ماسکو(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 فروری2025ء)ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان ریاض مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے سیاسی تعامل کے تناظر میں روسی صدر ولادیمیرپوتین نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے اچھا ماحول پیدا کرنے پر سعودی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو فون کریں گے تاکہ وہ مذاکرات میں ریاض کے کردار پر ذاتی طور پر ان کا شکریہ ادا کریں۔

(جاری ہے)

میڈیاررپورٹس کے مطابق روسی صدر پوتین نے مزید کہا کہ ریاض میں امریکہ کے ساتھ ہماری بات چیت کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا وہ آنے والے دنوں میں شہزادہ محمد بن سلمان سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے توانائی کے معاملے پر روس، امریکہ سعودی مذاکرات کی ضرورت کی طرف بھی اشارہ کیا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

تحریک آزادی کا اہم کردار، پیر الٰہی بخش (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کی انتھک جدوجہد میں مسلم دانشوروں کا کردار ناقابل فراموش ہے،انھی میں ایک عظیم نام پیرالٰہی بخش رحمتہ اللہ کا بھی ہے۔ پیر الٰہی بخش 9 جولائی 1890 کو ضلع دادوکی تحصیل بھان سعید آباد میں واقع پیر جوگوٹھ میں ایک دینی روحانی شہرت یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔

ان کے خاندان کا نسب حضرت مخدوم سرور نوح ؒ کے پانچویں صاحبزادے مخدوم موسیٰ سے ملتا ہے، ان کے دادا پیرغلام حسین ایک روحانی شخصیت جن کے مرید کاٹھیا وار ریاست میں زیادہ تھے، صرف 9 برس کی عمر میں ان کے والد پیر نواز علی اس فانی دنیا سے رخصت فرما گئے، جس کے بعد وہ اپنے ماموں پیر لعل محمد کی سرپرستی میں آگئے۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھان سعید آباد میں حاصل کی، بعد ازاں خیرپور میرس سے 1919میں ( ناز ہائی اسکول سے ) میٹرک کا امتحان پاس کیا، جس کے بعد وہ علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے، اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

آپ مولانا محمد علی جوہر کی تحریک خلافت سے بے انتہا متاثر تھے، جس کی بناء پر مولانا محمد علی جوہرکے حکم پرجن طلبہ نے 1920 میں علی گڑھ کالج چھوڑا، ان میں خود بھی شامل تھے۔ انھوں نے علی گڑھ چھوڑ کر دہلی میں واقع مولانا کی زیرسایہ بننے والی جامعہ ملیہ میں بطور طالب علم داخلہ لیا۔

اس عظیم درس گاہ کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے رکھا جس کے چانسلر حکیم اجمل خان تھے، یہاں سے انھوں نے بی اے کی سند حاصل کی۔ (افسوس یہ سند ان کے کام نہ آسکی، چونکہ برطانوی حکومت جامعہ ملیہ کی اسناد تسلیم نہیں کرتی تھی) اور مزید تعلیم چھوڑ کر اپنے وطن ( لاڑکانہ ) سندھ واپس آگئے اور مقامی طور پر تحریک خلافت کی قیادت سنبھال لی، جہاں سے وہ مسلمانان ہند کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔

جب سندھ میں خلافت تحریک شروع ہوئی تو پیرالٰہی بخش 8 سے10جولائی 1921 کو صوبہ سندھ خلافت کانفرنس کراچی میں شریک ہوئے ، جس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر نے کی۔ پیر الٰہی بخش آل انڈیا کانگریس کمیٹی اور آل انڈیا خلافت کمیٹی کے بھی کچھ عرصے ممبر رہے بدقسمتی سے یہ تحریک زور نہ پکڑسکی اور برطانوی حکومت نے انتہائی جبر اور بے رحمی سے اس تحریک کو دبا دیا۔

اس طرح کے حالات و واقعات نے ان کی توجہ سیاست کی طرف مبذول کردی اور وقت نے ایک مدبر سیاستداں کی ’’آمد‘‘ کی نوید کی سرگوشی کردی۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے صدر سر شاہنواز بھٹو نے پیر الٰہی بخش کو مشورہ دیا کہ وہ واپس علی گڑھ جائیں اور اپنی تعلیم مکمل کریں۔ 

