رضی احمد رضوی؛ پاکستان کے بڑے براڈ کاسٹر جنہوں نے امریکہ میں بھی نام بنایا
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
"عمیر صاحب، ہم کراچی میں ہیں۔ پیر کو دن 11 بجے چلے آئیے۔ پھر گپ لگائیں گے۔”
رضی صاحب کا فون پر حکم تھا۔ میں نے سوال کیا کہ کب پہنچے؟ انہوں نے بتایا ایک مہینہ ہونے کو آ رہا ہے اور دو دن بعد اسلام آباد روانگی ہے۔ میں نے مصنوعی ناراضی کا اظہار کیا کہ اتنی دیر سے کیوں بتا رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ بس آتے ہی بیمار پڑ گیا تھا۔
وقتِ مقررہ پر ہمارے کولیگ تنزیل اور میں ان سے ملنے پہنچ گئے۔ وہ اپنے بھتیجے کے ہاں مقیم تھے۔ رضی صاحب نے صوفے سے اٹھ کر گلے لگایا۔ دیکھنے میں کم زور تو لگے لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ اس ملاقات کے محض 15 دن بعد ان کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر ملے گی۔
بہت دیر گپ شپ ہوئی۔ زیادہ تر وقت کراچی کی ‘بربادی’ پر تاسف کا اظہار اور پرانے کراچی کو یاد کرتے رہے۔ ملازم نے انہیں آ کر اطلاع دی کہ دوسرے مہمان انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے نظر انداز کر دیا اور باتوں میں لگے رہے۔ کہنے لگے اسلام آباد میں بھی ایک ماہ قیام ہے لیکن جانے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔ اب گھر یاد آ رہا ہے۔
میں نے یاد دلایا کہ مہمان انتظار کر رہے ہیں تو اسے بھی نظر انداز کر گئے۔ جب ہم نے رخصت کی اجازت چاہی تو بمشکل صوفے سے اٹھے۔ میں نے کہا تسنیم آپا (ان کی اہلیہ) کو بھی سلام کرتے چلتے ہیں۔ ہمارے ساتھ پائیں باغ میں آئے اور جب ہم نے سلام دعا کے بعد اجازت چاہی تو انہوں نے کہا ابھی کہاں، بیٹھیے۔ اور ملازم کو کرسیاں لانے کا اشارہ کیا۔ ہم پھر بیٹھ گئے اور وہ مہمانوں سے سلام دعا کے بعد پھر ہم سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔
رضی احمد رضوی صاحب سے میرا پہلا تعارف فون پر ہوا تھا۔ سن 2010 میں کراچی میں میری ہائرنگ کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے ریڈیو کے اسائنمنٹ ملنے لگے تو ریڈیو سروس کے دیگر سینئرز کے ساتھ ساتھ ان سے بھی فون پر بات ہونے لگی۔
وہ ریڈیو سروس کے مینیجنگ ایڈیٹر تھے اور 2022 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی ذمے داری پر رہے۔ وہ فون پر بہت محتاط اور لیے دیے انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ لیکن لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ سمجھانے یا کسی غلطی کی تصحیح کرنے کے لیے ہی فون کرتے تھے۔
سال 2016 میں وائس آف امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدر دفتر میں ایک سال کام کرنے کا موقع ملا تو وہاں پہنچتے ہی رضی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ اندازہ ہوا کہ اپنی محتاط اور کم گو طبیعت کے باوجود وہ ایک ہم درد اور بہت محبت کرنے والے شخص ہیں۔ جلد ہی ان کی طرف سے کافی پینے کی دعوت ملنے لگی۔ وہ دن میں کم از کم ایک بار دفتر کے سامنے موجود مک ڈونلڈز سے کافی لینے جاتے تھے۔ وہاں سینئر سٹیزنز کو کافی 50 سینٹ کی ملتی تھی۔ وہ کافی لینے جانے کا کہنے جب بھی میری ڈیسک پر آتے، جعفری صاحب آواز لگاتے، "ہاں بھئی، آٹھ آنے کی کافی پلانے لے جا رہے ہو۔”
رضی صاحب کا آبائی تعلق متحدہ ہندوستان کے صوبے بہار کے تاریخی شہر گیا سے تھا۔ روایت ہے کہ مہاتما بودھ کو نروان اسی علاقے میں ملا تھا۔ شاید اس سرزمین کا ہی اثر تھا کہ رضی صاحب انتہائی صلح جو طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے انہیں کبھی کسی سے الجھتے یا اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔
