امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے عرب رہنماؤں کا وہ مجوزہ منصوبہ نہیں دیکھا جو غزہ میں جنگ بندی کے بعد زیر بحث آیا ہے۔

وائس آف امریکا کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جب میں معاہدہ ایک بار دیکھ لوں گا تو اس کے حوالے سے آگاہ کر سکوں گے۔

مجوزہ منصوبہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ عرب رہنماؤں کے مجوزہ منصوبے کے تحت غزہ میں بسنے والے فلسطینیوں کو یہاں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا جب کہ بحیرۂ روم کے ساحل پر موجود اس 41 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کا انتظام بھی فلسطینی خود سنبھالیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین امن مذاکرات کی میزبانی پر پیوٹن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی سعودی عرب کا شکریہ

امریکی صدر نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ وہ غزہ سے تمام (تقریباً 20 لاکھ) فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک اردن اور مصر میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد امریکا اس علاقے کا انتظام سنبھال کر اس کی تعمیر و ترقی کرے گا۔ تاہم عرب ممالک نے امریکی صدر کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔

رواں ہفتے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر علاقائی رہنما کوئی جوابی پیش کش سامنے رکھیں تو اس منصوبے کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

مصر، اردن، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سفارت کار جمعے کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ملاقات کریں گے۔

عرب رہنماؤں کی ملاقات میں زیربحث آنے والے معاملات

عرب رہنماؤں کی ملاقات میں غزہ کی تعمیر نو کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ مصر کا غزہ کی تعمیر نو کے لیے 20 ارب ڈالر جمع کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ بحث آئے گا جو تین برس میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے جمع کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ 3 مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔

مزید پڑھیے: ’ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے،‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کو فنڈنگ بند کردی

جنگ بندی کے تحت پہلے مرحلے میں حماس کو 33 یرغمال جب کہ اسرائیل کو سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کرنے ہیں جس کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔

غزہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ امریکا، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

حماس کی کارروائی کے بعد غزہ پر قہر ڈھاتے ہوئے اسرائیلی فوج نے 48 ہزار 291 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ جب کہ ایک لاکھ 11 ہزار 722 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سرکاری میڈیا آفس نے اپنی ہلاکتوں کی تعداد کو کم از کم 61 ہزار 709 بتایا ہے کیوں کہ اس میں ان افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ملبے تلے دبے اور اب تک لاپتا ہیں اور وہ مردہ تصور کیے جا رہے ہیں۔

فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں، امارات

دریں اثنا متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو بتایا ہے کہ وہ امارات فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔ مارکو روبیو نے بدھ کو ابوظہبی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے امارات کے صدر سے ملاقات کی۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق مارکو روبیو کی اماراتی صدر سے ملاقات ان کے اس کثیر الملکی دورے کا حصہ تھی جس میں انہوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی۔

یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان 19 جنوری سے شروع ہونے والی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے قریب ہے۔

یرغمالوں کی رہائی

اس سے قبل حماس کے ایک رہنما خلیل الحیا نے ایک ریکارڈڈ بیان میں اعلان کیا تھا کہ ان کی تنظیم ہفتے کو 6 زندہ اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کرنے اور جمعرات کو 4 کی لاشیں دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مزید پڑھیں: غزہ، فرانس نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ مسترد کردیا

یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں طویل عرصے سے مطلوب موبائل ہومز اور تعمیراتی سامان کی اجازت دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔

ایک اسرائیلی عہدے دار کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے یرغمالوں کی رہائی میں تیزی لانے کے لیے غزہ میں موبائل ہومز اور تعمیراتی سامان کی اجازت دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

گزشتہ ہفتے حماس نے موبائل ہوم کے مسئلے اور جنگ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید یرغمالوں کی رہائی روکنے کی دھمکی دی تھی۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ مارچ کے شروع میں ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اب تک حماس نے 24 یرغمالوں جب کہ اسرائیل نے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔

جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے اور زیادہ مشکل مرحلے پر مذاکرات ہونے ہیں۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی میں طویل تعطل اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی صورت میں ہی باقی یرغمالوں کو رہا کرے گی۔

دوسری جانب اسرائیل غزہ میں حماس کے کسی بھی طرح کے عسکری یا حکومتی کردار کو ختم کرنے کے اپنے مقصد پر قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیے: حماس کا ٹرمپ منصوبے کیخلاف مصر و اردن کے مؤقف کا خیر مقدم

اسرائیل کے وزیرِ خارجہ غدعون ساعر نے منگل کو کہا تھا کہ اسرائیل دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ بات چیت 2 ہفتے پہلے شروع ہونی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا حماس حماس اسرائیل جنگ بندی عرب رہنما غزہ غزہ متبادل منصوبہ فلسطین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا حماس اسرائیل جنگ بندی فلسطین فلسطینیوں کو اسرائیل اور مارکو روبیو جنگ بندی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان انہوں نے حماس کے کے لیے غزہ کی تھا کہ کے تحت کے بعد

پڑھیں:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک مجوزہ ایگزیکٹو آرڈر کے مسودے کے مطابق، محکمہ خارجہ (State Department) میں نمایاں کمی اور از سرِ نو تشکیل کی تجویز دی گئی ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، اس 16 صفحات پر مشتمل مسودے کی کاپی امریکی سفارتکاروں میں گردش کر رہی ہے۔