جنھوں نے اس مقصد کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کی جانب سے انھیں وظیفہ عطا کیا اور یوں پیر الٰہی بخش ایک مرتبہ پھر تکمیل تعلیم کے غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے انھوں نے 1929میں ایم اے ( تاریخ) کیا، پھر ایل ایل بی کی ڈگری لی اور واپس اپنے آبائی ضلع لاڑکانہ آکر میں وکالت شروع کردی۔

1937تک اگر سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ ہوتی اور وہ ریزیڈنسی سے الگ ہوکر ایک خود مختار اور علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ کرتا، تو قرارداد پاکستان میں اس سے ایک مسلم اکثریتی صوبے کا درجہ نہ دیا جاتا۔

یہ ایک تاریخی جدوجہد تھی کہ سندھ کو جداگانہ حیثیت میں تسلیم کیا جائے اور اس تحریک کے چلتے یہ آوازگول میز کانفرنس اور سائمن کمیشن تک بھی جا پہنچی، جس سے اب ایک آخری دھکا دینے کی ضرورت تھی اور اس آخری دھکے کے لیے یونائیٹڈ فرنٹ کی بنیاد ڈالی گئی اور انتہائی قلیل مدت میں یہ کوشش رنگ لائی اور قابض برطانوی حکومت نے سندھ کو1937میں بمبئی سے الگ کر کے آزاد صوبے کی حیثیت دے دی۔

اسی طرح قیام پاکستان سے فورا پہلے سارے برصغیرکی پہلی صوبائی اسمبلی سندھ کی صوبائی اسمبلی تھی، جس نے باقاعدہ قیام پاکستان کے حق میں قرارداد منظورکی اور یہ منفرد اعزاز بھی سندھ اسمبلی کو صرف اس لیے حاصل ہوسکا،کیونکہ اس وقت تک سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت مل چکی تھی۔

اس عظیم فقیدالمثال کارنامے کے درپردہ عہد ساز بلند قامتی پیر الٰہی بخش کی انتھک کاوشیں کار فرما تھیں، چونکہ آپ اپنے زمانہ طالبعلمی سے ہی اس بات پر فکرمند رہتے کہ لاڑکانہ کے طلباء کو میٹرک کا امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا ہے۔

دوسری طرف وہ یہ بھی سوچتے کہ کچھ ایسا کریں، جس سے سندھ کو برصغیرکے جغرافیے اور ثقافت میں اپنا آزاد مقام حاصل ہوسکے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی کا دورانیہ تقریبا نو سال رہا۔1937 میں منتخب ہونے والی یہ اسمبلی 1945 کے اواخر تک کام کرتی رہی۔

160ارکان پر مشتمل اس اسمبلی میں 83 نشستیں مسلمانوں کے لیے مخصوص تھیں۔ سندھ کے بمبئی سے علیحدہ ہونے کے بعد1937 میں سندھ اسمبلی کے انتخاب جوکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت منتخب ہونے والی اسمبلی میں پیرالٰہی بخش دادو کے بااثر وکیل کو شکست دے کر پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے، اس وقت آپ سندھ اتحاد پارٹی کے رکن تھے۔ سندھ کی پہلی وزارت کے خاتمے کے بعد23 مارچ 1938 کو پیر الٰہی بخش بطور وزیر ریونیو بنے۔

18مارچ1940 کو نئے وزیراعلیٰ کے آنے پر پیرالٰہی بخش وزارت سے علیحدہ ہوگئے، بعد ازاں سال بھر بعد ایک بار پھرکابینہ میں تبدیلی آئی اور نئی کابینہ جو 6 مارچ1941 کو تشکیل پائی۔

اس میں پیر الٰہی بخش کو بیک وقت تعلیم، صنعت، محنت،آبکاری و جنگلات اور دیہی ترقی کے اہم قلمدان سونپے گئے۔ اس کے بعد بھی وزارت اعلیٰ میں تبدیلی آتی رہی مگر پیر صاحب آخر تک ان محکموں کے بطور وزیر برقرار رہے اور تعلیم کے شعبے سے آخر تک ان کو خصوصی دلچسپی رہی۔

اس تاریخ ساز اسمبلی کی مدت میعاد کی طوالت کی، اہم ترین وجہ دوسری عالمی جنگ کا شروع ہوجانا تھا، جس کے زیر اثر انتخابات نہیں ہوسکتے تھے، اسمبلی کا دورانیہ 1945 کے اواخر تک رہا، جس کا پہلا اجلاس موجودہ سندھ ہائی کورٹ کی عمارت میں واقع اسمبلی ہال میں منعقد ہوا۔

پورے سندھ میں پرائمری تعلیم کا حصول لازمی قرار دینے کے غرض سے1941میں پرائمری ایجوکیشن بل ان کی سربراہی میں پیش ہوا، جس سے اسمبلی نے متفقہ طور پر منظورکر لیا۔ انھوں نے مفت تعلیم بالغان کا اہتمام بھی کیا۔

1937 میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے باوجود میٹر ک سندھ کے طلباء کو امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا تھا،چنانچہ سندھ اسمبلی کے بائیسویں اجلاس منعقدہ 12مارچ 1945کو معرکتہ الارآیونیورسٹی بل1945 پیش ہوا، جسے پیر الہی بخش صرف دو ووٹوں کی سادہ اکثریت سے منظورکروانے میں کامیاب ہوگئے۔

اور اس طرح سندھ کی پہلی یونیورسٹی یعنی سندھ یونیورسٹی کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ابوبکراحمد حلیم کو سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلرکا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔

1946 میں پیرالٰہی بخش آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ممبر منتخب ہوئے اور 1948 کو پیر صاحب نے صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ آپ 3مئی 1948 سے4 فروری1949 تک صوبہ سندھ کے بطور دوسرے وزیر اعلیٰ تعینات رہے۔

آپ کی بہ حیثیت وزیراعلیٰ تقریری براہ راست قائداعظم ؒ کی طرف سے نامزدگی پر عمل میں آئی۔ قائداعظمؒ کی بہ حیثیت گورنر جنرل حلف برداری کی تقریب میں تلاوت قرآن پاک کی سعادت پیر الٰہی بخش کو حاصل ہوئی۔

پیر صاحب رحمتہ اللہ تحریک پاکستان کے عظیم مجاہد، قائداعظمؒ کے رفیق کار تھے، آپ شروع ہی سے قانون سازی کے عمل میں بڑی جانفشانی سے مصروف رہے اور اس تمام عرصے میں انھوں نے منشیات، تمباکو،آبکاری اورکاٹن وغیرہ جیسے اہم امور پر قانون سازی میں ایک فرض شناس پارلیمنٹرین کا کردار نبھایا۔           (جاری ہے۔)

متعلقہ مضامین

  • تحریک آزادی کا اہم کردار، پیر الٰہی بخش (پہلا حصہ)
  • سعودی عرب میں مسٹر بیسٹ کی پہلی ویڈیو نے ریکارڈ توڑ دی، ریاض سیزن میں عالمی توجہ کا مرکز
  • پنجاب میں خوش آمدید پر بلاول بھٹو، مریم نواز کے مشکور
  • بلاول بھٹو سے گورنر پنجاب کی ملاقات، سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • جلد پاکستان کا دورہ کروں گا :عراقی وزیر داخلہ
  • پاکستان اور افغانستان سفارت کاری سے مسائل حل کریں‘روسی سفیر
  • سعودی عرب: مقابلہ حفظ و تلاوت کے لیے 70 لاکھ ریال کے انعامات
  • اداکارہ سارہ علی خان کے دیے گئے بسکٹ فقیر نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیے، ویڈیو وائرل
  • مستقبل کس کا ہے؟
  • وزیرِ خزانہ گلوبل ڈویلپمنٹ  کانفرنس میں شرکت کیلئے ریاض چلے گئے