گمشدگی کیس؛ ہمارا دائرہ اختیار محدود ہے اداروں سے رپورٹس مانگتے ہیں، پشاور ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ میں گورنمنٹ کالج کے پروفیسر کے لاپتا بھائی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
درخواست پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کی۔ لاپتہ شخص کے بھائی، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ میرے 25 سالہ بھائی کو ایک سال قبل لاپتا کیا گیا۔ میرے سامنے میرے بھائی کو ڈبل کیبن گاڑی میں ڈالا گیا۔ اس وقت پولیس نے بتایا کہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) نے ان کو اٹھایا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ رپورٹ جمع کی ہے ان کا بھائی پولیس کے ساتھ نہیں ہے۔ ہم نے بھی رپورٹ جمع کی ہے کہ کسی ادارے کے پاس نہیں ہے۔
قائمقام چیف جسٹس پشاور نے کہا کہ ہمارا دائرہ اختیار محدود ہے رپورٹس اداروں سے مانگتے ہیں۔ ادارے کہتے ہیں آپ کا بھائی ان کے پاس نہیں ہے۔ کیا وجہ ہوسکتی ہے بغیر وجہ تو نہیں کسی کو کوئی نہیں اٹھا سکتا۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ نومبر 2019 میں سی ٹی ڈی افسر شہید ہوا۔ میرے بھائی کو بھی ملزمان میں نامزد کیا گیا لیکن عدالت نے بے گناہ ثابت کیا۔ شہید کے بیٹوں نے بھی مجھ پر بھی فائرنگ کی تھی۔ معذرت کے ساتھ اب عدالت ہمیں یہ کہتی ہے کہ کس نے اٹھایا ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ یہاں گزشتہ 40 سالوں سے اب صورتحال مختلف ہے۔ فریقین اس عدالت کو حقیقت نہیں بتاتے۔ جو رپورٹ ہمیں پیش کرتے ہیں تو اس کو آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ اگرکسی ادارے یا شخص پر مقدمہ درج کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ عدالت نے درخواست نمٹا دی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ، اِی چالان کے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد
فائل فوٹوسندھ ہائی کورٹ نے اِی چالان کے خلاف شہری کی جانب سے درخواست پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی۔
جسٹس عدنان اقبال نے ریمارکس دیے کہ حکومت ایسے کام کرتے وقت کم از کم لیگل ٹیم سے ہی مشاورت کرلیتی، رات کے چار بجے بھی شہری سگنل کھلنے کا انتظار کرے گا تو دائیں بائیں سے پستول والا آجائے گا۔
جسٹس عدنان اقبال نے ریمارکس دیے کہ رات کے وقت ایئر پورٹ جانے والے شہری کا پرس، فون اور جان بھی جاسکتی ہے، حکومت کو قانون سازی کرتے وقت تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے۔
کراچی سندھ ہائیکورٹ نے ٹریفک قوانین کی خلاف...
سرکاری وکیل نے عدالت کو کہا کہ اِی چالان کے بعد شہر بھر میں حادثات میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اِی چالان سے متعلق نوٹیفکیشن آپ کی فائل میں کہاں ہے؟ آپ نے خبر بنوانی ہے تو بنوالیں لیکن وہ نوٹیفکیشن تو منسلک کریں جو چیلنج کیا ہے۔
عدالت نے سندھ حکومت سے اِی چالان اور جرمانوں کے نوٹیفکیشن سے متعلق رپورٹ 15 جنوری تک پیش کرنے کا حکم دے دیا۔