ان کی ابتدائی زندگی مشرقی پاکستان میں گزری۔ بنگال کی محبت ان میں رچی بسی تھی اور وہ اسے ہمیشہ محبت سے یاد کرتے تھے۔ شاید اسی محبت کی وجہ سے وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے سینئر صحافیوں سے ان کی اچھی دوستی تھی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد رضی صاحب نے ڈھاکہ میں پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سے اپنے صحافتی کریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 1967 میں پاکستان ٹیلی ویژن کا ذیلی ادارہ ایشین ٹیلی ویژن سروس جوائن کیا۔ سال 1970 میں انہوں نے پی ٹی وی کے کراچی سینٹر میں سینئر نیوز پروڈیوسر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ خود ان کے بقول وہ محض ڈیڑھ سال کراچی میں رہے اور اس دوران ان کا قیام نارتھ ناظم آباد بلاک جے میں اپنے بڑے بھائی کے گھر ہوتا تھا۔ لیکن وہ اپنی آخری عمر تک اس دور کے کراچی کو یاد کرتے تھے۔
اپریل 1972 میں راولپنڈی اسلام آباد سینٹر میں نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پی ٹی وی میں وہ کنٹرولر نیوز سمیت کئی اہم ذمے داریوں پر رہے۔ رضی صاحب جولائی 1985 میں وائس آف آمریکہ کی اردو سروس سے منسلک ہو کر واشنگٹن ڈی سی آ گئے تھے جہاں وہ 37 برس کی طویل سروس کے بعد 2022 میں ریٹائر ہوئے۔
اپنا تقریباً پورا صحافتی کریئر ان دو سرکاری اداروں میں گزارنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں ایک ٹھیراؤ اور احتیاط پیدا ہو گئی تھی جسے صرف سرکاری نشریاتی اداروں کے مزاج آشنا صحافی ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ 1970 کی دہائی میں پاکستان کی سیاست کے کئی اہم ترین واقعات کے عینی شاہد تھے۔ رضی صاحب نے اس دور کے تمام بڑے سیاست دانوں اور شخصیات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔
مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 میں ہونے والے فوجی آپریشن کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو کا مشہور جملہ "شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا” کے مخاطب رضی صاحب ہی تھے جو ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے والے بھٹو کے انٹرویو کے لیے پی ٹی وی کے نمائندے کے طور پر ایئرپورٹ کے ٹارمک پر کھڑے تھے۔ وہ ایسے کئی واقعات نجی محفلوں اور ملاقاتوں میں سنایا کرتے تھے۔ لیکن انہیں کبھی قلم بند کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی سر توڑ کوشش کی کہ وہ اپنی یادداشتیں قلم بند کرلیں یا کم از کم مجھے ڈکٹیٹ کرادیں۔ لیکن وہ ہمیشہ ٹال جاتے۔
اگر کبھی خالد حمید صاحب اور رضی صاحب کو فرصت سے مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو پی ٹی وی کے آغاز اور اس کے ابتدائی برسوں کی یادوں اور دلچسپ واقعات کی پٹاری کھل جاتی۔ رضی صاحب ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، وہ واشنگٹن ڈی سی اور اس کے مضافات میں ہونے والی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ وائس آف امریکہ سے ریٹائر ہوجانے والے اپنے کولیگز سے مستقل رابطے میں رہتے اور جب پاکستان آتے، پی ٹی وی کے اپنے دور کے ساتھیوں سے ضرور ملتے۔
رضی صاحب نے امریکہ میں 40 سال گزارے۔ کئی ملکوں کا سفر کیا۔ لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی لگا رہتا تھا۔ اپنے خاندان کے بہت قریب تھے اور اس لیے ہر کچھ عرصے بعد اپنے احباب سے ملنے پاکستان ضرور آتے۔ بیرونِ ملک مقیم اکثر پاکستانیوں کی طرح صرف ملک کے حالات پر کڑھتے ہی نہیں تھے بلکہ کئی فلاحی اداروں اور مشکل میں گھرے واقف کاروں کی خاموشی سے دادرسی کیا کرتے تھے۔
سروس میں ان سے سب سے زیادہ بے تکلف قمر عباس جعفری صاحب تھے۔ جعفری صاحب سروس کے واحد شخص تھے جو انہیں "یار رضی” کہہ کر پکارتے۔ باقی تمام لوگوں کے لیے وہ رضی صاحب تھے۔ جعفری صاحب ان پر آتے جاتے جملے کستے اور وہ جواباً صرف مسکراتے۔
میں جب ڈی سی پہنچا تو میں نے دیکھا کہ سروس میں ان کی سب سے زیادہ دوستی اسد نذیر صاحب کے ساتھ تھی۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار رضی صاحب کے شیشے کے کمرے میں دونوں کی ایک نشست ضرور ہوتی تھی جس کے موضوعات کے بارے میں ہمارا اندازہ یہ تھا کہ دونوں حضرات اپنے باقی کولیگز کے متعلق اپنے نوٹس ایکسیچینج کرتے ہیں۔ ان دونوں صاحبان کی یہ دوستی اور رابطہ رضی صاحب کے آخری دنوں تک قائم رہا۔
