اوچ شریف، دنیا کے سب سے بڑے قرآن مجید کی زیارت آج ہو گی
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
لاہور:
اوچ شریف میں دنیا کے سب سے بڑے قرآن مجید کی زیارت کا اہتمام کیا گیا ہے، جو آج گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج اور بوائز ڈگری کالج میں کرائی جائے گی۔
قرآن مجید کی اس منفرد زیارت کا آغاز ایم این اے مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی اور ایم پی اے مخدوم عامر علی شاہ کریں گے۔
یہ قرآن مجید 41 فٹ لمبائی اور 9 فٹ چوڑائی پر مشتمل ہے، جو نہ صرف سائز میں دنیا کا سب سے بڑا ہے، بلکہ یہ کل 31 صفحات پر مشتمل ہے اور 425 دنوں میں ہاتھ سے لکھا گیا۔
فیصل آباد کے پیرامتیاز حیدر شاہ نورانی مجددی نے اس قرآن مجید کو قلمی طور پر تحریر کیا ہے۔
قرآن مجید کی آیات کا رنگ بلیک ہے، جبکہ ترجمے کا رنگ سرخ اور رموز اوقاف کا رنگ سبز ہے۔ حاشیہ کا رنگ بیلو (پیلا) ہے، جو اس قرآن کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
یہ عظیم الشان زیارت پریس کلب اور الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن کی جانب سے تین روزہ پروگرام کے طور پر کرائی جا رہی ہے، جس میں عوام کی بھرپور شرکت متوقع ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قرآن مجید کی کا رنگ
پڑھیں:
پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