اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے صدر کی جانب سے ملک کی مختلف ہائی کورٹوں سے 3 ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلوں کے اختیارات کے استعمال اور جسٹس سرفراز ڈوگر کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ جبکہ مقدمہ کے حتمی فیصلے تک جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کرنے سے روکنے اور ان سمیت جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر بھی کسی بھی قسم کے عدالتی اور انتظامی کام کو انجام دینے سے روکنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔ درخواست گزار جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے جمعرات کے روز سینئر وکیل منیر اے ملک کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی 49صفحات پر مشتمل درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ صدر مملکت کے پاس آرٹیکل 200 کی شق 1 کے تحت ججوں کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں تبادلہ کرنے کے لامحدود اختیارات نہیں ہیں اور مفاد عامہ کے بغیر، ایک جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ درخواست گزار ججوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ قرار دے کہ صدر مملکت کے پاس آئین کے آرٹیکل (1) 200 کے تحت ججوں کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنے کی بلا روک ٹوک اور بے لگام صوابدید نہیں ہے۔ صدر مملکت کے اختیارات کے استعمال کو آئین کے آرٹیکل (1) 200 کے تحت آئین کے آرٹیکل 175A کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔ انہوں نے عدالت سے مزید استدعا کی کہ وہ یہ قرار دے کہ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کو اس وقت تک اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج تصور نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ آئین کے آرٹیکل 194 کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف نہیں اٹھا لیتے ہیں۔ آئینی درخواست میں صدر، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ ، لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، بلوچستان ہائی کورٹ کو (ان کے رجسٹراروں کے ذریعے)، جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کو فریق بنایا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ کے ا ئین کے ا رٹیکل سرفراز ڈوگر کورٹ میں اور جسٹس کے تحت

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا

اسلام آباد:

ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ججز ٹرانسفر سنیارٹی کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں لکھا گیا ہے کہ  ججز ٹرانسفر کی سمری کا آغاز وزارت قانون کی جانب سے کیا گیا۔

جواب میں لکھا گیا ہے کہ وزارت قانون سے وزیراعظم اور پھر صدر کو سمری بھجوائی گئی جس کی مںظوری صدر مملکت نے دی جبکہ اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ چیف جسٹسز سے مشاورت کی گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے جواب میں لکھا کہ ججز کا ٹرانسفر آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت کیا گیا، جسٹس سرفراز ڈوگر پہلے ہی بطور ایڈیشنل جج اور پھر مستقل جج کے طور پر حلف اٹھا چکے ہیں۔

جواب میں لکھا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ٹرانسفر کے بعد انتظامی کمیٹی تشکیل دی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب کے ہمراہ نئی ججز سنیارٹی فہرست ،ججز ٹرانسفر نوٹیفیکیشنز اور ہائیکورٹ ججز ریپریزنٹیشن بھی جمع کروائی ہے۔

ہائیکورٹ کی جانب سے جواب رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ یار ولانہ نے جمع کروایا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ججز ٹرانسفر کیس؛ رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کا جواب سپریم کورٹ میں جمع
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام
  • ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا
  • سپریم کورٹ: ججز تبادلہ اور سنیارٹی کیس، لاہور ہائیکورٹ بار کی متفرق درخواست دائر
  • ججز کے تبادلے چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب
  • ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس: رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب جمع
  • اسلام آباد سمیت تمام ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کا فیصلہ