سٹیٹ بینک معاشی استحکام کے ساتھ مالیاتی ریلیف کو متوازن کرنے کے لیے محتاط راستے پر گامزن ہے. ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 فروری ۔2025 )اسٹیٹ بینک کی محتاط پالیسی شرح میں کمی کا مقصد مہنگائی کا انتظام کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنا ہے لیکن ماہرین قیمتوں میں ممکنہ اضافے سرمائے کی ذخیرہ اندوزی، اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی جیسے خطرات کو اجاگر کرتے ہیںجس سے مستحکم اور طویل مدتی مانیٹری اپروچ کی ضرورت ہوتی ہے.
(جاری ہے)
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں معاشی اصلاحات کے ماہر حسان الرحمان نے دلیل دی کہ پاکستان کی افراط زر لاگت کا باعث ہے اور اس کا شرح سود سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ان کے مطابق موجودہ حقیقی شرح سود سے بینکوں کو غیر متناسب فائدہ پہنچتا ہے جبکہ حکومت اور عوام دونوں پر بوجھ پڑتا ہے قرض کی خدمت کے لیے مختص 13ٹریلین ٹیکس ہدف میں سے 9 ٹریلین روپے کے ساتھ پالیسی کی شرحیں ریلیف فراہم کرنے کے بجائے مالی رکاوٹوں کو بڑھاتی ہیں.
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو آبادی کے رجحانات سے مطابقت رکھنے کے لیے کم از کم 6 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو درکار ہے اس کے باوجود ایک مضبوط بینکنگ لابی نے معاشی فیصلہ سازی پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے وہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ماڈل کی طرح فوری مداخلت کا مطالبہ کرتا ہے پالیسی سازوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اقتصادی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے درآمدات کا انتظام کرتے ہوئے افراط زر کے مطابق شرحیں کم کریں ان کے خیال میں بلند شرحوں کو برقرار رکھنے کے جواز کے طور پر صرف اور صرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر انحصار کرنا ناقابل برداشت ہے. فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر ریسرچر محمد ارمغان نے وضاحت کی کہ پالیسی کی شرح میں کمی سے قرضے لینے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو کاروباری سرمایہ کاری اور صارفین کے اخراجات میں اضافے کے ذریعے معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے کم شرحیں کریڈٹ کو مزید قابل رسائی بناتی ہیںجس سے گھروں اور گاڑیوں جیسی اشیا کی مانگ بڑھ جاتی ہے تاہم انہوںنے نوٹ کیا کہ قرض لینے میں اضافہ قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے ممکنہ طور پر مرکزی بینک کو اس کورس کو تبدیل کرنے اور شرح سود میں دوبارہ اضافہ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے. انہوں نے شرح کی متواتر ایڈجسٹمنٹ کے اسٹریٹجک خطرات کو بھی اجاگر کیااس سے قبل شرح کو 15 سے کم کر کے 13فیصدکرنے کے فیصلے نے پہلے ہی مارکیٹ کی توقعات طے کر دی تھیں 12فیصدتک مزید کمی سے سرمایہ کاروں کو اضافی کٹوتیوں کی توقع ہو سکتی ہے جس سے فوری سرمایہ کاری کے بجائے سرمائے کی ذخیرہ اندوزی ہو سکتی ہے انہوں نے تجویز پیش کی کہ شرح سود کو متعین کرنے کے لیے ایک طویل المدتی وژن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مارکیٹ کے جذبات کو غیر متزلزل نہ کیا جا سکے اگرچہ کٹوتی قلیل مدتی فوائد فراہم کر سکتی ہے. انہوں نے کہاکہ کم شرحیں سرکاری سیکیورٹیز میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو روک سکتی ہیں کیونکہ سرمایہ کار دوسری منڈیوں میں زیادہ منافع چاہتے ہیں اسٹیٹ بینک کی حکمت عملی معاشی وسعت کو فروغ دینے اور مالی استحکام کو یقینی بنانے کے درمیان توازن کو واضح کرتی ہے اگرچہ کم شرحیں سرمایہ کاری اور اخراجات کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہیںلیکن افراط زر کے دباو، سرمائے کی پرواز اور مالیاتی شعبے کی کمزوریوں سے وابستہ خطرات بدستور موجود ہیں.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرمایہ کاری افراط زر انہوں نے کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
معاشی اثاثہ
معاشی استحکام قومی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے لیے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ازبس ضروری ہے۔ برسر اقتدار حکومت کے معاشی ماہرین کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ایسے راستے تلاش کریں کہ قومی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو، قرضوں کے بوجھ میں کمی اور دوست ملکوں سے امداد کے حصول سے نجات اور سب سے بڑھ کر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے شکنجے سے گلوخلاصی ممکن ہو سکے۔
