جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن برادری مختلف گروپوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان کی سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں مختلف کیٹیگریز میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ پاکستانی نژاد ماہر قانون، انسانی حقوق اور تنازعات کے حل کے لیے سندیافتہ میڈیئیٹر کومل ملک کا کہنا تھا کہ اس ملک میں آباد پاکستانیوں کے سیاسی اور سماجی رویوں کا جائزہ لیتے وقت مختلف عوامل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
ڈی ڈبلیو: جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن کاکن شعبوں سے تعلق ہے؟
کومل ملک: حالیہ سالوں میں اچھی خاصی تعداد میں پاکستانی اسکلڈ ورکرز یا ہنر مند کارکن اور طلبہ جرمنی آئے ہیں۔
(جاری ہے)
وہ افراد جو ورک ویزا کے ذریعے آتے ہیں، خاص طور پر آئی ٹی، انجینئرنگ، میڈیکل، اور دیگر شعبوں میں انہیں اچھی نوکریاں مل جاتی ہیں۔ ایک گروپ کاروباری افراد پر مشتمل ہے، جو جرمنی میں اپنے کاروبار جیسے کہ ریستورانوں، ٹیکسٹائل اور دیگر بزنس کے شعبوں سے منسلک ہے۔
پھر ایک کیٹیگری ہے اسپاؤز ویزہ ہولڈرز کی۔ اس میں وہ افراد شامل ہیں، جو اپنے شریک حیات کی وجہ سے ویزہ حاصل کر کے جرمنی منتقل ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی تعداد پاکستان سے جرمنی آ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی بھی ہے۔جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟ڈی ڈبلیو: پاکستانی تارکین وطن کے مشترکہ مسائل کیا ہیں؟
کومل ملک: مشترکہ مسائل اور چیلنجز میں اولین مشکل جرمن زبان کا سیکھنا ہے۔
اگر کوئی جرمن بول نہیں پاتا ہو تو اسے جاب مارکیٹ اور سوشل انٹیگریشن میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر زیادہ تر کو سماجی اور سیاسی انضمام (Integration) میں بھی مشکل ہوتی ہے کیونکہ جرمن معاشرہ نئے آنے والوں کو جلد قبول نہیں کرتا۔معاشی دباؤ بھی ایک اہم فیکٹر ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے، جو پاکستان میں موجود اپنے خاندان کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ جر منی میں آباد پاکستانی برادری کے اندر سپورٹ سسٹم اور اتحاد کی کمی ہے، جس کی وجہ سے نئے آنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کا ایک بڑا مسئلہ جرمن قوانین، ویزا پالیسیز اور شہریت کے پراسیس کو سمجھنے میں دقت کا بھی ہے۔پاکستان کے ناموافق حالات اور انسانوں کی اسمگلنگ کا ناسور
ڈی ڈبلیو: جرمنی میں پروان چڑھنے والے پاکستانیوں کو جرمن معاشرے میں اپنا سماجی اور سیاسی مقام حاصل کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی کیوں حاصل نہ ہو سکی؟
کومل ملک: یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ایک یا دو نسلیں انتھک محنت کے باوجود جرمن سوسائٹی میں مکمل قبولیت حاصل نہیں کر پائیں۔
یہاں پیدا ہونے والے اکثر نوجوانوں کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ واہ، تم تو بہت اچھی جرمن بولتے ہو۔ ان کے سکن کلر کی وجہ سے ان کی شناخت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مایوس ہونے کی بجائے، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور سیاست میں شرکت کو ترجیح دیں۔ ہم اپنے کام، گھر، اور ذاتی زندگی میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ جرمن سیاست اور سماجی معاملات میں کردار ادا نہیں کر پاتے۔جرمن زبان میں مہارت، سسٹم کی مکمل سمجھ، اور سیاست میں شرکت کے بغیر ہم خود کو کبھی ایک مضبوط کمیونٹی کے طور پر منوا نہیں سکتے۔ جو پاکستانی نوجوان یہاں پیدا ہوئے یا پروان چڑھے ہیں، انہیں سیاست میں آگے آنے کے لیے شدید مقابلے، یا نسل پرستی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈی ڈبلیو: ان مشکلات کا حل کیا ہے؟
