پاکستان پر واشنگٹن کا کوئی دباؤ ہے، نہ دباؤ قبول کرے گا، اسحٰق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان پر واشنگٹن کا کوئی دباؤ ہے اور نہ ہی دباؤ ڈالے جانے پر اسے قبول کیا جائے گا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے دورہ امریکا کے اختتام پر اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔
پاکستان واپسی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے دورے کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کے حکام سے ان کا کوئی سرکاری رابطہ نہیں تھا۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا ایک غیر معمولی اجلاس 7 مارچ کو جدہ میں منعقد ہوگا، جس میں خاص طور پر فلسطینی عوام کی منتقلی سے متعلق حالیہ امریکی تجاویز کی روشنی میں، غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بات چیت کے دوران ایران، مصر، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ترکیہ کے وزرائے خارجہ نے صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے اور او آئی سی کا موقف پیش کرنے کے لیے فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے بارہا عبوری افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو لگام دے اور اس معاملے پر ان پر دباؤ ڈالتا رہے گا۔
انہوں نے افغان رہنماؤں کو ان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو یاد دلانے کے لیے کابل کا دورہ کرنے کے منصوبوں کا بھی انکشاف کیا، یعنی ان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔
اسحٰق ڈار نے یاد دلایا کہ 2018 میں ملک سے دہشت گردی کی لعنت کا تقریباً خاتمہ ہو چکا تھا، لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کو ملک میں دوبارہ داخل ہونے کی اجازت دی گئی، انہوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کے دوبارہ ابھرنے کا ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کو قرار دیا۔
سیکیورٹی خدشات کے علاوہ انہوں نے افغانستان کے لیے پاکستان کے انسانی ہمدردی کے عزم پر بھی زور دیا اور اس کی معاشی ترقی کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’ہم افغانستان کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں، جس میں افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا اور پاکستان کے درمیان رابطے کے منصوبوں پر عمل درآمد بھی شامل ہے‘۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسح ق ڈار نے کہا نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:
چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔
فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟
ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔
"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"