ٹیسلا نے بھارت میں فیکٹری لگائی تو یہ امریکا سے زیادتی ہوگی، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
نئی دہلی (نیوزڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ٹیسلا (Tesla) بھارت میں اپنی فیکٹری قائم کرتی ہے تاکہ وہاں کے محصولات سے بچا جا سکے، تو یہ امریکا سے زیادتی ہوگی۔
منگل کو فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں، ٹرمپ نے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے گزشتہ ہفتے کے امریکی دورے کے دوران بھارت کی گاڑیوں پر عائد زیادہ ڈیوٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک ہمیں محصولات کے ذریعے نقصان پہنچاتا ہے۔ بھارت میں کار بیچنا، عملی طور پر ناممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے تمام ممالک ہم سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور وہ یہ محصولات کے ذریعے کرتے ہیں لیکن دونوں ممالک نے جلد تجارتی معاہدے کی سمت کام کرنے اور محصولات کے تنازع کو حل کرنے پر اتفاق کیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکی ویزا کے درخواست گزاروں کی 5 سالہ سوشل میڈیا سرگرمیاں جانچنے کا منصوبہ
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی ویزا کی درخواست دینے والوں کی پانچ سالہ سوشل میڈیا سرگرمیاں جانچنے کا منصوبہ بنالیا۔
کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن ادارے نے فیڈرل رجسٹر میں اس حوالے سے نوٹس کو لازمی قرار دے کر شائع کردیا۔
یہ واضح نہیں کیا گیا کہ نئے فیصلے کا اطلاق کب سے کیا جائےگا تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سیٹیزن شپ اور امیگریشن سروسز یہ جانچیں گی کہ آیا متعلقہ درخواست گزار نے امریکا مخالف، یہود مخالف یا دہشتگردی سے متعلق کسی بات کی ترویج تو نہیں کی۔
امریکی عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا سے متعلق اقدام کے بارے میں ساٹھ روز میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
امریکا میں داخل ہونے والوں سے اہل خانہ کے ای میل ایڈریس، فون نمبر اور دیگر معلومات بھی پوچھی جائیں گی۔
محکمہ خارجہ نے اس سے پہلے سیاحوں کو جون میں حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹ کو پبلک کریں جبکہ اگست میں ٹرمپ انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ ویزا اور گرین کارڈ کی درخواست دینے والوں کی سوشل میڈیا پوسٹ جانچنا چاہتی ہے۔
اب ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام سے طلبہ اور سیاحوں سمیت وزیٹرز کی امریکا مخالف پوسٹ بھی ویزا کے اجرا پر اثرانداز ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اہلکاروں کو اب تعصب اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی ویزا درخواست رد کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔
صدر ٹرمپ پہلے ہی انیس ممالک کے شہریوں کیلیے امیگریشن کے دروازے بند کرچکے ہیں اور اس کا دائرہ تیس ممالک تک بڑھانے پر غور کیا جارہا ہے، تاہم نئےاقدام کا اطلاق برطانیہ اور جرمنی کے شہریوں پر بھی ہوگا جنہیں ویزا سے استثنیٰ حاصل ہے۔