WE News:
2025-04-22@06:33:09 GMT

ٹی بیگز کا استعمال آسان مگر صحت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

ٹی بیگز کا استعمال آسان مگر صحت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں

پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران چائے کی درآمد میں بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اس عرصے میں پاکستانی 96 ارب 49 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی چائے پی چکے ہے۔

رواں مالی سال چائے کی درآمد میں 35 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے کیونکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں 71 ارب 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی چائے درآمد کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ‎نون چائے: کشمیریوں کی روایتی نمکین گلابی چائے کیسے تیار ہوتی ہے اور اس کے صحت کے لیے فوائد کیا ہیں ؟

بہت زیادہ چائے پینا تو نقصان دہ ہے ہی، لیکن ان چائے پینے والے افراد میں ایک بڑی تعداد ٹی بیگز کا استعمال کرنے والوں کی ہے، جو ماہرین کے مطابق چائے کو مزید مضر صحت بنا سکتی ہے۔

جدید دور میں ہر فرد آسانیوں کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن اس کے برے اثرات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، ٹی بیگز کا استعمال بھی آسانی کے لیے کیا جاتا ہے، دفتروں میں خاص طور پر ٹی بیگز کی چائے کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

یہ طریقہ نہ صرف وقت بچانے کے لیے اپنایا جاتا ہے بلکہ چائے تیار کرنے میں بھی زیادہ سہولت فراہم کرتا ہے۔

ٹی بیگز انسانی صحت کو کیسے متاثر کرتے ہیں؟

ماہر امراض معدہ و جگر ڈاکٹر سارہ بشیر نے ٹی بیگز کے استعمال کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، ان کے مطابق، ٹی بیگز میں استعمال ہونے والا کچھ مواد انسان کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ اکثر ٹی بیگز میں کم معیار کے کاغذ، پلاسٹک اور بلیچنگ ایجنٹس کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ کیمیکلز چائے کی پتی کے ساتھ پانی میں شامل ہو کر انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جو کہ معدے اور جگر جیسے حساس اعضا پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

’ہمارے ہاں ٹی بیگز کے استعمال کا کلچر بہت ہی عام ہو چکا ہے، اب نہ صرف دفتر بلکہ گھروں میں بھی بہت معمول کے مطابق ٹی بیگز کا استعمال عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے، اب تو مختلف قسم کی گرین ٹی بیگز بھی دستیاب ہیں۔‘

مزید پڑھیں: ارشد خان چائے والا نے ایک کروڑ روپے کا آئیڈیا کیسے بیچا؟

ڈاکٹر سارہ کے مطابق ان ٹی بیگز کے مختلف فلیورز مارکیٹ میں موجود ہیں، بچے اور بڑے سب ہی بہت شوق سے ان ٹی بیگز کے قہوے اور چائے پینا پسند کرتے ہیں۔ ’ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض ٹی بیگز میں مائیکروپلاسٹک کے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں۔‘

جب یہ بیگز پانی میں ڈوبتے ہیں، تو یہ مائیکروپلاسٹک انسانی جسم میں جذب ہو کر مختلف اعضا تک پہنچ سکتے ہیں، جس سے طویل المدتی صحت کے مسائل جیسے ہارمونل عدم توازن، کینسر کے خطرات اور دیگر امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ مائیکروپلاسٹک کیمیکلز کا جسم پر اثر دیرینہ ہو سکتا ہے اور ان کا مکمل اثر ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ ان کے استعمال سے صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: رواں برس غذائی اخراجات میں ہونے والے نصف سے زیادہ اضافے کا سبب چائے اور کافی کیوں؟

ڈاکٹر سارہ بشیر کے مطابق بہتر ہے کہ کھلی چائے کا استعمال کیا جائے کیونکہ اس میں کیمیکلز اور پلاسٹک کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے اور یہ زیادہ قدرتی اور محفوظ ہوتی ہے۔

’اگرچہ ٹی بیگز کا فوری طور پر کوئی سنگین اثر نہیں ہوتا مگر ان کے طویل المدتی استعمال سے صحت کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، اس لیے ٹی بیگز کے بجائے کھلی چائے زیادہ بہتر اور صحت مند ترجیح ہے۔‘

ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ سب سے بہتر بات تو یہی ہے کہ چائے کا استعمال کم سے کم کیا جائے، وہ افراد جنہیں چائے پینے کی بہت زیادہ عادت ہے انہیں چاہيے کہ وہ دن میں زیادہ سے زیادہ 2 مرتبہ چائے پیئیں، زیادہ چائے پینے کے نقصانات ایک الگ بحث ہے۔

کیا ٹی بیگز سے مائیکرو پلاسٹک چائےمیں شامل ہوجاتے ہیں؟

بارسلونا یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق، مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی ٹی بیگ میں کینسر کا سبب بن سکتی ہے، تجارتی طور پر دستیاب پلاسٹک پولیمر سے بنے ٹی بیگ پر کیے گئے تجربات سے پتا چلا کہ گرم پانی کے ایک قطرے میں پولی پروپیلین سے بنے ٹی بیگ 1.