سروس میں پے در پے آنے والی انتظامی تبدیلیوں اور بدلتے حالات کی وجہ سے ملازمت کے بڑھتے تقاضوں کے باعث رضی صاحب نے کووڈ سے قبل ہی ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ ان سے جب فون پر بات ہوتی، وہ یہی کہتے کہ بس اب وقت آ گیا ہے۔ لیکن اسد صاحب کہتے ہیں کہ بیٹھے رہیے۔ اب تو پھل کھانے کا وقت آیا ہے۔ پھر جب کووڈ کے دوران ریڈیو سروس بند کرنے کا فیصلہ ہوا تو رضی صاحب نے ریٹائرمنٹ لینے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔
دراز قامت رضی صاحب خوش لباس آدمی تھے۔ دفتر ہمیشہ فل سوٹ میں خود ڈرائیو کر کے آتے۔ صبح 10 بجے دفتر پہنچتے اور شام چھ بجے کے بعد گھر روانہ ہوتے۔ اردو سروس کے بیشتر ساتھیوں کی چھٹی پانچ بجے تک ہوجاتی تھی۔ پانچ بجے کے بعد دفتر میں رضی صاحب، خلیل بگھیو صاحب اور خاکسار ہی بچتے تھے۔ عموماً وہ اپنا کام ختم کرچکے ہوتے تو ان سے گپ شپ ہوتی۔ کبھی کبھار وہ نیشنل مال پر واک کے لیے جاتے تو میں ساتھ ہو لیتا اور اس دوران ان سے کرید کرید کر ان کے کریئر کے دلچسپ واقعات سنتا۔ بعض اوقات ہمارے ساتھ ہمارے ریڈیو کے آنجہانی کولیگ انجم ہیرلڈ گِل بھی ہوتے جنہیں اکثر اپنے ورکنگ آورز پورے کرنے کے لیے چھٹی کے بعد بھی دفتر میں بیٹھنا پڑتا تھا۔
گزشتہ ماہ کراچی میں ہونے والی ملاقات کے اختتام پر اٹھتے اٹھتے رضی صاحب نے کہا تھا کہ بھئی اب رابطے میں رہیے گا۔ کم از کم میسجز پر تو حال احوال ہوتے رہنا چاہیے۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مستقل رابطہ رہے گا۔ ملاقات کے دوران تسنیم آپا نے میری اور تنزیل کی ان کے ساتھ تصویر کھینچی تو رضی صاحب نے کہا کہ یہ اسد نذیر صاحب کو بھیج دیجیے گا۔ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یہ تصویر اسد صاحب کو واٹس ایپ کر دی۔ ان کا جواب آیا: "رضی صاحب کو میرا سلام کہنا۔ ان کو خوش و خرم دیکھ کر خوشی ہوئی، اب ان کو وہیں روک لو۔”
اسد صاحب! ہم نے رضی صاحب کو یہیں روک لیا ہے۔ اب وہ سدا اسی مٹی میں رہیں گے جس کی مہک سات سمندر پار سے انہیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پی ٹی وی کے کراچی میں انہوں نے کرتے تھے سروس کے کے ساتھ وائس آف صاحب کو اور اس کے لیے فون پر کے بعد تھا کہ نے کہا
پڑھیں:
ایلون مسک کو حکومت امریکا نے کھرب پتی بنایا
عام طور پہ سمجھا جاتا ہے کہ دنیا کے امیر ترین فرد، ایلون مسک نے اپنی ذہانت اور محنت سے اپنی اربوں ڈالر مالیت رکھنے والی صنعتی سلطنت کی بنیاد رکھی مگر اب امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت امریکہ ایلون مسک کو مختلف ادوار میں بھاری رقم فراہم کرتی رہی۔ مجموعی طور پہ یہ رقم 38 ارب ڈالر بنتی ہے ۔ اس کے باوجود آج مسک صدر ٹرمپ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اسی ریاستی نظام کا ڈھانچا تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے جس نے اس کی صنعتی ایمپائر کھڑی کرنے میں بھرپور ساتھ دیا اور مالی امداد فراہم کرتی رہی۔ یہ احسان فراموشی اور سنگ دلی کی انتہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی سوچ ہے کہ امریکی بیوروکریسی کچھ نہیں کرتی اور سرکاری خزانے پر بوجھ بن چکی۔ ایسا ممکن ہے کہ بعض سرکاری افسر واقعی کوئی ٹھوس کام نہیں کرتے مگر ٹرمپ نے پوری افسر شاہی کو معتوب قرار دے ڈالا جو ناانصافی ہے۔ ایلون مسک بھی ٹرمپ کے نظریے سے اتفاق رکھتا تھا۔ چناںچہ ٹرمپ جیسے ہی الیکشن جیتے، انھوں نے ایک عارضی سرکاری ادارہ ، ڈاج (Department of Government Efficiency) بنا دیا جس کا سربراہ مسک کو بنایا۔ادارے کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ جو سرکاری ملازمین اور سرکاری منصوبے بیکار وفضول ہیں، ان سے چھٹکارا پایا جائے تاکہ حکومتی اخراجات کم ہو سکیں۔
ڈاج کے ذریعے ایلون مسک ہزارہا سرکاری ملازمین کو نکال چکا مگر اس اقدام نے امریکہ بھر میں بے چینی پھیلا دی ہے۔ نکالے گئے مردوزن میں وہ ووٹر بھی شامل ہیں جنھوں نے حالیہ الیکشن میں ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے اور اب وہ پچھتا رہے ہیں۔ امریکی عوام کو احساس ہی نہ تھا کہ اپنے ٹیکسوں کی رقم سے انھوں نے جس ایلون مسک کو امیر ترین ہستی بنایا، وہی ان کے روزگار تباہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
واشگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران مسک اور اس کے کاروبار کو اکثر نازک وقت کے سمے کم از کم 38بلین ڈالر حکومتی معاہدوں، قرضوں، سبسڈیز اور ٹیکس کریڈٹس کی شکل میں ملے۔یہ ادائیگیاں بیس سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہیں۔ 2008 ء میں ٹیسلا کا سی ای او بننے کے فوراً بعد کیش تنگی کا شکارمسک نے محکمہ توانائی سے کم سود پر قرض حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ اس عمل میں براہ راست شامل دو افراد کے مطابق کاغذی کارروائی کے بارے میں کمپنی کے ایگزیکٹوز کے ساتھ روزانہ بریفنگ کا انعقاد اور سرکاری قرض کے افسر کے ساتھ گھنٹے گزارنا معمول میں شامل تھا۔
جب مسک کو جلد احساس ہوا کہ اس کے پاس ایک اہم ماحولیاتی تحفظ ایجنسی سرٹیفیکیشن غائب ہے جو اسے کرسمس سے کچھ دن پہلے قرض کے لے کوالیفائی کرا سکتا ہے تو وہ سیدھے اوپر چلا گیا۔اس نے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کی ایڈمنسٹریٹر، لیزا جیکسن سے مداخلت کرنے پر زور دیا۔دو افراد نے انتقام کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ راز افشا کیا۔پچھلے پانچ سال میں 38 بلین ڈالر کے فنڈز میں سے تقریباً دو تہائی مسک کے کاروبار کو دئیے گئے۔صرف 2024 ء میں امریکہ کی وفاقی اور مقامی حکومتوں نے مسک کی کمپنیوں کو کم از کم 6.3 ارب ڈالر دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔اتنی بڑی سرکاری رقم کسی اور کاروباری یا صنعتی گروپ کو نہیں مل سکی۔
امریکی اخبار کی رو سے مسک کو دی جانے والی کل رقم زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی رپورٹ میں وفاقی حکومت کے لیے دفاع اور انٹیلی جنس کے خفیہ کاموں کو چھوڑ کر صرف عوامی طور پر دستیاب معاہدے شامل ہیں۔ خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق مسک کی کمپنی،اسپیس ایکس( SpaceX) پینٹاگون کے جاسوس سیٹلائٹ ڈویژن، نیشنل ریکونیسنس آفس کے لیے جاسوس سیٹلائٹ تیار کر رہا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے کمپنی کی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ معاہدہ 1.8 ارب ڈالر کا ہے۔تحقیق کرتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ کے محققوں کو تقریباً ایک درجن دیگر مقامی گرانٹس، ری ایمبرسمنٹ(reimbursements) اور ٹیکس کریڈٹ ملے جہاں رقم کی مخصوص رقم عوامی نہیںکی گئی۔۔
پوسٹ کی تحقیق کے مطابق سات سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ 52 اضافی معاہدے بشمول ناسا، محکمہ دفاع اور جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن ممکنہ طور پر مسک کی کمپنیوں کو اگلے چند سال میں 11.8 ارب ڈالر اضافی ادا کرنے کے راستے پر ہیں۔ناسا اور ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ نے اسپیس ایکس سے جو معاہدے کیے ہیں، درج بالا معاہدوں میں ان کی اکثریت ہے۔ مسک کی الیکٹرک کاریں بنانے والی کمپنی، ٹیسلا نے بھی وفاقی اور ریاستی پروگراموں سے 11.4 ارب ڈالر کے ریگولیٹری کریڈٹس حاصل کیے ہیں جن کا مقصد الیکٹرک کار انڈسٹری کو فروغ دینا ہے۔اور ماہرین کا کہنا ہے کہ صارفین کے لیے وفاقی حکومت نے جو 7,500 ڈالر الیکٹرک وہیکل ٹیکس کریڈٹ دیا ، اس سے ٹیسلا کی کاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا۔
مسک کی سربراہی میں ادارے، ڈاج نے ان تمام سات سرکاری ایجنسیوں کے عملے میں کمی، بجٹ میں کمی یا معاہدوں کو کم کرنے کی کوشش کی ہے جن سے مسک کی کمپنیوں کے معاہدے جاری ہیں۔ ان میں جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن، ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ اور ٹرانسپورٹیشن ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ مسک کے تعلقات بعض اوقات باہمی طور پر فائدہ مند رہے ہیں۔ اس کے منصوبوں نے نئی منڈیوں کا آغاز کیا جنہوں نے امریکی حکومت کے اہداف کو آگے بڑھایا ہے، بشمول خلائی تحقیق اور برقی گاڑیوں کی توسیع کے۔ یہ درست ہے، مسک نے جن بہت سے سرکاری پروگراموں سے فائدہ اٹھایا ، وہ الیکٹرک وہیکل انڈسٹری میں دوسروں کے لیے بھی کھلے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ صرف اس کی کمپنی ٹیسلا کو ہی مارکیٹ پر غلبہ حاصل ہو سکا۔
