پنجابی بولتے ہوئے ’شرمندگی محسوس ہوتی‘ ہے!
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) ہم دونوں سری لنکا کے انتہائی قدیم قلعے سگیریا کی ٹکٹیں لینے کے لیے ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ ایک بلند پہاڑ پر واقع یہ قلعہ تقریبا 473 برس بعد از مسیح تعمیر کیا گیا تھا اور اب وہاں اس کی صرف باقیات ہی بچی ہیں۔
میں نے دیکھا کہ اس نے ایک ہاتھ میں کڑا بھی پہن رکھا ہے۔ یہ سکھوں کی نشانی ہے۔
میں نے اسے انگلش میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم بھارت سے آئی ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں میں کینیڈا سے آئی ہوں لیکن بھارت میں ہمارے رشتہ دار ہوتے ہیں اور سری لنکا کے مختصر قیام کے بعد میں سیدھا بھارت ہی جاؤں گی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں سے ہو؟ میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں اور پنجاب کے ایک دور دراز کے گاؤں سے تعلق ہے۔(جاری ہے)
پنجاب کا نام سنتے ہی وہ اوچھل پڑی اور ایک دم بولی، ''تے فیر تُسی پنجابی وچ گل کرو ناں، دفعہ مارو انگلش نوں۔
شکر اے مینوں کوئی پنجابی بولن والا بندہ وی ملیا اے۔‘‘ میں حیران ہوا کہ وہ پیدا بھی کینیڈا میں ہوئی تھی اور اس نے یونیورسٹی تک تعلیم بھی وہاں حاصل کی ہے لیکن اس کی پنجابی انتہائی شاندار ہے۔اس نے بتایا کہ سکھوں کے زیادہ تر بچے کینیڈا میں بھی پنجابی کی اسپیشل کلاسز لیتے ہیں اور گرنتھ صاحب بھی پنجابی میں ہونے کی وجہ سے وہ پنجابی لازمی طور پر سیکھتے ہیں۔
پھر ہم شام تک ایک ساتھ ہی گھومتے رہے۔ شام کو میں نوئریلیا کی طرف چلا گیا اور وہ نوئریلیا دیکھ کر آ رہی تھی لیکن حیران کن طور پر کینیڈا کی اس پینٹ شرٹ اور چیونگم کھانے والی لڑکی کو بابا بلھے شاہ کے کلام سے لے کر وارث شاہ کی ہیر تک آتی تھی۔اسی طرح ایک دن بون یونیورسٹی میں میری ملاقات ہریندر سنگھ سے ہوئی۔ وہاں سبھی جرمن ہی جرمن تھے اور ہریندر بھی جرمنی میں ہی پیدا ہوا تھا۔
اسے پتا چلا کہ میں پنجابی ہوں تو آتے ہی اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ کہتا کہ یار ''تو پنجابی وی بول لینا ویں‘‘۔ مجھے بھی اس سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور ہم پنجابی میں گپیں لگاتے رہے۔اب پاکستان میں اس سے بالکل مختلف رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ چند برس پہلے میں ایک نجی اسکول گیا تو ایک میڈیم ہمارے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپ ابھی تک گھر میں بچوں کے ساتھ پنجابی بولتے ہیں؟ گھر کا ماحول اتنا پینڈو نہ بنائیں، ان سے اُردو اور انگریزی زبان میں بات کیا کریں! اب یہ سن کر مجھے تو کافی دکھ ہوا کہ یہ پنجابی کے بارے میں ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟
اسی طرح چند برس پہلے میں اپنے دوست وقاص خان کے کہنے پر رات کو ان کے گوجرانوالہ کے مشہور انگلش میڈیم اسکول میں ہونے والے ایک میوزیکل کنسرٹ میں چلا گیا۔
ہم دونوں اسٹیج سے ذرا دور کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے اسکول کی کچھ دیگر خواتین اساتذہ بھی ہمارے قریب ہی کھڑی ہو گئیں۔ تعارف کے بعد ایک نوجوان استانی کہنے لگیں کہ اسٹیج کے سامنے بہت ہی بدتمیز لڑکے جمع ہو چکے ہیں، پتا نہیں کہاں سے آ گئے ہیں یہ سارے پینڈو؟اب مجھ سے رہا نہ گیا کہ یہ ''پینڈو لفظ بطور گالی‘‘ کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ میں نے ان سے فوراً کہا کہ ایک پینڈو کا بدتمیزی اور ہلڑ بازی سے کیا تعلق ہے؟ میں خود پینڈو ہوں اور آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں وہ دیہات کے رہنے والوں کو برا بالکل نہیں سمجھتیں وغیرہ وغیرہ!ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں میں واقع اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بھتیجے، بھتیجیاں اور بھانجیاں سبھی ادھر تھے اور سبھی ماشااللہ سے یونیورسٹی میں ہیں۔ وہ اردو بولتے ہوئے مسلسل انگریزی الفاظ کا استعمال بار بار کر رہے تھے۔
میں نے کہا کہ آپ لوگ یہ سب الفاظ آپس میں مِلا کیوں رہے ہیں اور پنجابی میں بات کیوں نہیں کر رہے، سب کو تو آتی ہے؟ ان میں سے ایک بھتیجی نے کہا کہ بس پنجابی بولتے ہوئے شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے۔اب شرمندگی کا خیال آپ کو اُسی وقت ہوتا ہے، جب انسان کسی چیز کو کمتر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ نسل کو پنجابی کی اہمیت اور اس کی خوبصورتی سے آگاہ نہیں کر سکے۔
اگر صورتحال یہی رہی تو دیکھیے گا پنجاب میں چند نسلوں بعد پنجابی برائے نام رہ جانی ہے۔ پنجابی لکھنا اور پڑھنا تو اب بھی پنجاب کے بہت کم نوجوانوں کو آتا ہے، بس بول چال میں اس زبان کا استعمال ہو رہا ہے۔پنجاب والوں کو سمجھنا چاہیے کہ پنجابی کتنی بڑی زبان ہے اور سب سے بڑی بات کہ ہماری نسلوں کو یہ زبان بولتے ہوئے فخر کا احساس بھی ہونا چاہیے نہ کہ شرمندگی کا۔
