چل بشیرے چک سوا تے ٹائر پھاڑیئے!
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
سرکاری عہدہ جتنا باوقار ہے اتنا ہی خوفناک بھی ہے۔ اختیارات، طاقت اور عہدہ سر چڑھ جائے تو اچھے خاصے سمجھدار انسان کو اوقات بھلا دیتا ہے۔ اسے المیہ نہ کہیں تو کیا کہیں۔ پاکستان میں سرکاری ملازمین فرائض کی آڑ میں جرم کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ بعض ’’فرض شناس‘‘ ایس ایچ او ایسے بھی ہیں جو جہاں تعینات ہوتے ہیں وہاں موٹرسائیکلوں کے پلگ کی تار کاٹنے کا ’’مشن‘‘ پورا کراتے ہیں۔ ان کے تھانے کا عملہ سرشام گشت کرتا ہے اور اہم مقامات پر کھڑی موٹر سائیکلوں کے پلگ کی تار کاٹتا جاتا ہے، جواز یہ دیا جاتا ہے کہ موٹر سائیکل چوری ہونے سے بچاتے ہیں۔ انہیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ کسی پراپرٹی کو نقصان پہنچانا بذات خود جرم ہے۔ اسی طرح شاہراہوں پر کھڑے پھل فروشوں کی ریڑھیوں کو سرکاری ٹرک میں الٹانے والے درجہ چہارم کے ملازمین کا انداز بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ ریڑھی ضبط کم اور تباہ زیادہ کی جاتی ہے، اکثر سوشل میڈیا پر بھی ویڈیوز سامنے آ جاتی ہیں جن میں سرکاری ملازمین ریڑھی الٹاتے ہوئے اس پر موجود اجناس ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے ’’زکوٹا جن‘‘ ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں جنہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کا مکمل کاروبار تباہ کر کے اسے جرائم کی راہ پر دھکیل رہے ہیں۔ عجیب سسٹم ہے جہاں ایک محکمہ محنت کش کو مجرم بنا دیتا ہے اور دوسرا اس مجرم کو گرفتار کر لیتا ہے۔ سرکاری احکامات پر عمل درآمد ضروری ہے لیکن اس فرض شناسی کے دوران فرض اور جرم میں فرق رکھنا بھی لازم ہے۔ کاش حکومت اپنے ملازمین کو ایسے ریفریشر کورسز بھی کراتی رہے جس میں انہیں ان کے اختیارات اور جرائم کی حد سے آگاہ کیا جائے۔ سرکاری اہلکار پراپرٹی تباہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے البتہ ضبط کرنے یا جرمانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ سنجیدہ بیوروکریٹ بتاتے ہیں کہ سرکاری سیٹ پر افسر کا نام نہیں بلکہ سیٹ کا کام بولتا ہے لیکن اب بہت سے افسران نے اپنے عہدوں کو ذاتی شہرت کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس ذاتی تشہیری مہم پر پابندی لگنا ضروری ہے۔ اگلے روز لاہور گلبرگ تھانے کے ایس ایچ او نے ملزمان کے ساتھ گروپ فوٹو سوشل میڈیا پر جاری ہوئی۔ جس نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے۔ اس تصویر کے ساتھ بتایا گیا کہ تھانیدار صاحب بہادر نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے پر ایک ہوٹل میں چھاپا مار کر 8 خواتین سمیت 15 افراد کو گرفتار کر لیا۔پولیس نے ان سے ایک عدد حقہ، شیشہ فلیور اور ساؤنڈ سسٹم بھی برآمد کر لیا ۔ المیہ یہ ہوا کہ ان کی شناخت چھپائے بغیر ان کے ساتھ تھانیدار صاحب بہادر نے گروپ فوٹو بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اخلاقی و قانونی طور پر درست تھا ؟ کیا تھانیدار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان افراد کا مستقبل تباہ کر دے۔ اس تصویر کے بعد اگر ان میں سے کسی خاتون کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا یا کوئی اس بدنامی کے بعد خودکشی کر لے تو کیا اس کی ذمہ داری تھانیدار پر عائد ہو گی ؟ کیا تھانیدار نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا؟ ملزمان کو عدالتی ٹرائل سے پہلے میڈیا پر پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی شناخت پبلک نہیں کی جا سکتی ، ان کے چہرے چھپا لیے جاتے ہیں لیکن یہاں اس "بہت بڑی کارروائی” کو کیش کرانے کے چکر میں تمام اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے والا وہ شخص ہے جسے قانون کا محافظ کہا جاتا ہے ۔ یہ سرکاری عہدے اور وردی میں ایسی سیلف پروموشن ہے جو کئی زندگیاں تباہ کر گئی ہے۔ ابھی ہم ایک ایس ایچ او کی حرکت پر رو رہے تھے تو دوسری جانب صادق آباد میں اسسٹنٹ کمشنر نے نیا چاند چڑھا دیا ۔ سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی جس میں وہ صادق آباد میونسپل کمیٹی کے 4 ملازمین کے ہمراہ صادق آباد کی مختلف سڑکوں پر گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے ٹائر پنکچر کر رہے ہیں ۔ صاحب بہادر سڑک پر کھڑی ایسی گاڑیوں کے ٹائر بھی پنکچر کروا رہے تھے جن میں ڈرائیور موجود تھے ۔ اختیارات کا ایسا گھٹیا استعمال احساس کمتری سے جنم لیتا ہے ۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر خرم پرویز نے ایکشن لیا اور میونسپل کمیٹی کے ملازمین کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا حالانکہ یہ تحقیقات اسسٹنٹ کمشنر سے ہونا چاہیے تھی، میونسپل کمیٹی کے ملازمین تو اے سی کے حکم کے ماتحت تھے لیکن "برق گرتی ہے تو بیچارے مسلماں پر” کے مصداق ایک ملازم کو معطل کر دیا گیا ۔ بیوروکریسی میں طاقت اور اختیار کا یہ غلط استعمال بھی عام ہے کہ ماتحت کے کسی بھی اچھے کام کا کریڈٹ خود لیا جاتا ہے جبکہ اپنے غلط فیصلوں کا ملبہ ماتحت پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ پولیس میں جان خطرے میں ڈال کر جرائم پیشہ افراد سے لڑنے والی اکثریت کانسٹیبلز کی ہے جو ایس ایچ او تک پہنچ کر تمام ہو جاتی ہے لیکن ایسی ہر اہم کارروائی کا کریڈٹ "فلاں افسر کی ہدایت یا کمانڈ میں کی گئی کارروائی ” لکھ کر اعلیٰ عہدے تک منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ مقابلوں کے دوران شہادتیں کانسٹیبلری کے حصہ میں آتی ہیں جبکہ کامیاب کارروائیوں کی شاباش افسران کو ملتی ہیں۔ یہی سول بیوروکریسی میں چلتا ہے ۔ احکامات افسران کے ہوتے ہیں لیکن گلے پڑ جائیں تو معطل ماتحت ملازمین ہوتے ہیں ۔ صادق آباد میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ احکامات ہی نہیں بلکہ اے سی صاحب بہادر خود بھی ٹائر پنکچر کرنے کے مشن پر فیلڈ میں نکلے ہوئے ہیں لیکن معطل اس اہلکار کو کر دیا گیا جو اے سی کے احکامات پر عمل کر رہا تھا ۔ تصور کیجیے کہ یہ کوئی فلم ہوتی تو صاحب بہادر سلطان راہی کے انداز میں دبکا مارتے ” چل بشیرے چک سوا ،تے ٹائر پھاریئے ” اور پھر ٹائر پھاڑنے پر بشیرے کی معطلی سے لطف اندوز ہوتے ۔ بعض افسران کی زندگی بھی سلطان راہی یا مصطفی قریشی کی فلم سے کم نہیں ہے جو پوسٹنگ ملنے کے بعد اختیارات سے تجاوز کر کے اپنی ہی عدالت لگاتے اور اپنے ہی فیصلے سناتے ہیں چاہے یہ فیصلے ملکی قوانین کے تحت جرم ہی کیوں نہ ہوں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر صاحب بہادر ایس ایچ او جاتا ہے تباہ کر کر دیا کے بعد
پڑھیں:
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اقدام، ایک لاکھ ملازمین کی نوکریاں خطرے میں
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی کابینہ کی ریگولرائزیشن کمیٹی کے ذریعے مستقل کیے گئے ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین، جن میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 یا اس سے اوپر کے افسران شامل ہیں، کی ملازمتیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس کے مطابق ان تمام کیسز کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کو بھیجا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے ایک مبینہ فیصلے کی بنیاد پر کیا گیا یہ اقدام مختلف وزارتوں اور اداروں میں طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے ملازمین میں شدید تشویش پیدا کر رہا ہے۔
