حالیہ سالوں میں عالمی سیاست دو بحرانوں کی اسیر ہے، دونوں ہی بحران جنگی ہیں اور دونوں ہی بائیڈن حکومت کی دین ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی بربریت رکوا چکے اور اب روس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔ یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن کے متعلق 2016 سے لبرل امریکی میڈیا نے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا تھا کہ وہ ایک مسخرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ مغرب سے باہر بھی دنیا کے قریباً ہر ملک میں گنتی کے چند لبرل ضرور پائے جاتے ہیں، سو ہمارے ہاں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، اور بیک ظرف و زمان تب ہی دستیاب ہوتے ہیں جب کوئی قاری صاحب بھی وہی شوق پورا کرلیں جس شوق کی تکمیل کو لبرلزم نے مغرب میں قانونی تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ یا پھر تب جب کوئی لبرل کسی آفت کا اس قدر شکار ہوجائے کہ اس آفت کو ٹالنے کے لیے موم بتیوں کی روشنی ہی واحد علاج قرار پائے۔ انہی مقامی لبرلز نے بھی اپنے اپنے ممالک میں ٹرمپ کو مسخرے کے طور پر ہی پینٹ کرنا شروع کردیا۔ یقین جانیے کچھ عرصے کے لیے تو خود ہم بھی اس پر یقین کر بیٹھے تھے۔
شاید جدید سیاسیات میں یہ چیز مسخرے پن کا ہی درجہ رکھتی ہوگی کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں کسی ملک پر جنگ مسلط نہ کی۔ اس کے برخلاف اس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار کی اور دوحہ مذاکرات کو حتمی نتیجے تک پہنچایا۔ یہ مسخرہ روایتی سیاستدان نہیں، سو نتیجہ دیکھیے کہ امریکا کی سیاسی روایت صدیوں سے اس اصول پر کھڑی تھی کہ امریکا دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتا۔ مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو توڑا اور دوحہ میں مذاکرات کی وہ میز سجا لی جس کی ایک جانب ایسے چہرے بیٹھے تھے جو گوانتانامو بے میں امریکا کے ہی قیدی رہے تھے۔ یہ اس بولڈ قدم کا ہی نتیجہ ہے کہ افغان جنگ کو ختم ہوئے 4 برس ہوچکے۔
اپنے دوسرے دور میں بھی مسخرہ پہلے دور والے چلن پر ہے، وہ نہایت طاقتور یہودی لابی کو لبھانے کے لیے زبان سے جو بھی کہہ رہا ہے مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر بمباری رک چکی اور اب سعودی عرب سمیت 4 عرب ممالک اس کی تعمیر نو کا آغاز کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اہل غزہ کہیں نہیں جا رہے، وہ غزہ میں ہیں اور غزہ میں ہی رہیں گے۔
یوکرین کے حوالے سے مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ نے صرف ایک ہفتے میں ہی اتنے بولڈ قدم اٹھا لیے ہیں کہ یورپ پہلے سکتے، پھر ماتم اور اب گریے کے مرحلے میں ہے۔ یہ ہم محض کہہ نہیں رہے، بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے اس کانفرنس کے صدر کرسٹوف ہیوسگن باقاعدہ رو پڑے۔ وہ شدت غم سے اپنی تقریر جاری نہ رکھ سکے، ڈائس سے اترے اور سیدھا جاکر پہلی صف میں بیٹھی کسی خاتون کے گلے لگ کر اپنا دکھ مٹانے کی کوشش فرما لی۔ گورا مینٹلی کتنا سٹرانگ ہوتا ہے، اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ شدید صدمے میں بھی کرسٹوف کو یہ اچھی طرح یاد رہا کہ غم مٹانے کے لیے موزوں سینہ کونسا ہوتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران جو چند بڑے اعلانات کیے ہیں ان میں سرفہرست یہی ہے کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بنے گا۔ دوسرا یہ کہ امریکا یوکرین کی سلامتی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں، گویا اس کی سلامتی ہمارا درد سر نہیں۔ تیسرا یہ کہ اگر کسی یورپین ملک نے امن فوج کے نام پر اپنی فورس یوکرین بھیجی تو اس کا ذمہ دار وہ ملک خود ہوگا۔ نیٹو یا امریکا اس کے دفاع یا ریسکیو کے لیے نہیں آئےگا۔ چوتھی بات یہ کہ یورپ کو چین یا روس سے کوئی خطرہ نہیں، اسے خطرہ اپنے ہی چھچورپنوں سے ہے۔ مثلاً یہ چھچور پن کہ رومانیہ کے صدارتی انتخابات اس بنیاد پر منسوخ کردیے گئے کہ ان انتخابات میں روس نے ٹک ٹاک کے ذریعے مداخلت کرکے اپنے پسندیدہ امیدوار جیرجسکو کی فتح کی راہ ہموار کی ہے۔ اس حوالے سے نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاف صاف کہا ’اگر سوشل میڈیا کی چند ہزار پوسٹیں آپ کا انتخابی عمل متاثر کردیتی ہیں تو پھر آپ کے ہاں جمہوریت نہیں کچھ اور چل رہا ہے، ہم سوشل میڈیا پر پابندی قبول نہیں کریں گے۔‘