2 ارب مائیکرو پلاسٹک ذرات چھوڑتے ہیں۔

سیلولوز سے بنے ٹی بیگ 13 کروڑ 50 لاکھ مائیکرو پلاسٹک ذرات خارج کرتے ہیں، جبکہ نائیلون 6 سے بنے ٹی بیگ میں 80 لاکھ سے زائد ذرات پانی میں حل ہو جاتے ہیں، یہ مائیکرو پلاسٹک ذرات گرم پانی میں حل ہو کر ایسے کیمیکلز پیدا کرتے ہیں جو کینسر کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔

اس سے قبل کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کی ایک تحقیق جو جریدے انوائرمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں محققین نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا ٹی بیگز سے پلاسٹک کے ننھے ذرات چائے میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، اور کیا یہ ذرات انسانوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں مقبول چائے کی تاریخ، فوائد اور نقصانات

تحقیق کے دوران محققین نے الیکٹرون مائیکرو اسکوپی کی مدد سے دریافت کیا کہ ایک پلاسٹک ٹی بیگ سے پانی میں 11.6 ارب مائیکرو پلاسٹک اور 3.1 نانو پلاسٹک ذرات شامل ہو جاتے ہیں۔

محققین کے مطابق یہ تعداد دیگر غذائی اشیا میں پلاسٹک ذرات کی موجودگی کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔

ایک اور تجربے میں محققین نے آبی جانداروں، جیسے کہ آبی پسوؤں، کو ٹی بیگز میں موجود مائیکرو اور نانو پلاسٹک کی کچھ مقدار کھانے کو دی، ان جانداروں نے تو بچاؤ کی حالت میں خود کو بچالیا، تاہم ان کی جسمانی ساخت اور رویے میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں، جسے محققین نے فکرمندانہ قرار دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الیکٹرون مائیکرو اسکوپی انوائرمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بلیچنگ ایجنٹس پلاسٹک تحقیق ٹی بیگ ڈاکٹر سارہ بشیر کینسر گرین ٹی بیگز مائیکرو پلاسٹک میک گل یونیورسٹی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پلاسٹک ٹی بیگ ڈاکٹر سارہ بشیر کینسر گرین ٹی بیگز مائیکرو پلاسٹک ٹی بیگز کا استعمال سے بنے ٹی بیگ ٹی بیگز میں ڈاکٹر سارہ کے استعمال ٹی بیگز کے سکتے ہیں پانی میں کرتے ہیں کے مطابق چائے کی شامل ہو جاتا ہے صحت کے کے لیے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ، آئینی عہدوں پر رہتے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے، رانا ثنا

وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ کا کہنا تھا کہ ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں، ‎پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ ‎اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں، ‎پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ‎قائد محمد نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف نے پی پی پی سے بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی ہدایت کی ہے، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، 1991ء میں صوبوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور 1992ء کے ارسا ایکٹ کی موجودگی میں کسی سے ناانصافی نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں، ‎پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ‎اکائیوں کی مضبوطی کو وفاق کی مضبوطی سمجھتے ہیں، ماضی کی طرح اسی طرز عمل پر چلتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ‎آئین و جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والی جماعت کے طور پر اکائیوں اور اس میں رہنے والے عوام کے حقوق کے تحفظ پر سمجھوتہ کیا نہ کریں گے، ‎بات چیت اور مشاورت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مانتے ہیں ہمارا مڈل آرڈر زیادہ مضبوط نہیں: روی بوپارہ
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’ارتھ ڈے‘ منایا جا رہا ہے
  • گرین اور بلیک کے بعد اب نیلی چائے، حیرت انگیز فوائد
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ، آئینی عہدوں پر رہتے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے، رانا ثنا
  • افغانستان کسی کو غلط سرگرمی کیلئے اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دے گا، اسحاق ڈار
  • اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، امن وامان کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
  • کابل؛ اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، امن وامان کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
  • بائیوڈی گریڈ ایبل پلاسٹک کی طرف تبدیلی ‘ فضلے کے مسئلے سے نمٹنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے.ویلتھ پاک