بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے عید کے بعد احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی ۔ اس سے پہلے انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں 8فروری کو ان کے کہنے پر پورے ملک میں عوام احتجاج کے لئے جو گھروں سے باہر نکلے اس پر انھوں نے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ احتجاجی تحریک پر بات کرنے سے پہلے مختصر سا ذکر اس شکریہ کا کہ جو بانی پی ٹی آئی نے آٹھ فروری کو پورے ملک میں ان کے کہنے پر احتجاج کرنے پر عوام کا ادا کیا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بانی پی ٹی آئی کو جو لوگ جیل میں ملتے ہیں وہ انھیں کس طرح کی بریفنگ دیتے ہیں لیکن ملنے والوں کو دوش دینے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے اس لئے کہ عمران خان کو بارہ ٹی وی چینل کی سہولت ہے اور ساتھ میں ہر روز دواخبار دیئے جاتے ہیں ۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ خان صاحب جیل سے باہر کی خبروں کے لئے کسی کے محتاج نہیں ہیں بلکہ انھیں اخبار اور ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کی خبریں ملتی رہتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ آٹھ فروری 2025کو پورے ملک میں ایک جلسہ خیبر پختون خوا کے شہر صوابی میں ہوا اور تمام مبصرین کے نزدیک اس جلسے میں گذشتہ جلسوں سے جو اسی شہر میں ہوئے ان سے کم تعداد میں لوگ آئے جبکہ ملتان میں چند درجن لوگ شامل تھے اس کے علاوہ پورے ملک میں کہیں کوئی ایک بندہ بھی احتجاج کے لئے باہر نہیں نکلا تو عید کے بعد وہ کون سا انقلاب آ جائے گا کہ جس کے بعد پورے ملک میں احتجاجی تحریک نہ صرف یہ کہ شروع ہو جائے گی بلکہ اس سے موجودہ حکومت میں تھرتھلی مچ جائے گی ۔ اس سے پہلے بھی اگلی کال ، اب پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے اور ایک سے زائد فائنل کالز دی جا چکی ہیں اور یہ سب کی سب ناکامی سے دور چار ہوئی ہیں اور اسی بات کا ذکر وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے کیاکہ بانی پی ٹی آئی کی احتجاج کی ہر کال ناکام ہوئی ہے تو پھر ان کی مقبولیت کہاں ہے اور اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہیں گے کہ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میںعمران خان کی سب سے زیادہ مقبولیت ہے تو خان صاحب نے سول نا فرمانی کی کال کے تحت جب بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا کہ وہ ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجیں تو اس کا بالکل الٹا اثر ہوا اور جنوری 2025میں گذشتہ سال جنوری 2024کے مقابلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے25%زیادہ ترسیلات زر پاکستان بھجوائیں ۔ ہمیں بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے اور ہم خیال تجزیہ کاروں کے بیانات سے ہٹ کر ہمیں یہ مقبولیت جب بھی زمین پر حقیقت میں نظر آئی تو ہم اسے تسلیم کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگائیں گے لیکن پہلے کہیں ثابت تو ہو کہ مقبولیت کی حقیقت کیا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عید تک گرینڈ الائنس بن جائے گا ۔ اس لئے کہ ہفتہ دس دن کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور اس مہینہ میں سیاسی سرگرمیاں ویسے ہی ماند پڑ جاتی ہیں ویسے بھی ایک الائنس تو پاکستان تحفظ آئین کے نام سے پہلے ہی بنا ہوا ہے جس کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں اور اسی تحفظ آئین کے تحت بار بار اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ تمام اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں تو بات بھی تو انہی سے ہو گی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف اور خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات سے کون سے کام لینا ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو بے اختیار کہہ کر ان سے مذاکرات نہیں کرتے لیکن بحث سے بچنے کے لئے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ موجودہ حکومت واقعی بے اختیار ہے تو 2018میں تحریک انصاف کی حکومت بھی تو بے اختیار ہی تھی اور اس کا ثبوت بھی ہے کہ جب بانی پی ٹی آئی سے سوال کیا گیا کہ آپ چیف الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہیں لیکن اسے آپ نے ہی تو اس منصب پر لگایا تھا تو خان صاحب کا جواب تھا کہ ’’ میں نے اسے جنرل باجوہ کے کہنے پر لگایا تھا ‘‘ ۔ تحریک انصاف کی حکومت اور خود بانی پی ٹی آئی کس حد تک بے اختیار تھے یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی کہ کسی کو علم نہ ہوتا لیکن اس کے باوجود بھی جب 2018کی اسمبلی معرض وجود میں آئی تو حلف کے بعد میاں شہباز شریف نے اور بلاول بھٹو زرداری دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین نے آپ کو میثاق معیشت پر مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن بانی پی ٹی آئی نے انتہائی تکبرانہ انداز میں اس پیشکش کو رد کر دیا تھا ۔اب بھی اگر بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ سیاست دان بے اختیار ہیں اور اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے ترلے منت کرنے کی بجائے موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے انھیں طاقت ور کریں ۔ آج اگر موجودہ حکومت مضبوط ہو گی تو کل کو جب آپ حکومت میں آئیں گے تو یہی مضبوطی آپ کو بھی ورثے میں ملے گی لیکن آپ کا مقصد آئین و قانون کی بالادستی نہیں بلکہ کوشش ہے کہ کسی بھی طرح اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد آپ کے سر پر آ جائے ۔
خیر بات ہو رہی تھی عید کے بعدحکومت کے خلاف تحریک کی تو جے یو آئی والوں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر مولانا کو اس مجوزہ اتحاد کا سربراہ بنایا جائے تو وہ اس میں شامل ہو جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی بھی اس اتحاد میں شامل ہو گی اور کیا وہ بھی مولاناکی سربراہی قبول کر لے گی اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جس طرز کا احتجاج تحریک انصاف کرتی ہے تو کیا الائنس میں شامل دیگر جماعتیں بھی اس طرز کے احتجاج پر راضی ہو جائیں گی ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالیں تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوئی اور پھر یہ تحریک کہ جو عوامی مسائل پر نہیں بلکہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے ہو گی کیا اسے عوامی پذیرائی مل پائے گی ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی اسٹیبلشمنٹ کے احتجاجی تحریک موجودہ حکومت پورے ملک میں تحریک انصاف عید کے بعد بے اختیار یہ ہے کہ ہیں اور سے پہلے کے لئے اور اس ہے اور
پڑھیں:
فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) بیشتر لاطینی امریکی ممالک میں سزائے موت تو ختم کر دی گئی ہے لیکن آج بھی وہاں اس موضوع پر کبھی کبھی عوامی سطح پر بحث کی جاتی ہے۔ اور اکثر اس بحث میں غلط معلومات یا مس انفارمیشن کا عنصر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مثلاﹰ اس حوالے سے یہ دعویٰ سامنے آیا: ''چین نے ترقی کے حصول کے لیے پیرو اور لاطینی امریکی ممالک کو سزائے موت (نافذ کرنے) کی تجویز دی۔
‘‘لیکن کیا ایسا واقعی ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس پر تحقیق کی۔
دعویٰ کہاں سامنے آیا؟یہ دعویٰ ایک فیس بک پوسٹ میں کیا گیا، جسے تقریباﹰ 35,000 صارفین نے شیئر کیا۔