اس پورے معاملے میں سب سے اہم ڈیڑھ گھنٹے کی وہ ٹیلیفونک گفتگو ہے جو امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ عرف مسخرے اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن عرف ڈکٹیٹر کے بیچ ہوئی۔ اس کال کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ’گریٹ کال‘ قرار دیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بقول ٹرمپ پیوٹن سے یوکرین، مشرق وسطیٰ، ایران اور ڈالر کے مستقبل سمیت ہمہ جہت گفتگو ہوئی اور طے پایا کہ امریکا اور روس کے مابین فوری طور پر باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے چاہییں۔ پیش رفت کی رفتار اتنی تیز رہی کہ روس اور امریکا کے مابین پہلے رابطے کے پانچویں روز دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ گئے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو مذاکرات کے پہلے دن کا سورج ریاض میں غروب ہوچکا۔ بالعموم پہلا دن ہی یہ طے کردیتا ہے کہ خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ سو پہلے دن کی گفتگو کے بعد دونوں وفود نے میڈیا سے الگ الگ بات چیت کی ہے۔ روسی وفد کے سربراہ وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے
’ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ امریکی وفد ہمارے مؤقف کا پوری طرح اور درست شعور رکھتا ہے۔ بات چیت بہت مثبت اور تعمیری رہی‘۔
اگرچہ پروٹوکول کے مطابق امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مارکو روبیو کررہے ہیں، مگر سب جانتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے کلیدی رول نمائندہ خصوصی سٹیو ویٹکوف کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے پہلے روز سے متعلق عالمی میڈیا نے سٹیو ویٹکوف کی ہی رائے کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ سٹیو نے کہا ’گفتگو کے بعد ہماری ٹیم نے آپسی گفتگو میں ایک دوسرے سے کہا، اتنے اچھے نتائج کی تو ہم نے توقع بھی نہیں کی تھی، بات چیت بہت ہی تعمیری رہی اور اس میں شامل ہر شخص کی یہ سنجیدہ کوشش رہی کہ مسائل کا کوئی پائیدار حل تلاش کیا جائے، یہ بہت ہی سولڈ گفتگو تھی‘۔
اس گفتگو کے حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ضیا دور والے جنیوا مذاکرات کی طرح کی گفتگو نہیں ہے۔ 80 کی دہائی والے جنیوا مذاکرات کا واحد ایجنڈا افغان جنگ تھی، اور ساری بات چیت اسی سے متعلق تھی۔ جبکہ روس اور امریکا کی حالیہ بات چیت کا ایجنڈا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی رائے کے مطابق طے پایا ہے۔ صدر پیوٹن کئی ماہ سے اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں یہ بات کرتے آرہے تھے کہ ایشو یوکرین نہیں، ایشو کچھ اور عالمی سنگین مسائل ہیں جن کا نتیجہ یوکرین کی جنگ ہے۔ اگر وہ مسائل حل کر لیے جائیں تو یوکرین کی جنگ بھی ختم ہوجائے گی اور آئندہ کے لیے بھی جنگ جیسی صورتحال پیدا ہونے کا امکان باقی نہیں رہے گا۔ پیوٹن کی اس رائے سے صدر ٹرمپ متفق ہیں، چنانچہ دونوں ممالک کے مابین بات چیت ہمہ جہت ہی ہے۔