ییل اسکول آف مینجمنٹ کے پروفیسر جیفری سونن فیلڈ نے اخبار کو بتایا "اس بڑے پیمانے پر ہر کاروباری شخص وفاقی سرکاری رقم پر اتنا انحصار نہیں کرتا رہا… یقینی طور پر نہ نویڈیا( Nvidia)، نہ مائیکروسافٹ، نہ ایمزن اور نہ ہی میٹا۔" انھوں نے نوٹ کیا کہ مسک کو زیادہ تر فنڈنگ ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دوران دی گئی۔وہ کہتے ہیں ’’ڈاج کے ساتھ، ایسا لگتا ہے کہ تضاد جڑا ہے۔ مسک نے قومی صنعتی پالیسی، خاص طور پر ڈیموکریٹ صنعتی پالیسی کے ذریعے ہی حکومتی فنڈنگ پائی اور وہ اس سے بہت بڑا فائدہ اٹھانے والا رہا۔‘‘
یہ امریکی حکومت کی حکومتی فنڈنگ ہے جس نے مسک کے منصوبوں کو کلیدی ابتدائی مالی امداد فراہم کی اور وہ پھلنے پھولنے لگے۔ کانگریس کے تفتیش کاروں کے مطابق ناسا اور امریکی محکمہ دفاع نے مسک کے ابتدائی برسوں میں اسپیس ایکس کو ایسے معاہدے فراہم کیے جن سے اسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد ملی۔ جبکہ ناسا نے وقت پر مطلوبہ سنگ میل کو پورا کرنے میں کمپنی کی ناکامی کو بھی نظرانداز کر دیا اور اس پہ جرمانہ نہیں کیا۔اسی طرح 2010 ء میں امریکی محکمہ توانائی نے ٹیسلا کو 465 ملین ڈالر کا قرض دیا۔اسی قرضے کی بدولت ٹیسلا کو عروج نصیب ہوا اور وہ بڑی کمپنی بنتی چلی گئی۔ اس رقم سے کمپنی نے اپنی لگژری الیکٹرک سیڈان ، ماڈل ایس کو انجنیئر اور اسمبل کیا اور فریمونٹ، کیلیفورنیا میں ایک فیکٹری خریدی۔ ٹیسلا نے چھ ماہ بعد حصص برائے فروخت پیش کر دئیے۔
"ٹیسلا کو امریکی حکومت کا قرض نہ ملتا تو وہ قصہ پارنیہ بن جاتی۔" کمپنی کے مالی معاملات سے واقف ٹیسلا کے ایک سابق اعلیٰ ملازم نے بتایا۔ اس نے بھی بدلے کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ "یہ ایک نازک وقت میں بڑا اہم قرض تھا۔"فری بیکن نیوز سائٹ کی طرف سے شائع کردہ ای میلز کے مطابق مسک نے خود بھی اس وقت کمپنی کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں نوٹ کیا۔مسک نے جیکسن، اس وقت ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے چیف سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے لکھا: "ٹیسلا نے پچھلے ایک سال میں اپنی بقا کے لیے جدوجہد کی ہے اور پھر جب ہم نے سوچا کہ چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی، یہ مسئلہ سامنے آگیا،" انہوں نے لکھا۔ "میں آپ کے اختیار میں چوبیس گھنٹے ہوں۔" مسک نے اسے اپنا سیل فون نمبر بھی فراہم کیا۔
جیکسن نے ایپل کے ایک نمائندے کے ذریعے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، جہاں وہ اب کام کرتی ہے۔ اسپیس ایکس، مسک اور ٹیسلا نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ناسا کی ترجمان چیرل وارنر نے بتایا کہ ایجنسی نے متعدد خلائی پروگراموں پر کام کرنے کے لیے اسپیس ایکس میں 15 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔وارنر نے ایک ای میل میں کہا’’ناسا اسپیس ایکس جیسے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ زمین کے نچلے مدار میں معیشت تعمیر کی جا ئے اور چاند اور مریخ پر سب کے فائدے کے لیے اپنی اگلی بڑی چھلانگ لگائی جا سکے۔"
وائٹ ہاؤس کے ترجمان ہیریسن فیلڈز نے کہا کہ مسک کے کاروباری مفادات ڈاج میں ان کے کام سے متصادم نہیں ہوں گے۔ فیلڈز نے ایک ای میل میں کہا "ایلون مسک کی بہت کامیاب کمپنیوں سے منسلک کوئی بھی معاہدہ حکومتی اخلاقیات کے ہر اصول کی تعمیل کرے گا کیونکہ یہ مفادات کے ممکنہ تصادم سے متعلق ہے۔" ٹیسلا کے ایگزیکٹوز نے حکومتی تعاون کی قدر کی اور مسک نے 2010 ء کے کم سود والے قرض کو چند برسوں میں ادا کر دیا۔ 2013 ء کی ایک نیوز ریلیز میں یہ اعلان کرتے ہوئے کہ اس نے ایسا کیا ہے، مسک نے محکمہ توانائی اور کانگریس کا شکریہ ادا کیا اور " خاص طور پر امریکی ٹیکس دہندہ کا جن سے یہ فنڈز حاصل ہوتے ہیں۔"اس نے مذید لکھا’’مجھے امید ہے کہ ہم نے آپ(امریکی عوام کو) فخرمند کیا ہے،"
ٹیسلا ریاستی امداد پر پھلا پھولا
