چین کی جنگی مشقوں پر آسٹریلیا کی تشویش
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 فروری 2025ء) سٹریلیا نے جمعے کے روز چینی جنگی جہازوں کی جانب سے تسمان سمندر میں اپنے ساحل پر براہ راست فائرنگ کرنے والی مشقوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
آسٹریلوی وزیر خارجہ وونگ نے ملک کے نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کو بتایا، "جیسا کہ میں سمجھتا ہوں، یہ عمل بین الاقوامی پانیوں میں ہو رہا ہے۔
ہم اس پر چینیوں کے ساتھ بات کریں گے۔ اور اس سلسلے میں دیے گئے نوٹس کے بارے میں پہلے سے ہی حکام کی سطح پر رابطہ ہے، جس میں شفافیت، جو ان مشقوں کے سلسلے میں فراہم کی گئی ہے، خاص طور پر لائیو فائر کی مشقوں کے حوالے سے۔"تائیوان کے آس پاس درجنوں چینی طیاروں اور جہازوں کی مشقیں
پروازوں کو الرٹ کر دیا گیاایئر ٹریفک کنٹرول ایجنسی ایئر سروسز آسٹریلیا نے بھی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان پرواز کرنے والے کمرشل پائلٹس کو فضائی حدود میں ممکنہ خطرے سے خبردار کیا ہے۔
(جاری ہے)
تائیوان کے ارد گرد چین کی تازہ جنگی مشقیں شروع
ایئر ٹریفک کنٹرول ایجنسی ایئر سروسز آسٹریلیا نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا، "سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایئر سروسز آسٹریلیا بین الاقوامی پانیوں میں براہ راست فائرنگ کی اطلاعات سے آگاہ ہیں۔ احتیاط کے طور پر، ہم نے علاقے میں پروازوں کی منصوبہ بندی کرنے والی ایئر لائنز کو مشورہ دیا ہے۔
"فضائی سروس کنٹاس اور اس کی کم بجٹ والی ذیلی کمپنی جیٹ اسٹار نے کہا ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کچھ پروازوں کو عارضی طور پر ایڈجسٹ کیا ہے۔
چین اور روس نے مشترکہ بحری مشقیں شروع کر دیں
چینی بحری جہازوں کی نگرانیچینی بحریہ کا ایک فریگیٹ، کروزر جہاز گزشتہ ہفتے دیکھا گیا تھا، جو آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کا سفر کر رہا تھا۔
اطلاعات کے مطابق آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی بحری اور فضائی افواج اس کی نگرانی کر رہی ہیں۔حالیہ دنوں میں بحیرہ جنوبی چین کے اوپر فضائی حدود میں خلاف ورزیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
فوجی مشقیں تائیوان کو 'سزا 'دینے کے لیے کی جارہی ہیں، چین
گزشتہ ہفتے آسٹریلیا نے چین پر اس بات کے لیے تنقید کی تھی کہ بحیرہ جنوبی چین میں چینی جنگی طیارے نے گشت کرنے والے آسٹریلوی فضائیہ کے طیارے کے قریب شعلے گرائے تھے۔
جواب میں بیجنگ نے کہا تھا کہ آسٹریلیا "چین کی خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس طرح چینی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔"
سن 2024 میں، کینبرا نے بیجنگ پر یہ الزام لگایا تھا کہ اس نے سی ہاک ہیلی کاپٹر کو اس کے راستے میں شعلے گرا کر روکا تھا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش ہے، افغان وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے آج افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچنے کے بعد طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اعلیٰ سطحی مذاکرات میں 'سلامتی سمیت دو طرفہ مسائل کو مثبت ماحول میں حل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے' پر اتفاق کیا گیا۔
وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ اسحاق ڈار نے علاقائی تجارت اور رابطے کے فوائد کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر سکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی بنیادی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ دونوں فریقوں نے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور اعلیٰ سطحی روابط کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔
(جاری ہے)
پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا معاملہپاکستان کے وزیر خارجہ طالبان حکام سے ملاقات کے لیے ایسے وقت میں افغانستان پہنچے ہیں جب ان کی حکومت نے صرف دو ہفتوں میں 85,000 سے زائدافغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے جمعہ کو کہا کہ ان میں سے نصف سے زیادہ بچے تھے۔ وہ ایک ایسے ملک میں داخل ہو رہے ہیں جہاں لڑکیوں پر سیکنڈری اسکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی ہے اور خواتین کو کام کے کئی شعبوں سے روک دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران افغان شہریوں کی پاکستان سے ملک بدری پر 'گہری تشویش' کا اظہار کیا۔
افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیاء احمد نے ایکس پر کہا، "متقی نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری کی صورت حال پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا اور پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ وہاں مقیم افغانوں اور یہاں آنے والوں کے حقوق کو دبانے سے گریز کریں۔
" احمد نے مزید کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغان حکام کو یقین دلایا کہ افغان باشندوں کے ساتھ "بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔"اسلام آباد نے اپریل کے آخر تک 800,000 سے زائد ایسے افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کے لیے ایک سخت مہم شروع کی ہے جن کے رہائشی اجازت نامے منسوخ ہو چکے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے افغان بھی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے یا کئی دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔
'سرحد پار دہشت گردی' پر پاکستان کے تحفظاتپاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل دورے کے دوران افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے بھی ملاقات کی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق بات چیت میں سلامتی و تجارت جیسے معاملات پر گفتگو کی گئی۔
افغانستان روانگی سے قبل سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے خدشات ہیں، اور اس معاملے پر افغان فریق سے بات چیت کی جائے گی۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حالیہ تناؤ کی بڑی وجہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملے اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سال پچھلی ایک دہائی کے دوران سب سے مہلک رہا۔ اسلام آباد کی طرف سے کابل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو افغانستان میں پناہ لینے کی اجازت دے رہے ہیں۔ پاکستان کا دعوٰی ہے کہ دہشت گرد وہاں سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ طالبان حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
ادارت: عاطف بلوچ