اگر یہ تبدیلیاں نافذ کر دی گئیں تو 1789 میں قیام کے بعد سے محکمہ خارجہ کی یہ سب سے بڑی تنظیمِ نو ہوگی۔ حکام کے مطابق، یہ مسودہ دنیا بھر کے سفارتکاروں کو بھیجا گیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز ایک پوسٹ میں ان اطلاعات کو ’جھوٹی خبر‘ قرار دیا۔

مجوزہ حکمنامے کے تحت درجنوں شعبے اور محکمے ختم کر دیے جائیں گے، جن میں ماحولیاتی تبدیلی، پناہ گزینوں، جمہوریت، افریقی امور اور اقوامِ متحدہ سے رابطے کے لیے کام کرنے والا ’بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سفارتی سرگرمیوں میں بھی نمایاں کٹوتی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے

یہ تجاویز ٹرمپ انتظامیہ کی اُس پالیسی کا تسلسل ہیں جس کے تحت امریکا کے کثیرالملکی عالمی نظام میں کردار کو کمزور کیا جا رہا ہے، وہ نظام جس کی تعمیر میں امریکا نے خود کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

تبدیلیوں کے تحت، محکمہ خارجہ کو 4 علاقائی بیوروز میں تقسیم کیا جائے گا، جو انڈو پیسیفک، لاطینی امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیا پر مشتمل ہوں گے۔ افریقہ کے صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع کئی غیر ضروری سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کی تجاویز بھی شامل ہے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق یہ تبدیلیاں یکم اکتوبر تک نافذ کی جائیں گی۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق مسودے کی پہلی بار خبر سامنے آئی لیکن امریکی سفارتخانے نیروبی کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حکمنامے کے تمام نکات پر دستخط کریں گے یا نہیں۔ افریقہ میں موجود ایک سینئر اہلکار کے مطابق، محکمہ خارجہ میں اصلاحات سے متعلق جو معلومات گردش کر رہی ہیں وہ ممکنہ طور پر اس مسودے میں تجویز کردہ حد تک وسیع نہیں ہوں گی۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران

اسی دوران، محکمہ خارجہ کے ملازمین نے ریڈٹ کے ایک فورم پر اس حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ مجھے شک ہے کہ یہ مسودہ دراصل ایک چال ہے تاکہ جب اس سے کم سخت اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو ہم خوشی خوشی انہیں قبول کرلیں۔

افریقہ اور کینیڈا کے امور میں تبدیلیاں

حکمنامے کے تحت بیورو آف افریقن افیئرز، کلائمٹ کے لیے خصوصی ایلچی، بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز، اور آفس آف گلوبل ویمنز ایشوز سمیت متعدد اہم شعبے ختم کر دیے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق، کینیڈا سے سفارتی تعلقات کی نگرانی ایک محدود ٹیم کرے گی جو ’نارتھ امریکن افیئرز آفس ‘ (NAAO) کے تحت کام کرے گی اور اوٹاوا میں امریکی سفارتخانے کا حجم نمایاں طور پر کم کیا جائے گا۔

مزید برآں، سفارتی عملے کو علاقائی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گا، اور انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی علاقے میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ جو سفارتکار اس نظام کا حصہ نہیں بننا چاہیں گے، ان کے لیے 30 ستمبر تک رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا موقع دیا جائے گا۔ نیا فارن سروس امتحان بھی متعارف کرایا جائے گا جس میں امیدواروں کی صدارتی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی مزید 3 ماہ کے لیے بڑھا دی

اس کے علاوہ، دنیا بھر کے ہونہار طلبہ کے لیے معروف فلبرائٹ اسکالرشپ پروگرام کو محدود کرکے صرف قومی سلامتی سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگراموں تک محدود کر دیا جائے گا، جہاں مینڈرین چینی، روسی، فارسی اور عربی جیسی زبانوں میں مہارت رکھنے والے کورسز کو ترجیح دی جائے گی۔ ہاورڈ یونیورسٹی (واشنگٹن) سے منسلک فیلوشپس بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن (DEI) پالیسیوں کی واپسی کی علامت ہے۔

نئے منصوبے کے تحت ’بیورو آف ہیومینیٹیرین افیئرز‘ ان تمام اہم فرائض کو سنبھالے گا جو ماضی میں یو ایس ایڈ (USAID) ادا کرتا تھا، جسے حالیہ مہینوں میں بند کرکے محکمہ خارجہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام عہدوں اور ذمہ داریوں کے لیے صدرِ امریکا کی تحریری منظوری لازم ہوگی۔

محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ادارے میں قریباً 13 ہزار فارن سروس آفیسرز، 11 ہزار سول سروس ملازمین، اور دنیا بھر میں 270 سے زائد سفارتی مشنز پر 45 ہزار مقامی عملہ خدمات انجام دے رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی محکمہ خارجہ بلومبرگ نیو یارک ٹائمز

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
  • علامہ اقبال نے مردہ قوم کو شعور دیا: احسن اقبال
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • غزہ میں حماس کی حکومت کا برقرار رہنا اسرائیل کیلئے بڑی شکست ہوگی: نیتن یاہو
  • ہم جنگ کا خاتمہ اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک حماس کو ختم نہ کردیں: نیتن یاہو
  • حماس کے مکمل خاتمے تک غزہ میں جنگ جاری رہے گی، نیتن یاہو
  • غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک