برطانیہ: مسلم مخالف نفرت پر مبنی واقعات میں ریکارڈ اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) غیر سرکاری تنظیم ''ٹیل ماما‘‘ کی ڈائریکٹر ایمان عطا کا بدھ 19 فروری کو نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''مسلم مخالف نفرت میں اضافہ ناقابل قبول ہے اور یہ مستقبل کے لیے گہری تشویش کا باعث بھی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا، ''ہم نے سن 2012 میں اپنا کام شروع کیا تھا اور اس کے بعد سے گزشتہ برس ہمارے پاس سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔
‘‘اس غیرسرکاری تنظیم کو سن 2024 میں 6,313 مسلم مخالف نفرت پر مبنی واقعات کی رپورٹیں موصول ہوئیں، جن میں سے زیادہ تر آن لائن ہیں جبکہ یہ ادارہ ان میں سے 5,837 کی تصدیق کرنے کے قابل تھا۔
اس ادارے کو سن 2023 میں ایسے واقعات کی کُل 4,406 رپورٹیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے 3,767 کی تصدیق ممکن تھی۔
(جاری ہے)
سن 2023 میں 99 اور سن 2024 میں 171 کے حملوں کے ساتھ مجموعی طور پر ایسے واقعات میں 73 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے، جبکہ سن 2024 میں ''ٹیل ماما‘‘ کو بدسلوکی کے 2,197 آف لائن واقعات رپورٹ ہوئے۔
مسلم مخالف واقعات میں اضافہ کیوں؟برطانیہ کی اس غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اکتوبر 2023 میں غزہ تنازعے کے آغاز اور جولائی 2024 میں ساؤتھ پورٹ میں تین کمسن لڑکیوں کے قتل کے بعد مسلم مخالف واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
تب ایسی جھوٹی رپورٹیں شائع ہوئی تھیں کہ ساؤتھ پورٹ کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ایک مسلمان تارک وطن تھا۔ ان حملوں کے ابتدائی دنوں میں ایسی فیک نیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔
ان غیر مصدقہ رپورٹوں کی وجہ سے برطانیہ میں دہائیوں کے بدترین فسادات شروع ہوئے اور ہجوم نے مساجد کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کی پناہ گاہوں پر حملے کیے۔قتل کے ان واقعات کا ذمہ دار ایک برطانوی شہری ایکسل آر تھا، جو کارڈف میں روانڈا نژاد والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا۔ وہ قتل کے اس جرم میں اب 13 برس عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
اس گروپ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ کس طرح مصنوعی ذہانت سے مسلم مخالف تصاویر بنائی اور آن لائن گردش کی جا رہی ہیں۔
‘‘ایمان عطا نے برطانوی حکومت سے مربوط کارروائی کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام پر زور دیا کہ وہ ''نفرت اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو جائیں۔‘‘
اس گروپ نے سوشل میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے، ''ابھی تک ایکس مسلم مخالف نفرت پھیلانے میں سب سے زیادہ زہریلا آن لائن پلیٹ فارم بنا ہوا ہے۔‘‘
اس تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ''نفرت کے بڑھتے ہوئے مسائل‘‘ کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
ا ا / ا ب ا (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مسلم مخالف نفرت
پڑھیں:
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق
لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال اور ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق کیا گیا۔
گورنر ہاؤس پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب شریک ہوئیں جب کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر ، ندیم افضل چن، حسن مرتضیٰ اور علی حیدرگیلانی نے شرکت کی۔
کمیٹی کے کچھ رہنماؤں نے زوم کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی جب کہ کوارڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت دیگر افسران بھی شریک ہوئے۔
کوآرڈینیشن کمیٹی نے پنجاب میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جب کہ سب کمیٹی کی ملاقاتوں میں ہونے والے فیصلوں پر مشاورت کی۔
بعد ازاں، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے سیکریٹری جنرل حسن مرتضیٰ نے اسمبلی میں پیش کیے گئے بلدیاتی بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق ہوا، امید ہے کہ ہم مزید آگے بڑھیں گے جب کہ اجلاس میں زراعت اور گندم سے متعلق بات ہوئی اور گورننس سے متعلق تحفظات بھی رکھے۔
حسن مرتضیٰ نے کہا کہ پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے اور اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا جب کہ اس وقت ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں، گفتگو کے بعد بہتر راستہ نکلے گا۔
دوسری جانب، مسلم لیگ (ن) کے ملک احمد کا کہنا تھا کہ ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے، سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کی حفاظت کرے۔
انہوں نے کہا کہ بتایا گیا 10 ملین ایکڑ پانی کا گیپ ہے ، سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے معاملات پر ڈیٹا کے مطابق بات کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر عوامی نمائندوں کو اختیار ملنا چاہیے، پیپلزپارٹی بھی چاہتی ہے پنجاب میں اچھی گورننس ہو۔
واضح رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات دور کرنے کے لیے پہلی باضابطہ ملاقات گزشتہ سال 10 دسمبر کو ہوئی تھی جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی تھی جس کے بعد متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔
تاہم، 10 مارچ 2025 کو وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی تھی جس میں شہباز شریف نے بلاول کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
وزیرِاعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ پنجاب میں پاور شیئرنگ کے معاملات پر بھی غور کیا گیا۔
بعد ازاں، کینالز کے معاملے پر دونوں جماعتیں آمنے سامنے آگئیں اور اس دوران دونوں جانب سے بیان بازی کی گئی، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی بھی دے دی۔
جس کے بعد گزشتہ روز، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
جس کے بعد آج، رانا ثنااللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور دونوں رہنماؤں نے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