Daily Ausaf:
2025-04-22@07:19:51 GMT

صرف 45 منٹ کیلئے ملک کا صدر بننے والی شخصیت کون؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

میکسیکوسٹی(انٹرنیشنل ڈیسک)عام طور پر صدارت کا منصب کئی برسوں پر محیط ہوتا ہے، مگر تاریخ میں ایک ایسا منفرد واقعہ بھی پیش آیا جہاں میکسیکو کے صدر پیڈرو لاسکورین نے محض 45 منٹ کے لیے اقتدار سنبھالا اور پھر مستعفی ہو گئے۔ یہ دنیا کی مختصر ترین صدارت سمجھی جاتی ہے۔

میکسیکو کا انقلابی دور

1910 سے 1920 کے درمیان میکسیکو ایک بڑے انقلابی دور سے گزر رہا تھا، جہاں مسلسل سیاسی عدم استحکام، حکومتوں کے تختے الٹنے اور بغاوتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اس دوران لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور ملک میں انتشار کی کیفیت رہی۔

 

9 فروری 1913 کو ایک نئے سیاسی بحران کا آغاز ہوا جب جنرل وکٹوریانو ہویرٹا نے صدر فرانسسکو آئی۔ مادیرو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی۔ جنرل ہویرٹا کو امریکی اور جرمن حمایت حاصل تھی، جس کی بدولت انہوں نے حکومت کے کئی اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کر لیا۔

پیڈرو لاسکورین کا غیر متوقع عروج

اس وقت پیڈرو لاسکورین میکسیکو کے وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے دیگر حکومتی عہدیداروں کو قائل کیا کہ مادیرو کے مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ میکسیکن آئین کے مطابق صدر کے بعد نائب صدر، اٹارنی جنرل، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ جانشین ہو سکتے تھے۔

اقتدار پر قبضہ جمانے کی نیت سے جنرل ہویرٹا نے نائب صدر اور اٹارنی جنرل کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں پیڈرو لاسکورین کو صدر بنانے کا فیصلہ ہوا۔

صرف 45 منٹ کی صدارت

صدر بنتے ہی لاسکورین پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جنرل ہویرٹا کو وزیر داخلہ مقرر کر دیں، کیونکہ آئینی طور پر صدر کے مستعفی ہونے پر یہی عہدہ سب سے پہلے جانشین بنتا۔

چنانچہ، پیڈرو لاسکورین کی صدارت صرف 45 منٹ تک رہی، جس کے بعد انہوں نے مستعفی ہو کر اقتدار جنرل ہویرٹا کے حوالے کر دیا۔

یہ تاریخ میں اب تک کی سب سے کم ترین مدت کے لیے صدارت کا ریکارڈ ہے، جسے آج بھی دنیا بھر میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

سیاسی زندگی سے کنارہ کشی

اقتدار چھوڑنے کے بعد جنرل ہویرٹا نے لاسکورین کو اپنی حکومت میں اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی، مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا اور سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر کے دوبارہ وکالت کے پیشے کی طرف لوٹ گئے۔

 

پیڈرو لاسکورین کی یہ مختصر ترین صدارت ایک حیرت انگیز سیاسی چال کا حصہ تھی، جو آج بھی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک منفرد موضوع بنی ہوئی ہے
مزیدپڑھیں:اسلام آباد میں پنشن اصلاحات کے خلاف احتجاج، پولیس سے جھڑپیں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انہوں نے

پڑھیں:

ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن

ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ 78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔ ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔

ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔ یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔ 

متعلقہ مضامین

  • زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے: مریم نواز
  • ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن
  • سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر ملکی وقار کیلئے کام کر رہے ہیں: گورنر پنجاب
  • ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
  • اقوام متحدہ کے امن مشنز کیلئے پاکستان کے بھرپور تعاون پرمحسن نقوی کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛ جین پیر لاکروا
  • گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کو پیچھےچھوڑ کرکم عمر ترین سیلف میڈ ارب پتی بننے والی چینی نژاد لوسی گو کون ہیں؟ 
  • فواد خان پُر کشش شخصیت اور فلموں کیلئے ہی پیدا ہوئے ہیں، وانی کپور
  • عالمی امن کیلئے اپنا بھر پور کردار جاری رکھیں گے،وزیر داخلہ محسن نقوی
  • پاکستان ہمیشہ امن مشنز کا حامی رہا،عالمی امن کیلئے اپنا بھر پور کردار جاری رکھیں گے، محسن نقوی
  • لڑکے سے لڑکی بننے والی سابق بھارتی کرکٹر سےمتعلق انکشافات سامنے آگیا