عالمی معیشت کا مقابلہ کرنے، اپنے عوام کو سہولتیں دینے اور اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کے لیے ہمیں اپنی راہیں خود تلاش کرنی ہوں گی۔ اس بات سے انکار نہیں کہ شہباز حکومت معاشی استحکام کے لیے مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے۔ اس ضمن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پس پردہ مساعی اور یقین دہانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوست ملکوں چین، سعودیہ عرب، قطر اور یو اے ای سے لے کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول تک آرمی چیف کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔
رواں ماہ میں دو اہم کنونشن کا انعقاد کیا گیا اول منرل انوسٹمنٹ اور دوم سمندر پار پاکستانیوں کا کنونشن۔ دونوں اجلاسوں سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے علاوہ آرمی چیف کا مدبرانہ خطاب اس امر کا عکاس ہے کہ قومی معیشت کی بحالی اور پائیدار بنیادوں پر استحکام کے حوالے سے وہ پوری طرح سنجیدہ ہیں اور حکومتی پالیسیوں کو ان کا تعاون حاصل ہے جو یقینا خوش آیند بات ہے۔
پاکستان بلاشبہ معدنی ذخائر سے مالا مال ملک ہے۔ یہاں سونے چاندی سے لے کر گیس، تیل اور کوئلہ تک بے شمار معدنی اشیا زمین کے سینے میں دفن ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معدنی خزانوں کو سنجیدگی سے تلاش کرکے ان سے پوری طرح استفادہ کیا جائے تاکہ قومی معیشت کو استحکام ملے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔ وزیر اعظم نے منرل انوسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ ہمارا معدنی شعبہ برسوں سے خصوصی توجہ کا طالب تھا۔ ملک میں موجود کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر سے استفادہ کرکے قرضوں سے نجات اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بیرونی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور ہنرمندی و مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں معدنی معیشت میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کریں۔ آرمی چیف نے واضح طور پر کہا کہ پاک فوج بیرونی سرمایہ کاروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے فول پروف سیکیورٹی اقدامات کو یقینی بنائے گی۔ سپہ سالار اعظم نے درست کہا کہ پاکستان معدنی معیشت میں ایک رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے اور جب معدنی ذخائر سے استفادے کے لیے ہنرمندی، صلاحیت اور مہارت بھی موجود ہو تو پھر مایوسی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
پاکستان میں معدنی وسائل کا جو خزانہ پوشیدہ ہے اگر صحیح معنوں میں اس سے استفادہ کرنے کے مواقع میسر آجائیں تو نہ صرف عوام کی ترقی و خوشحالی کے سفر کا عمدہ آغاز ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان کو کشکول اٹھا کر دوست ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانے کی حاجت بھی باقی نہیں رہے گی۔
اگرچہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں قدرتی وسائل کے وسیع ذخائر موجود ہیں، تاہم اس ضمن میں بلوچستان سب سے زیادہ مالا مال صوبہ ہے۔ لیکن افسوس کہ وہاں امن و امان کی گمبھیر صورت حال کے باعث سرمایہ کاروں کے تحفظات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک بلوچستان کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوگا، ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے وہاں امن کے قیام کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ ایسے ماحول میں سرمایہ کاروں کو آمادہ کرنا گویا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگا۔
سمندر پار پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے کردار، محنت، لگن، وطن دوستی اور اپنی مٹی سے محبت کے جذبے کو سراہا اور انھیں اپنے سر کا تاج اور پاکستان کا ایمبیسڈر قرار دیا۔ وزیر اعظم نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے مراعاتی پیکیج کا بھی اعلان کیا۔
ان کے مسائل کے حل کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کا یقین دلایا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تقریب سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے سمندر پار پاکستانیوں کے جذبات اور خدمات کو قابل تحسین قرار دیا۔ انھوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں کی دس نسلیں بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ بلاشبہ دہشت گرد ایک نہ ایک دن ختم ہو جائیں گے۔ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا انشا اللہ۔ حکومت کو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق سمیت تمام مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہ قوم کا معاشی اثاثہ ہیں۔