قومیں کیوں کوئی دوسری زبان بولتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہیں، پنجابی کی ترویج کیوں نہیں کی جا رہی اور قصور وار کون ہے؟ یہ مکمل ایک الگ بحث ہے لیکن جو قومیں اپنی ہی زبان ترک کر دیں وہ بونی اور چھوٹے قد کی ضرور ہوتی ہیں۔ہمارے ہاں پنجابی شاعروں کو دیکھ لیں تو ان کا بھی برا حال ہے۔ کچھ عرصہ قبل مستنصر حسین تارڑ صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ بتانے لگے کہ پنجابی اس قدر مکمل، قدیم اور بڑی زبان ہے کہ کئی سو برس پہلے لکھے گئے اشعار بھی بالکل ایسے ہی ہیں، جیسے آج پنجابی بولی جا رہی ہے۔ پنجابیوں کو یہ زبان بولتے ہوئے فخر ہونا چاہیے نہ کہ شرمندگی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
اسلام ٹائمز: امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریر: حمید محمد طاہری
عالمی سطح پر سالہا سال تسلط پسندی کے بعد آج یمن امریکہ کے لیے ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امریکی افواج شدید قسم کے اسٹریٹجک چیلنجز سے روبرو ہیں۔ اب تک امریکی فوج یمن کے خلاف معرکے میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امریکہ کی فوجی طاقت اور حیثیت بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں جب سابق سوویت یونین میں گورباچوف نے اصلاحات کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو دنیا میں امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ یہ سرد جنگ کا خاتمہ تھا اور دنیا پر یونی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہو چکا تھا۔ یہاں سے "امریکن پیس" کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں امریکہ نے دنیا بھر میں یکہ تازیاں شروع کر دیں۔
عالمی سطح پر امریکی طاقت کی دھاک جمانے میں ہالی وڈ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک فلم جو امریکہ کی شان و شوکت کی تصویر پیش کرتی تھی 1986ء میں بننے والی "ٹاپ گن" تھی جس میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں ایک بہادر امریکی پائلٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس فلم نے امریکی جوانوں کو متاثر کیا اور وہ دھڑا دھڑ ایئرفورس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اس فلم کے چار سال بعد عراق میں "ڈیزرٹ اسٹارم" نامی بڑا فوجی آپریشن انجام پایا جو درحقیقت امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی طاقت اور شان و شوکت کے سامنے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے جن کے تناظر میں ہالی وڈ نے 2022ء میں ٹاپ گن 2 فلم بنائی۔
اس میں بھی ٹام کروز نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور یوں امریکہ کو دشمنوں کے مقابلے میں برتر طاقت کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیس امریکانا کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب امریکہ مزید عالمی سطح پر وہ سپرپاور نہیں جس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ٹاپ گن 2 میں کہانی ایک ایسے ایٹمی مرکز کے گرد گھومتی ہے جو ایک پہاڑی علاقے میں موجود ہے اور علاقے کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی خطے میں واقع ہے۔ اس مرکز کا پیچیدہ محل وقوع اور فلم میں موجود روسی جنگی طیاروں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسا ہی خطرہ جو ان دنوں یمن کی جانب سے ہے جہاں انصاراللہ یمن نے پہاڑوں کے اندر پیچیدہ تنصیبات تعمیر کر رکھی ہیں۔
امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلحہ کے ذخائر میں قلت کے باعث ممکن ہے امریکہ کی مسلح افواج کی توجہ دیگر اہداف سے ہٹ جائے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اب تک انصاراللہ کے زیر زمین ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یمن میں ایسی پہاڑی دلدل کا شکار ہو گیا ہے جو اس کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی حکام پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یمن کی جنگ جاری رہتی ہے تو ممکن ہے امریکہ کو اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کرنی پڑ جائے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت اور عزت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے پہاڑ امریکہ کے فوجی ذخائر ختم ہو جانے کا باعث بنے ہیں؟
امریکہ کے فوجی ذخائر کم ہونے کے باعث اس کی عالمی سپرپاور کے طور پر حیثیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یمن میں جنگ کی پیچیدگیوں اور انصاراللہ تحریک کی شدید مزاحمت کے پیش نظر ممکن ہے امریکہ مستقبل قریب میں یمن کے مقابلے میں مزید شکست اور ناکامیوں کا شکار ہو جائے۔ یہ امر عالمی سطح پر درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوالات جنم دے سکتا ہے۔ یمن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں بہترین منظرنامہ یہ ہے کہ یمن کے پہاڑ نہ صرف امریکی بم بلکہ امریکہ کی فوجی شہرت اور شان و شوکت بھی اپنے اندر دفن کر دیں۔ ایسے میں ہالی وڈ کی فلمیں شاید پروپیگنڈے کے میدان میں موثر واقع ہوں لیکن حقیقی امتحان یمن کے پہاڑوں میں جاری ہے۔