اس پوسٹ میں کہا گیا تھا، ''سابق چینی وزیر اعظم ون جیاباؤ نے کولمبیا، وینیزویلا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا سمیت لاطینی امریکی اور وسطی امریکی ممالک کو وہاں سلامتی سے متعلق بحران کے حل اور اس سے بھی بڑھ کر ترقی کے حصول کے لیے سزائے موت کے نفاذ کی تجویز دی ہے۔
(جاری ہے)
‘‘اس پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ون جیاباؤ نے بدعنوان سیاستدانوں کو سزائے موت دینے اور ان کی تنخواہوں میں کمی کی حمایت کی۔
فیس بک کے علاوہ یہ پوسٹس ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی گردش کرتی رہیں۔
فیکٹ چیک ٹیم کی تحقیق کا نتیجہڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم کی جانب سے تحقیق کے بعد اس دعوے کے مستند ہونے کے کوئی ثبوت و شواہد نہیں ملے۔
تو اس طرح یہ دعویٰ غیر مصدقہ ہی رہا۔تحقیق کے دوران ایسے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوں کہ ون جیاباؤ نے کبھی بھی کوئی ایسا بیان دیا ہو جس میں انہوں نے سزائے موت کو ترقی سے منسلک کیا ہو۔ اس حوالے سے ہسپانوی اور چینی دونوں زبانوں میں متعلقہ کی ورڈز کی سرچ بھی کی گئی، لیکن اس دعوے کو ثابت کرتی کوئی مستند خبر یا سرکاری ریکارڈز نہیں ملے۔
اور چینی وزارت خارجہ کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی یہ بیان موجود نہیں ہے۔چینی میڈیا کے مطابق ون جیاباؤ نے سزائے موت کے موضوع پر 14 مارچ 2005ء کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کی تھی۔ ایک جرمن صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا: ''موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر چین سزائے موت ختم نہیں کر سکتا لیکن ایک نظام کے تحت یہ یقینی بنایا جائے گا کہ سزائے موت منصفانہ طریقے سے دی جائے اور اس میں احتیاط برتی جائے۔
‘‘اس موضوع پر ون جیاباؤ کا عوامی سطح پر دیا گیا یہ واحد بیان ہے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بیان میں وہ صرف چین کے حوالے سے بات کر رہے تھے اور انہوں نے لاطینی امریکی ممالک کا کوئی ذکر نہیں کیا، نہ ہی کسی اور ملک کو کوئی تجویز دی۔
پھر بھی دیگر ممالک کو سزائے موت کی تجویز دینے کا بیان ان سے کئی برسوں سے منسلک کیا جاتا رہا ہے۔
اسے 2015ء سے کئی ویب سائٹس نے شائع کیا ہے، تاہم قابل اعتبار ذرائع کا حوالہ دیے بغیر۔تو یہاں یہ بات بھی اہم ہو جاتی ہے کہ ون جیاباؤ صرف 2012ء تک ہی چین کے وزیر اعظم رہے تھے۔ ایسے میں اس بات کا امکان بہت کم ہے انہوں نے 2015ء یا اس کے بعد ایسا کوئی بیان دیا ہو گا۔
کیا تصویر میں واقعی ون جیاباؤ ہی ہیں؟اس پوسٹ میں مبینہ طور پر ون جیاباؤ کی تصویر بھی لگائی گئی ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تصویر میں موجود شخص ون جیاباؤ ہی ہیں۔
اس تصویر میں وہ اپنی دیگر تصویروں سے کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں۔ سال 2012 سے پہلے لی گئی تصویروں میں ون جیاباؤ کے بال کم تھے۔ یہ کمی بالخصوص ان کی پیشانی کے پاس یعنی ہیئر لائن میں واضح تھی۔ تاہم اس تصویر میں ان کی ہیئر لائن قدرے گھنی نظر آتی ہے۔
اسی طرح ان کی دیگر تصاویر کے مقابلے میں اس فوٹو میں ان کی ناک، کان اور ہونٹ بھی کچھ مختلف لگ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، کہا جاتا ہے کہ کئی تصاویر میں ون جیاباؤ کے چہرے پر کچھ داغ نمایاں رہے ہیں، لیکن اس تصویر میں ایسا نہیں ہے۔
چناچہ ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس فیس بک پوسٹ میں استعمال کی گئی تصویر کی ریروس امیج سرچ کی، لیکن اس میں موجود شخص کی شناخت کے حوالے سے کوئی حتمی ثبوت نہیں مل سکا۔
(مونیر قائدی، ہواوہ سمیلا محمد، ہوان ہو) م ا / ر ب