل کر رہا ہے کیونکہ کمیونٹیز اور کاروبار تیزی سے اپنی بجلی کی فراہمی کو کنٹرول کر رہے ہیں یہ تبدیلی حکومتی پالیسی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو پیچھے چھوڑ رہی ہے.
(جاری ہے)
ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں توانائی اور ماحولیات کے لیے ایک تھنک ٹینک رینیو ایبلز فرسٹ کے پروگرامز کے ڈائریکٹر محمد مصطفی امجد نے کہا کہ ایک ہی مالی سال کے اندر درآمد کیے گئے سولر پینلز کے 16 گیگا واٹ یوٹیلیٹی شمسی صلاحیت کے 23 گناکے برابر ہیں شمسی توانائی کو اپنانے میں اضافے کی وجہ سولر پینل کی قیمتوں میں کمی اور گرڈ بجلی کی بڑھتی ہوئی شرح ہے 2024 کی پہلی ششماہی میں پاکستان نے 13 گیگا واٹ کے سولر ماڈیولز درآمد کیے جو چینی برآمد کنندگان کے لیے تیسری بڑی منزل بن گیا اس تیزی سے اپنانے کی وجہ سے گرڈ بجلی کی کھپت میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جو کہ پہلی بار جی ڈی پی کی نمو سے دوگنا ہوا ہے جو توانائی کی طلب کے پیٹرن میں مستقل تبدیلی کا اشارہ ہے . تھنک ٹینک نے ایک رپورٹ دی گریٹ سولر رش ان پاکستان بھی جاری کی ہے جس میں ملک کے صنعتی شعبے میں سولر سلوشنز کے بڑھتے ہوئے استعمال کو اجاگر کیا گیا ہے رپورٹ کے مطابق کیپٹیو سولر جنریشن 1گیگا واٹ سے تجاوز کر گئی ہے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اصل تعداد 2-3گیگا واٹ کے درمیان ہے یہ تبدیلی روایتی گرڈ پاور کی گھٹتی ہوئی صنعتی طلب میں واضح ہے جو مالی سال22 میں 34 سے 31ٹی ڈبلیو ایچ تک گر گئی 17 سینٹ روپے 50 فی یونٹ تک بجلی کے ٹیرف پاکستان میں صنعتی صارفین کے لیے منافع کے مارجن اور مسابقت کو کم کر رہے ہیں گرڈ پاور سپلائی کی ناقابل اعتباریت اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے بجلی کی بار بار بندش اور وولٹیج کے اتار چڑھاو کی وجہ سے پیداواری نقصانات اور آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے عالمی منڈی کا دبا وبھی اس تبدیلی کو آگے بڑھا رہا ہے خاص طور پر پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر میںجہاں بین الاقوامی خریدار قابل تجدید توانائی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی جانے والی مصنوعات کی تیزی سے مانگ کر رہے ہیں . رپورٹ کے مطابق عالمی خریداری کے معیارات میں یہ تبدیلی پاکستانی صنعتوں کے لیے اپنے بین الاقوامی مارکیٹ شیئر کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے شمسی توانائی کو اپنانے کو ایک اسٹریٹجک ضرورت بنا دیتی ہے عالمی سپلائی چینز میں ضم ہونے کے لیے صنعتوں کو شمسی توانائی کو اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے وزیراعظم کی سولرائزیشن کمیٹی کے سید فیضان علی شاہ نے پاکستان کی تیز رفتار شمسی توانائی کو اپنانے سے پیدا ہونے والے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کی شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے دن کے وقت بجلی کی طلب میںخاص طور پر 10ٹی ڈبلیو ایچ سالانہ کمی کی ہے اگرچہ یہ مثبت معلوم ہوتا ہے یہ پاور گرڈ کا انتظام کرنے والوں کے لیے آپریشنل مسائل پیدا کرتا ہے. انہوںنے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے پاور گرڈ کو فوری طور پر سمارٹ میٹرنگ اور تقسیم شدہ توانائی کے کنٹرول کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے یہ ٹیکنالوجیز شمسی توانائی کی متغیر نوعیت کو منظم کرنے اور بجلی کی مستحکم فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہیں گرڈ کو متوازن کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو ممکنہ طور پر عدم استحکام کا باعث بنتا ہے کیونکہ دن بھر شمسی توانائی کی پیداوار میں اتار چڑھا وآتا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاور گرڈ اور گرڈ بجلی کی کی وجہ رہا ہے گرڈ کو کے لیے
پڑھیں:
بجلی
ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔
ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔
اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔
پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔
لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔
بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