جب وفاقی وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ احد خان چیمہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس معاملے کی تفصیلات کا علم نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 19 مارچ 2025 کو جاری کردہ اپنے دفتر کے یادداشت نمبر 1/29/20-Lit-III کے ذریعے ہدایت کی ہے کہ ریگولر ملازمین کے کیسز FPSC کو بھیجے جائیں۔ یہ وہ ملازمین ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے، اور جنہیں گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے تحت مستقل کیا گیا تھا اور اب وہ اپنی سروس کا ایک بڑا حصہ مکمل کر چکے ہیں۔
یہ ہدایت سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایک تشریح کی بنیاد پر دی گئی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں زیادہ تر اراکینِ قومی اسمبلی (MNAs) نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
ملازمین نے “دی نیوز” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جاری کردہ یادداشت میں ایک اہم قانونی سقم موجود ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام اداروں پر ماضی کے اثرات کے ساتھ لاگو نہیں ہو سکتا، خصوصاً ان اداروں پر جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے۔
مزید برآں، ہر ادارے کی نوعیت اور صورتحال مختلف ہے، اس لیے اس فیصلے کو “ان ریم” یعنی تمام پر یکساں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ملازمین کا کہنا تھا، “ہمیں ابتدائی طور پر 1996 سے مختلف وزارتوں اور ان کے منسلک اداروں میں کنٹریکٹ پر رکھا گیا، جہاں باقاعدہ تحریری امتحانات، انٹرویوز اور وزارتوں کی سفارشات کے بعد ہمیں بھرتی کیا گیا۔
بعد ازاں وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے کابینہ کمیٹی کے ذریعے ہمیں ریگولرائز کیا گیا۔”انہوں نے مزید کہا، “ہم میں سے بہت سے افراد دو دہائیوں سے زائد عرصہ قوم کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ ہماری ایک بڑی تعداد 45 سے 55 سال کی عمر کے درمیان ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال سرکاری ملازمت کے لیے وقف کر دیے۔
اب ہمیں FPSC کے نئے امتحانات اور انٹرویوز کے لیے بھیجنا عملی طور پر ہماری نوکری ختم کرنے کے مترادف ہے۔
ان ملازمین میں ہزاروں ماہر تکنیکی پیشہ ور شامل ہیں، جن میں کنسلٹنٹ ڈاکٹرز (جنرل سرجن، کارڈیک سرجن، پلاسٹک سرجن، ڈینٹل سرجن، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ، میڈیکل اسپیشلسٹ/فزیشن، گائناکالوجسٹ، پیڈیاٹریشن) اور نرسز شامل ہیں، جنہوں نے کورونا وبا اور دہشتگردی جیسے قومی بحرانوں کے دوران خدمات انجام دیں۔
اس کے علاوہ پروفیسرز، لیکچررز، اساتذہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز اور دیگر افسران بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
ملازمین کا کہنا تھا کہ کابینہ کمیٹی نے ایک لاکھ سے زائد ملازمین کو ریگولرائز کیا تھا، جن میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے افسران شامل ہیں۔
19 مارچ 2025 کی یادداشت کا اطلاق ان تمام ملازمین پر تباہ کن اثر ڈالے گا جنہوں نے نہ صرف مستقل ملازمت حاصل کی بلکہ اپنے سروس کے سال بھی مکمل کر لیے۔ انہوں نے وزیراعظم سے اس معاملے کا نوٹس لینے اور مناسب ہدایات جاری کرنے کی اپیل کی۔
Post Views: 1