2003 ء میں سلیکن ویلی میں اپنے قیام کے بعد سے ٹیسلا نے ریاست کیلیفورنیا کی حکومت سے اربوں ڈالر کی چھوٹ اور ٹیکس کریڈٹس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ریاست کے ڈیموکریٹک گورنر، گیون نیوزوم نے دعویٰ کیا ہے "کیلیفورنیا کے ریگولیٹری اداروں اور ضابطے کے بغیر ٹیسلا وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔" ٹیسلا کا دعوی ہے، اس نے 2016 ء سے ریاست میں 5 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے اور مقامی طور پر 47 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ملازمت فراہم کی ہے۔
2014 ء کے بعد سے ٹیسلا کو 35 ارب ڈالر کے منافع کا تقریباً ایک تہائی حصہ دیگر کار ساز اداروں کو وفاقی اور ریاستی ریگولیٹری کریڈٹس فروخت کرنے سے حاصل ہوا ہے۔ یہ کریڈٹ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو دیا جاتا ہے جو کچھ معیارات پر پورا اترتی ہیں، بشمول صفر اخراج والی گاڑیوں کی ایک خاص فیصد فروخت کرنا۔ ٹیسلا ان آٹومیکرز کو ان کریڈٹس کا سب سے بڑا فروخت کنندہ ہے جو معیار پر پورا نہیں اترتے اور جرمانے کی ادائیگی سے بچنا چاہتے ہیں۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی فائلنگ کے مطابق ان کریڈٹس نے 2013 ء میں ٹیسلا کمپنی کی پہلی منافع بخش سہ ماہی اور 2020 ء میں اس کے پہلے پورے سال کے منافع میں اہم کردار ادا کیا۔ فائلنگ کے تجزیے کے مطابق کریڈٹس کے بغیر ٹیسلا کو 2020 ء میں 700 ملین سے زیادہ کا نقصان ہوتا جو کہ مسلسل ساتویں سال بغیر کسی منافع کے چل رہی تھی۔کریڈٹ کے ساتھ کمپنی نے اس کے بجائے 862 ملین ڈالر منافع ہونے کی اطلاع دی۔
مسک نے صارفین کے لیے ای وی ٹیکس کریڈٹ ختم کرنے کی وکالت کی ہے مگراس نے ان ریگولیٹری کریڈٹس کے بارے میں بہت کم کہا ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسپورٹیشن اسٹڈیز کے الیکٹرک وہیکل ریسرچ سینٹر کے اسسٹنٹ پروفیسر ایلن جین کہتے ہیں، اگر یہ مراعات نہ ہوتیں تو ٹیسلا خسارے میں جا کر بند ہون کے قریب پہنچ جاتی۔ یہی وہ چیز ہے جس نے انہیں واقعی زندہ رکھا ہوا ہے۔"کمپنی نے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے خریداروں کے لیے 7,500 ڈالر کے فیڈرل ٹیکس کریڈٹ سے بھی فائدہ اٹھایا اور جس نے ٹیسلا کی کاریں بنانے اور بیچنے میں مدد کی۔ اگر یہ ٹیکس کریڈٹ نہ ہوتا تو ٹیسلا کی کار کی قیمت 80ہزار ڈالر سے زیادہ ہو جاتی اور بہت کم امریکی اتنی مہنگی گاڑی خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔
ایڈوکیسی گروپ،گڈ جابز فرسٹ (Good Jobs First) کے اعداد و شمار کے مطابق مسک کی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے والی سرکاری رقم کا تقریباً دسواں حصہ کیلیفورنیا سمیت آٹھ ریاستوں کی سرکاری ایجنسیوں سے آتا ہے۔ 2007 ء کے بعد سے ریاستی اور مقامی حکومتوں نے مسک کمپنیوں کو کم از کم 1.5 ارب ڈالر ٹیکس کریڈٹ، گرانٹس اور ری ایمبرسمنٹ دیے ہیں، جب کہ متعدد سطحوں پر مختلف سرکاری ایجنسیوں نے مزید 2.1 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا ہے، جس کا زیادہ تر حصہ ٹیسلا اور اس پر انحصار کرنے والی بیٹریوں کی ترقی کے لیے ہے۔
ریاست نیواڈا میں مقامی اور ریاستی حکومتوں نے ٹیسلا کو 1.3 ارب ڈالر کا مراعاتی پیکج دیا تاکہ کار ساز ادارہ اور جاپانی کمپنی، پیناسونک مل کر رینو شہر کے باہر لیتھیم بیٹری بنانے والی "گیگا فیکٹری" کھڑی کر سکیں۔مسک کی کمپنیوں سے کیے گئے تمام معاہدے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے۔ گورنر اینڈریو ایم کوومو کے دور میں نیو یارک ریاست نے مسک کی سولر سٹی کمپنی کو 2014ء میں 750 ملین ڈالر کی ترغیبات دی تھیں۔اس کے بدلے مسک نے پیداوار میں بھاری سرمایہ کاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور جس سے بفلو شہر میں سینکڑوں اعلیٰ درجے کی مینوفیکچرنگ ملازمتیں وجود میں آتیں۔ اس کے بجائے ملازمتیں ریاست کی توقعات سے بہت کم ہو گئیں اور مسک نے دو سال بعد ٹیسلا کے ذریعے وہ کمپنی حاصل کر لی۔