کومل ملک: ہمیں سیاست میں اپنی شرکت بڑھانا ہوگی، سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی، اور ووٹنگ کے حق کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہو گا۔
اپنی کمیونٹی کے مسائل کے لیے متحد ہو کر آواز اٹھانا ہوگی تاکہ جرمنی میں ہماری سیاسی اور سماجی حیثیت مستحکم ہو۔ پاکستانی کمیونٹی کے اندر کوئی مؤثر نیٹ ورک نہیں جو نئے آنے والوں کو سیاست میں شامل ہونے کی ترغیب دے۔ مزید یہ کہ پاکستانی سیاست اور جرمنی کا سیاسی سسٹم بہت مختلف ہے، جس کی وجہ سے نئے آنے والے لوگ یہاں کے سیاسی نظام سے بالکل ناآشنا ہوتے ہیں۔جرمنی میں نجی یونیورسٹیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت
ڈی ڈبلیو: آپ پاکستانی کمیونٹی کو قانونی اور سماجی آگاہی فراہم کرتی ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ کن مسائل کے حوالے سے کام کرنا پڑتا ہے؟
کومل ملک: بطور پاکستانی وکیل اور میڈیئٹر، میرا تجربہ کہتا ہے کہ درج ذیل مسائل سب سے زیادہ عام ہیں۔ قانونی حقوق سے لاعلمی۔ پاکستانی کمیونٹی کو جرمن امیگریشن، شہریت، رہائشی اجازت نامے، اور لیبر قوانین کے بارے میں بہت محدود معلومات ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ڈومیسٹک وائلنس یا گھریلو تشدد کا بھی ہے۔ خواتین کو گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات، اپنے قانونی حقوق کی آگاہی اور علیحدگی کے معاملات میں رہنمائی فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ لوگ معاشی دباؤ کی وجہ سے اپنی ذاتی اور سماجی زندگی پر صحیح توجہ نہیں دے پاتے، جس کی وجہ سے انٹیگریشن کا عمل مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ جب تک گھریلو اور سماجی استحکام نہیں ہوگا، تب تک کمیونٹی کا سیاسی اور سماجی سطح پر آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ڈی ڈبلیو: پاکستانی تعلیم یافتہ نوجوان خواتین کے مخصوص مسائل کون کون سے ہیں؟
کومل ملک: جاب مارکیٹ میں امتیازی سلوک، ایک اہم مسئلہ ہے۔ خاص طور پر اگر وہ حجاب پہنتی ہوں۔ گھریلو ذمہ داریوں کا دباؤ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ کئی خواتین خاندانی اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنے پروفیشنل اور سماجی کیریئر پر توجہ نہیں دے پاتیں۔
اس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ کا فقدان۔ پاکستانی خواتین عام طور پر جرمن کمیونٹی میں میل جول نہیں بڑھاتیں، جس کی وجہ سے سیاست میں آنے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ کمیونٹی میں سپورٹ کی کمی ہے۔ اگر کوئی پاکستانی خاتون سیاست یا سوشل ورک میں آنا چاہے، تو اسے اپنی کمیونٹی سے زیادہ سپورٹ نہیں ملتی۔جرمنی: بچوں کی دیکھ بھال کے بحران میں کمی کے لیے تارکین وطن پر انحصار
کومل ملک جو پاکستانی برادری کی جرمن معاشرے میں نا صرف نمائندگی کرتی ہیں بلکہ تمام پاکستانی تارکین وطن، چاہے مرد ہوں یا خواتین سب کے گوناگوں مسائل کے حل کے لیے رات دن مشاورت اور تنازعات کے حل کے لیے ثالث کی حیثیت سے اپنی پیشہ وارانہ صلاحتیوں کو بروئے کار لاتی ہیں۔
ان کا ماننا ہہ کہ اپنی جڑوں کو بھولے بغیر پاکستانیوں کو جرمن معاشرتی اور سیاسی نظام کو جاننا، اسے اپنانا اور اس کے لیے کام کرنا چاہیے۔ نیز ووٹ کے حق کے استعمال کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ جرمنی میں پاکستانی با شعور شہریوں کی طرح اپنی پہچان برقرار رکھتے ہوئے اپنا مقام بنا سکیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی تارکین وطن میں آباد پاکستانی جس کی وجہ سے سیاسی اور سیاست میں اور سماجی ڈی ڈبلیو سے زیادہ کومل ملک کہ جرمن کے لیے
پڑھیں:
World Earth Day ; ماحول اور زمین کی حفاظت ہم پر قرض، رویے بدلنا ہوںگے!!
