ججزمیں تقسیم مزیدگہری ،معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)26ویں آئینی ترمیم سے پہلے بھی اور اب بھی ججز کی تقسیم ، اختلافات اور تنازعات موجود ہیں،کبھی کوئی جج خط لکھ دیتاہے تو کبھی کوئی
سنیارٹی کو بنیادبناکراسے چیلنج کردیاجاتاہے،یہ سنجیدہ آئینی وقانونی معاملہ ہیا ور اس بارے میں ہائیکورٹ کے پانچ ججزجسٹس محسن اخترکیانی،جسٹس طارق محمودجہانگیری،جسٹس بابرستار،جسٹس سرداراعجازاسحق خان اورجسٹس ثمن رفعت امتیازنے ہائیکورٹ میں ججز کی سنیارٹی کامعاملہ اب سپریم کورٹ میں چیلنج کردیاہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے سینئروکلاء منیراے ملک اور بیرسٹرصلاح الدین کی خدمات حاصل کی ہیں اور اعتراض اٹھایاہے کہ ہائی کورٹ سے لائے گئے تین ججز جن میں اسلام آبادہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفرازڈوگر،جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمدآصف شامل ہیں ،کودوبارہ حلف لینے کی ضرورت تھی اور حکومت نے بدنیتی سے جونیئرزکوسینئربنادیاجب کہ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس عامرفاروق نے انہی پانچ ججز کی ری پریزنٹیشن کو مستردکردیاتھااورکہاتھاکہ ججز کاتبادلہ آئین کے مطابق ہیاورانہیں دوبارہ حلف لینے کی ضرورت نہیں ہے،جسٹس سرفرازڈوگرجولاہورہائیکورٹ میں سنیارٹی میں 15ویں نمبرپرتھے انہیں اسلام آبادہائیکورٹ لایاگیالیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ 2015میں انہوں نے ہائیکورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایااوراعتراض کرنے والے اسلام آبادہائیکورٹ کے سینئر جج محسن اخترکیانی نے بھی 2015میں حلف اٹھایااور دونوں کی سنیارٹی میں چندماہ کافرق ریکارڈ کے مطابق موجود ہیاوراس کے مطابق جسٹس سرفرازلاہورہائیکورٹ میں تقرری کے وقت جسٹس محسن اخترکیانی سے سینئرتھے اوراسی بنیادپرانہیں اسلام آبادہائیکورٹ کاچیف جسٹس مقررکیاگیاہے،بہرحال یہ ایک اہم معاملہ ہے،اگرکسی معاملے پر ابہام ہواور آئینی تشریح کی ضرورت ہوتو وہ صرف سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے چندروزقبل یہ بیان دیاتھاکہ تین ججز کاتبادلہ آئین کے مطابق ہوا،دوسری ہائیکورٹس سے آنے میں کوئی پابندی نہیں ہیتاہم انہوں نے سنیارٹی کے معاملے پر کسی قسم کاتبصرہ کرنے سے اس لیے گریز کیاتھاکہ یہ معاملہ ان کے پاس آنے والاہے،اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیایہ معاملہ آئینی بینچ کو بھیجاجائے گایاچیف جسٹس خود وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کریں گے ،دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے وزیراعظم شہبازشریف کی اہم ملاقات ہوئی جس میں عدالتی اصلاحات ،لاپتہ افراد کے ایشواور ٹیکس کیسز کے فیصلوں میں تاخیرسمیت دیگرامورپربات چیت کی گئی اس ملاقات کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہیاور چیف جسٹس تحریک انصاف کے رہنمااور اپوزیشن لیڈرعمرا یوب سے بھی ملاقات کریں گے جس میں ان سے عدالتی اصلاحات کے لیے تجاویز لی جائیں گی لیکن افسوسناک امریہ ہیکہ چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات کیبعد ایک سیاسی جماعت کے حامیوں نے سوشل میڈیاپرمنفی پروپیگنڈا مہم چلارکھی ہے جس میں چیف جسٹس اور وزیراعظم کے خلاف نامناسب اور غیرپارلیمانی زبان استعمال کی جارہی ہے جو کسی طور پر بھی درست نہیں ہے کیایہی لوگ عمرایوب کی ملاقات پر بھی اسی طرح کا پروپیگنڈا کریں گے ،چیف جسٹس عدالتی اصلاحات پر اگرحکومت اوراپوزیشن سے مشاورت کررہے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں،ایک زمانہ وہ بھی تھاجب سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے 2017میں اس وقت کے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو شارٹ نوٹس پرسپریم کورٹ ملاقات کے لیے بلایااورانہیں دھمکی دی تھی کہ اگر پارلیمنٹ سے نوازشریف کوپارٹی صدارت کے لیے اہل قراردینے کابل پاس کیاگیاتو وہ فوری طور پراسے کالعدم قراردے دیں گے اور اس دھمکی کیبعد شاہدخاقان عباسی نے یہ قانون سازی نہیں کی تھی اور بعدازاں انہوں نے کئی انٹرویوزمیں اس بات کا خود بھی انکشاف کیاتھاکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے ملاقات کیلیے بلاکرقانون سازی نہ کرنے کی بات کی تھی ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے، ان کی عمر 75 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔
رپورٹ کے مطابق مرحوم کی نمازِ جنازہ آج (منگل ) نمازِ عصر کے بعد ڈیفنس فیز 8 کی حمزہ مسجد میں ادا کی جائے گی۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی کا شمار پاکستان کی اعلی عدلیہ کے باوقار اور اصول پسند ججوں میں ہوتا تھا، انہوں نے 1998 میں سندھ ہائیکورٹ کے جج کے طور پر خدمات کا آغاز کیا اور 2009 میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز میں شامل تھے، جس پر انہیں عدلیہ میں آئینی مزاحمت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہوں نے دوبارہ حلف لیا اور انہیں جسٹس عبدالحامد ڈوگر کی سفارشات پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
جسٹس عثمانی سپریم کورٹ کے اس 14 رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس فیصلے کی روشنی میں جسٹس ڈوگر کے دور میں ججز کی تقرریوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
ان کی وفات پر عدالتی حلقوں، وکلا برادری، اور مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہلخانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