اسی طرح ریاست کیلیفورنیا سے اربوں ڈالر وصول کرنے کے باوجود مسک نے کاروباری ماحول سے ناخوشی کا اعلان کرتے ہوئے 2021 میں ٹیسلا کا ہیڈ کوارٹر پالو آلٹو سے ریاست ٹیکساس کے صدرمقام آسٹن منتقل کر دیا۔ حالیہ انٹرویوز میں مسک نے دعوی کیا ہے کہ اس کی کمپنی نے سبسڈیز پر انحصار ختم کر دیا ہے، جبکہ وہ بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ امداد نے ٹیسلا کی ترقی کی رفتار کو تیز کر دیا۔ یوں وہ اس قابل ہوئی کہ مستحکم ادارہ بن سکے۔ مسک نے 2015ء میں لاس اینجلس ٹائمز کو بتایا تھا "اگر مجھے سبسڈی کی پرواہ ہوتی تو میں تیل اور گیس کی صنعت میں داخل ہو جاتا۔"
مسک نے بعد میں صدر جو بائیڈن کے 2022 ء کے افراط زر میں کمی کے ایکٹ بل کے خلاف آواز اٹھائی، حالانکہ اسی نے ٹیسلا کو 7,500 ڈالر کے الیکٹرک وہیکل ٹیکس کریڈٹ کے لیے اہل بنایا تھا۔ مسک نے کہا"میں لفظی طور پر کہہ رہا ہوں کہ تمام سبسڈیز سے چھٹکارا حاصل کریں۔" اس نے وال سٹریٹ جرنل کے ساتھ 2021 ء کے انٹرویو میں کہا "ٹیسلا نے بنیادی طور پر باقی صنعتوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ الیکٹرک گاڑیاں بنائی ہیں۔ اور ہمیں (اب ) 7,500 ڈالر کے ٹیکس کریڈٹ کی ضرورت نہیں ۔"
امریکی تحقیقی کمپنی، کیلی بلیو بک کی رپورٹ کے مطابق ’’تمام صنعتوں میں سبسڈی میں کمی کے لیے مسک کی حمایت اس وقت سامنے آئی جب ٹیسلا امریکی الیکٹرک وہیکل انڈسٹری پر حاوی ہو گئی ہے، اگرچہ حالیہ برسوں میں اس کا حصہ کم ہوا ہے۔ پچھلے سال ماہ جولائی میں ایک سوال کے جواب میں کہ ٹیکس کریڈٹ اور دیگر مراعات پر اثرانداز ہونے کا ٹیسلا پر کیا اثر پڑے گا، مسک نے ، جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی 2024ء کی انتخابی مہم میں کم از کم 277 ملین ڈالر کا عطیہ دیا، کہا کہ اس سے کمپنی کو قلیل مدت میں نقصان پہنچے گا لیکن یہ امر "ہمارے حریفوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔"
الیکٹرک گاڑیوں کا مطالعہ کرنے والے جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر جان ہیلوسٹن کا کہنا ہے، ٹیسلا اس کامیابی کی ایک اہم مثال ہے جو نئی صنعتوں میں حکومتی سرمایہ کاری سے حاصل ہو سکتی ہے، حالانکہ صرف حکومتی امداد ہی کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی۔انھوں نے مذید کہا ’’مسک تمام صنعتوں میں سبسڈی کو کم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اس طرح وہ چھوٹی کمپنیوں اور ان کے حریفوں کے لیے ایک ممکنہ لائف لائن کا گلا گھونٹ رہا ہے۔‘‘ پروفیسر جان ہیلوسٹن کہتے ہیں:’’ٹیسلا کے ہر شعبے کو سرکاری سبسڈی یا مالی امداد سے براہ راست فائدہ ہوا ہے۔ٹیسلا کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا کوئی عجیب واقعہ نہیں لیکن اب انہی سبسڈیوں کی مخالفت کرنا یقیناً (مسک کا )منافقانہ عمل ہے۔"
ناسا نے اسپیس ایکس کو فروغ دیا
مسک کی راکٹ کمپنی ،اسپیس ایکس کی بنیاد اس لیے رکھی گئی تاکہ وہ انسانوں کو مریخ پہنچا سکے۔ اس کو قدم جمانے میں آغاز میں امریکی محکمہ دفاع نے سب سے زیادہ سرکاری امداد دی۔ جس کا مقصد شروع سے ہی خلابازوں کو مریخ پر رکھنا تھا۔2002 ء میں اسپیس ایکس کی بنیاد رکھنے کے بعد مسک نے ناسا اور محکمہ دفاع کے ساتھ قریبی اور بعض اوقات مخالفانہ تعلقات استوار کر لیے تھے۔ کمپنی نے قانونی چارہ جوئی اور جارحانہ طور پر لابنگ کی تاکہ حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے خلائی پروگراموں تک رسائی حاصل کی جا سکے جو سکہ بند ایرو اسپیس کمپنیوں ، لاک ہیڈ مارٹن اور بوئنگ کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔
اگرچہ کمپنی کی بنیاد مسک کی اپنی خوش قسمتی اور فراہم کردہ سرمائے،100 ملین ڈالرسے رکھی گئی تھی، پبلک کنٹریکٹ دستاویزات اور کمپنی کے رہنماؤں کے بیانات کے مطابق اسپیس ایکس نے حکومتی مشورے اور رقم سے فائدہ اٹھایا ،اس سے پہلے کہ اس نے مدار میں کچھ بھیجا۔امریکی افواج کے ادارے، پینٹاگون کے خصوصی تحقیقی بازونے ، جسے ڈرپا( DARPA )ایجنسی کے نام سے جانا جاتا ہے، 2003 میں ابتدائی تحقیقی کام کے لیے اسپیس ایکس کو ادائیگی کرنا شروع کر دی تھی۔ڈرپا ایجنسی نے بعد میں کمپنی کے پہلے راکٹ، فالکن 1 کے افتتاحی لانچ کو خریدنے پر اتفاق کیا، جو مارچ 2006 میں ناکامی پر ختم ہوا جب اس کے انجنوں نے پرواز میں ایک منٹ سے بھی کم وقت میں فائر کرنا بند کر دیا۔ لیکن پینٹاگون نے مزید لانچ کی کوششوں کی حمایت کے لیے اسپیس ایکس کے ساتھ نئے معاہدوں پر دستخط کر دیے۔