ماحولیاتی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، گلوبل وارمنگ، پانی کی قلت اور فضائی آلودگی جیسے مسائل نے زمین کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے لہٰذا اس کے پیش نظر ہر سال 22 اپریل کو دنیا بھر میں ارتھ ڈے منایا جاتا ہے جس کا مقصد زمین کے ماحول، قدرتی وسائل، حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور زمین کو محفوظ بنانا ہے۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم سب اس زمین کے ذمہ دار مکین ہیں اور ہمیں اپنے طرزِ زندگی کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ زمین کے وسائل محفوظ رہیں۔اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
کنول لیاقت
(پارلیمانی سیکرٹری برائے انوائرنمنٹ پروٹیکشن اینڈ کلائمیٹ چینج پنجاب)
فرش سے عرش تک، قدرتی وسائل کا تحفظ ہم پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور زمین کو وسائل سے مالال کیا ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے فطرت کو تباہ کر دیا۔ اللہ نے ہر چیز میں توازن قائم کیا مگر ہم نے یہ توازن خراب کر دیا، بے دردی سے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جس پر ہم خود پریشان بھی ہیں اور شرمندہ بھی۔ اب دنیا بھر میں اس پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ کس طرح دنیا کو آفات سے بچایا جائے اور انسانوں کیلئے سازگار ماحول بنایا جائے۔
ماحولیاتی مسائل کا حل پنجاب حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنی پہلی تقریر میں ماحولیاتی مسائل کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ ہم اس حوالے سے نہ صرف بڑے منصوبے لا رہے ہیں بلکہ آگاہی کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔یہ کہنا درست ہوگا کہ اس وقت ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے جتنا کام ہو رہا ہے، پنجاب کی تاریخ میں اس کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں کوئی ماحول کی وزارت لینے کو تیار نہیں ہوتا تھا، اس وزارت اور محکمے کو معمولی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت سینئر وزیر خود یہ وزارت دیکھ رہی ہیں اور ان کی خصوصی کاوشوں اور دلچسپی سے پنجاب کے ماحولیاتی مسائل دور کرنے کیلئے خاطر خواہ کام ہو رہا ہے۔
اس وقت صوبہ میں پنجاب کی تاریخ کی پہلی کلائمیٹ چینج پالیسی بنائی گئی ہے جوماحولیاتی مسائل کے حل میں حکومت کی کمٹمنٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ماحولیاتی مسائل سنگین ہوچکے ہیں اگر ہم نے اب بھی ان کے حوالے سے کام نہ کیا تو آنے والے وقت میں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت زیر زمین صاف پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے، یہ صورتحال تشویشناک ہے، اگر ہم پانی کا اسی طرح بے دریغ استعمال کرتے رہے تو آئندہ برسوں میں پانی کی قلت پیدا ہوجائے گی ۔ اسی طرح فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں ماحول کو آلودہ کر رہا ہے، اس میں اینٹوں کے بھٹے، فصلوں کی باقیات کو جلانے جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔ اب تو ایبٹ آباد جیسے ضلع میں بھی سموگ کا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے۔
لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 2 ہزار تک چلا گیا جو شہریوں کے لیے شدید نقصاندہ تھا۔ ہمیں لوگوں کے تحفظ کیلئے سکولز اور تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے۔ چھٹی ہونے سے پارکوں اور شاپنگ مالز میں رش بڑھ گیا اور پھرہمیں گرین لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔ لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ افسوناک ہے۔ سموگ جیسے مسائل پر قابو پانے کیلئے پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے نہ صرف سموگ مٹی گیشن پلان بنایا بلکہ اس پر کام بھی کیا۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انوائرمینٹل پروٹیکشن فورس بنائی گئی ہے جو صوبے بھر میں ماحولیاتی تحفظ کیلئے کام کرے گی۔ ہم محکمہ تحفظ ماحولیات کی کپیسٹی بلڈنگ کر رہے ہیں اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ ہم اس محکمے کو ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈرونز کی مدد سے سرویلنس کرکے فیکٹریوں کا دھواں کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کا نظام بھی سادہ اور آسان کر دیا گیا ہے جس کا آغاز وزیراعلیٰ پنجاب کی گاڑی سے کیا گیا۔ ان کی گاڑی کو چیک کرکے فٹنس مکمل ہونے پر سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے اینٹوں کے بھٹوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے۔ جو بھٹے بار بار وارننگ کے بعد بھی اس پر منتقل نہیں ہوئے، انہیں مسمار کر دیا گیا، ہم چند افراد کے روزگار کی خاطر لاکھوں افراد کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے، ہمیں سانس لینے کیلئے بہترین اور صاف فضا قائم کرنی ہے۔ پانی کا ضیاع روکنے کیلئے ہم نے کار واش سٹیشنز کے ساتھ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لازمی قرار دے دیا ہے اور نئے کار واش سینٹرز پر پابندی لگا دی ہے۔ پلاسٹک زمین اور ماحول کیلئے نقصاندہ ہے۔
حکومت نے 75 مائیکرون سے کم والے پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی لگائی ہے، اسے آئندہ مرحلے میں 100 مائیکرون کیا جائے گا اور بتدریج 300مائیکرون تک لے کر جائیں گے۔ ہم جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔ جنگلی حیات کے غائب ہونے کا مطلب ہے کہ ماحولیاتی مسائل سنگین ہیں۔ حکومت پنجاب نے 60 ہزار ماہانہ وظیفہ دے کر 2 ہزار کلائیٹ چیمپئن بنائے ہیں جو اپنے اپنے علاقوں سے ماحولیاتی مسائل کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی مسائل کی کوئی سرحد نہیں، ہم ہمسایہ ممالک سے کلائمیٹ ڈپلومیسی پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ بارڈر کے اطراف موجود عوام کو صاف اور بہترین ماحول فراہم کیا جاسکے۔ زمین کا تحفظ ماحولیاتی تحفظ سے جڑا ہے۔حکومت اکیلے ماحولیاتی مسائل سے نہیں نمٹ سکتی۔ ہماری ول اور نیت موجود ہے، اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں مگر سب سے اہم عوام ہیں جنہیں ذمہ داری شہری ہونے کا ثبوت دینا ہوگا اور ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرنا ہوگا۔ اگر عوام اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو اس کی بھاری قیمت سب کو ادا کرنا پڑے گی اور خصوصاََ ہماری آنے والی نسلیں بدترین مسائل کا شکار ہوں گی۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو توازن سے بنایا مگر ہم نے اس زمین کے ساتھ زیادتی کی اور توازن خراب کر دیا۔ ہم نے لالچ اور آسائش کے لیے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا، درختوں کی بے جا کٹائی کی، پانی ضائع کیا اور ماحول بھی تباہ کر دیا جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں لہٰذا اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والا وقت مزید سخت ہوگا۔ہمارا پورا ماحول بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ اسلام آباد میں ژالہ باری کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، حال ہی میں وہاں ژالہ باری ہوئی،زلزلے بھی آرہے ہیں، ہمیں اپنی غلطیوں کی وجہ سے قدرتی آفات کا سامنا ہے ۔
گزشتہ اپریل کی نسبت اب اسلام آباد کا درجہ حرارت 10 ڈگری زیادہ ہے، ایئر گنڈیشنز سے نکلنے والی گیس، ٹریفک اور فیکٹریوں کا دھواں ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔ اسی طرح پلاسٹ بیگز سے سیورج کا نظام تباہ ہوچکا ہے لہٰذا ہمیں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے من حیث القوم کام کرنا ہوگا اور اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ موجودہ حکومت ماحولیاتی تحفظ کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے، پنجاب میں تاریخ کا پہلا کلائمیٹ ایکشن پلان بنایا گیا ہے جو خوش آئند ہے لہٰذا اب ضرورت یہ ہے کہ کلائمیٹ ایکٹ بنا کر بڑے پیمانے پر کام کیا جائے اور قانون سازی کے ذریعے لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ماحول کو صاف کریں۔
ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے آگاہی بہت ضروری ہے لہٰذا تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کیے جائیں اور لوگوں کو آگاہی دی جائے۔عالمی سطح پر ہمیں یہ با ر بار باور کرانا چاہیے کہ ماحول کو خراب کرنے میں ہمارا کردار ایک فیصد بھی نہیں لیکن ہم اس سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہیں لہٰذا دنیا کو ہماری مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارا حق بھی ہے اور ضرورت بھی، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارے ہاں ماحولیاتی مسائل مزید بڑھیں گے اور اس کے لیے جتنے وسائل درکار ہونگے، وہ پیدا کرنا مشکل ہوجائے گا۔
احمر شہزاد
(پراجیکٹ منیجر، پاک مشن سوسائٹی)
ہم گزشتہ 5 برس سے ماحولیاتی مسائل پر کام کر رہے ہیں اور پنجاب کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک کا حصہ بھی ہیں۔ ہم نے اب تک محکمہ تحفظ ماحولیات، لاہور اور راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنیز، کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پاک ای پی اے کے ساتھ کام کیا اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ ہم گراس روٹ لیول پر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے اسلام آباد میں ہریالی ہب بنایا ہے جہاں آبادیوں سے اکٹھا کر کے اسے ری سائیکل کیا جاتا ہے اوراس سے خواتین کو جیولری و دیگراشیاء بنانا سکھائی جاتی ہیں۔ اس طرح ہم کچرے کو کاروبار اور کارآمد بنا رہے ہیں۔
ہم کلائمیٹ ایکشن پراجیکٹ کے تحت بچوں اور خواتین کی تربیت کر رہے ہیں اور انہیں آگاہی بھی دی جا رہی ہے تاکہ معاشرے سے ماحولیاتی مسائل کا خاتمہ ہوسکے۔ ہم سکولز میں بھی آگاہی کیلئے کام کرر ہے ہیں، اس حوالے سے مختلف سکولوں میں گرین کلبز بنائے گئے ہیں تاکہ گرین مائنڈز کو فروغ دیا جاسکے۔ اس وقت 25 سکولز میں ہمارے پراجیکٹس چل رہے ہیں جن کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ ہم طلبہ اور اساتذہ کی کپیسٹی بلڈنگ کر رہے ہیں، ان کی ٹریننگ کرائی جاتی ہے، فیلڈ وزٹ ہوتے ہیں جن سے ان کی لرننگ ہوتی ہے۔
ہم نوجوانوں کیلئے بھی کام کر رہے ہیں، ہم قومی اور صوبائی سطح پر ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے پنجاب کلائمیٹ ایکشن پلان پر بھی حکومت کو اپنی سفارشات پیش کیں، ہم ایڈوکیسی رول بھی ادا کر رہے ہیں۔ زمین ہمارے لیے بنائی گئی لیکن ہم نے اپنے غلط رویوں سے اس کو تباہ کر دیا لہٰذا اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے رویے درست کرکے زمینی مسائل حل کریں۔
معظم احمد
(ایمبیسیڈر گرین کلب )
ہمارے ماحولیاتی مسائل سنگین ہیں مگر صد افسوس سکولوں میں طلبہ کو آگاہی نہیں ہے لہٰذا انہیں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے آگاہی اور تربیت دی جائے، تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کیے جائیں اور ایسی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جن سے زمین اور ماحول کی حفاظت ہوسکے۔ میرا تعلق گرین کلب سے ہے، یہ طلبہ اور اساتذہ پر مشتمل 15 رکنی کلب ہے جو ویسٹ مینجمنٹ، بجلی اور پانی کا بچاؤ، ماحولیاتی آلودگی و دیگر حوالے سے طلبہ کی تربیت کرتا ہے، ہم آگاہی کیلئے سکولز اور لائبریریز میں آگاہی پوسٹرز بھی لگاتے ہیں۔ہم نے اپنے سکول کی کینٹین کو گرین کر دیا ہے، یہ پلاسٹک فری ہے۔ ہم نے کچرے کیلئے سکول میں ’تھری بن‘ سسٹم متعارف کرایا ہے۔ ہم نہ صرف اپنے سکول میں آگاہی دے رہے ہیں بلکہ یہ پیغام طلبہ کے ذریعے گھروں میں بھی پہنچ رہا ہے جس سے علاقے میں خاطر خواہ فائدہ ہو رہا ہے۔