اگرچہ اسپیس ایکس ابھی تک کامیابی کے ساتھ خلا تک نہیں پہنچ پایا تھا،ناسا نے 2006 میں کمپنی کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک اس سے سپلائی لے جانے کے پروگرام کے تحت 278 ملین ڈالر کا کنٹریکٹ دیا ۔ 2008 ء میں اسپیس ایکس کے فالکن ۱ راکٹ کے مدار میں کامیابی کے ساتھ پہنچنے کے چند مہینوں بعد ناسا نے کمپنی کو 1.6 ارب ڈالر کا ایک بہت بڑا معاہدہ دیا۔اسپیس ایکس نے پہلے ہی اپنا اگلا راکٹ، فالکن 9 بنانا شروع کر دیا تھا۔ ناسا کے معاہدے کی دستاویز کے مطابق ناسا نے کمپنی کو یکے بعد دیگرے کامیابی کے سنگ میل حاصل کرنے کے لیے قسطوں میں ادائیگی کی اور کچھ انجینئرنگ اور ترقیاتی کاموں کا احاطہ کیا۔
اس طرح فالکن 9 کے مدار میں پہنچنے سے پہلے کمپنی کو کروڑوں ڈالر مل گئے۔گورنمنٹ اکاؤنٹیبلٹی آفس کی 2011 ء والی ایک رپورٹ کے مطابق جو کانگریس کی مالی امداد سے چلنے والی واچ ڈاگ ایجنسی ہے، ناسا نے رقم کو دینا جاری رکھا حالانکہ اسپیس ایکس بار بار اپنے منصوبوں کی آخری تاریخ کو دو سال تک بڑھاوا دیتی رہی۔
اس بھاری رقم نے اسپیس ایکس کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے اور مستحکم کرنے میں مدد کی جس سے اسے ناسا اور دیگر گاہکوں کے لیے راکٹ بنانے اور لانچ کرنے کی اجازت ملی۔ فالکن 9 اسپیس ایکس کے لیے کاروبار بڑھانے کے لیے ایک کلید بن گیا، جس میں ہر تین دن میں تقریباً ایک بار سرکاری جاسوسی سیٹلائٹس، حریفوں کے لیے سیٹلائٹس اور اسٹارلنک انٹرنیٹ سروس کے لیے چھوٹے سیٹلائٹس کا مرکب لانچ کیا جاتا ہے جو اب اسپیس ایکس کی آمدنی کا بڑا حصہ بنتا ہے۔
2016 ء میں وفاقی معاہدوں کو حاصل کرنے میں اسپیس ایکس کی کامیابی نے اس کی حریف کمپنی، بلیو اوریجن کمپنی کے بانی (اور واشنگٹن پوسٹ کے مالک) جیف بیزوس کو اپنی کمپنی کی میٹنگ میں یہ کہنے پر اکسایا:’’ایلون کی حقیقی سپر پاور یہ ہے کہ اس کو سرکاری رقم مل رہی ہے۔اب سے ہم ہر اس سرکاری ٹھیکے کا پیچھا کریں گے جس پر اسپیس ایکس بولی لگائے گا۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسپیس ایکس جو اپنے راکٹوں کو دوبارہ استعمال کرتی ہے، ہر لانچ کے لیے حریفوں سے ڈرامائی طور پر کم چارج کرنے کے قابل ہے جس سے بالآخر پینٹاگون اور ناسا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ حالیہ نومبر میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس میں اسپیس ایکس کے سی ای او، شاٹ ویل گائینے نے تسلیم کیا کہ کمپنی کو امریکی حکومت سے معاہدے کر کے اربوں ڈالر ملے ہیں، اور مزید کہا کہ کمپنی نے ڈیلیور کیا ہے۔ "ہم نے یہ کمایا،" اس نے کہا۔ "امریکی حکومت کی بڑی صلاحیت اور مصنوعات کو کام میں لاتے ہوئے فائدہ اٹھانا کوئی بری بات نہیں ۔"
وقت گزرنے کے ساتھ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسپیس ایکس کا سرکاری کاروبار پر انحصار کم ہو گیا ہے کیونکہ اس کی اسٹارلنک انٹرنیٹ سروس کی سبسکرپشنز میں اضافہ ہوا ہے۔ سرمایہ کار بینک، مورگن اسٹینلے نے حالیہ جنوری کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا ہے کہ اسپیس ایکس نے صرف 2024 ء میں اسٹار لنک سے 9.3 ارب ڈالر کمائے۔امریکی انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار ٹوڈ ہیریسن کہتے ہیں’’ اسپیس ایکس کے سبھی کارگو خفیہ یا کلاسیفائیڈ ہوتے ہیں۔
اس لیے یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ کمپنی کو امریکی حکومت کے ساتھ کیے گئے ٹھیکوں سے کتنی رقم حاصل ہوتی ہے۔‘‘ شاٹ ویل گائینے تاہم اسپیس ایکس کی کامیابی اور تعمیر کے لیے ناسا کی ابتدائی فنڈنگ کو اہم قرار دے چکا۔ اسپیس ایکس کے ہیڈ کوارٹر میں 2013 ء کے انٹرویو میں اس نے نوٹ کیا کہ کمپنی ایجنسی کے تعاون کے بغیر "شاید لنگڑا رہی ہوتی۔‘‘اس نے مذید کہا کہ کمپنی کا سارا ڈھانچا ناسا کی فراہم کردہ رقم کے ذریعے ہی وجود میں آیا۔