اس بات چیت کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ کو اس سے باہر رکھا ہے، جس پر یورپ کا صدمے سے برا حال ہے۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بالعموم اور سوویت زوال کے بعد سے بالخصوص خود کو دنیا کے ’مالکان‘ سمجھتے آئے ہیں۔ جب بھی کوئی عالمی بحران کھڑا ہوا امریکی صدر نے ان ممالک کے اس وقت کے سربراہوں کو بطور مالکان ساتھ ہی رکھا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو بھی توڑ دیا۔ برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر پر واضح کردیا گیا ہے کہ دو بڑوں کی بات چیت میں بچوں کا کوئی کام نہیں۔
سوال تو بنتا ہے کہ آخر ٹرمپ نے یورپین لیڈروں کو اس بڑی عالمی شرمساری سے کیوں دوچار کیا؟ اگر آپ لبرل ہیں تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیجیے کہ مسخرے نے تو یہی کرنا تھا، اور اگر آپ لبرل یعنی مغربی اقدار کے کاپی پیسٹر نہیں ہیں تو پھر جواب یہ ہے یورپ کی موجودہ قیادت گلوبلسٹ لبرلز پر مشتمل ہے۔ یو ایس ایڈ اور مختلف طرح کے ادارے یورپین ممالک میں یہ بات یقینی بناتے آئے ہیں کہ کوئی اچھوت یعنی نان لبرل اقتدار میں نہ آنے پائے، جس کی تازہ مثال رومانیہ کا صدارتی الیکشن ہے۔ اور اگلی مثال جرمنی کا الیکشن بننے جارہا تھا، اس معاملے پر حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران نائب امریکی صدر جے ڈی وینس پورے یورپ کے کانوں سے دھواں نکال چکے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رومانیہ میں بھی جلد انتخابی عمل مکمل ہوگا اور جرمنی میں بھی آئی ایف ڈے پر پابندی بس حسرت بن کر رہ جائے گی۔
اگر آپ نے یورپین پارلیمنٹ کے گزشتہ برس والے انتخابات پر غور کیا ہو تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان انتخابات میں یورپ بھر سے قدامت پسند بڑی تعداد میں جیتے، مگر یورپین یونین کی تشکیل دیکھیے کہ اس کا سربراہ ہی نہیں بلکہ باقی کابینہ بھی غیرمنتخب لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جنہیں پیار سے ’برسلز کے بیوروکریٹس‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں تندور گرم پا کر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی دو چار نان سیک لیے۔ جے شنکر نے کہا ’یہ غیر منتخب لوگ جو کبھی انتخابات میں کھڑے نہیں ہوئے، خود ہی اپنا تقرر کرکے جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور باقی دنیا کو جمہوریت کے بھاشن دیتے ہیں، ان کے سفیر ہمارے ممالک میں جو حرکتیں کرتے ہیں وہی حرکتیں ان کے ممالک میں بھارتی سفیر کرے تو یہ قبول کریں گے؟‘
ان حالات میں یورپ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں، یا تو امریکا پر انحصار ختم کرکے اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں اور آخری دموں پر کھڑے لبرلزم کو بچا لیں یا پھر انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے والی حرکتیں بند کرکے ووٹ کوعزت دیں۔ اگر انہوں نے یہ دوسری آپشن چن لی تو یورپ میں نیشنلسٹ حکومتوں کا سرکل پورا ہوجائےگا، اور یہی وہ موقع ہوگا جب ٹرمپ یورپ کو واپس قریب کرلیں گے۔ مگر بس قریب ہی، یورپ کو پرانی حیثیت وہ کبھی نہیں دیں گے، کیونکہ اس یورپ کی تو پوری قیادت ہی امریکا کو پالنی پڑتی ہے جس پر اربوں ڈالرز صرف ہوجاتے ہیں اور امریکا اس وقت 34 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کے پاس تیر بہدف مسخرہ پن یہی ہے کہ خرچوں کے بوجھ سے خود کو آزاد کیا جائے۔ ٹرمپ کے نزدیک امریکا کی بڑی فضول خرچیوں میں سے ایک یورپین قیادت کی پرورش ہے۔
یہ تو ہم سب دیکھ ہی چکے کہ ٹرمپ ہر طرح کی فضول خرچیاں بند کرنے کے موڈ میں ہیں، اس ضمن میں یو ایس ایڈ کا حشر آپ کے سامنے ہی ہے۔ سو بے جا نہ ہوگا کہ جاتے جاتے ہم مقامی لبرلز کو بھی ایک مخلصانہ مشورہ دے دیں۔ پلیز کوئی باعزت روزگار ڈھونڈ لیجیے۔ این جی اوز والا دور تو تمام ہوا۔ کرسٹوف ہیوسگن کی طرح رونے کو جی کرے تو ہمارا کاندھا حاضر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا این جی اوز جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ عالمی سیاست میونخ سیکیورٹی کانفرنس وی نیوز یو ایس ایڈ یورپ یوکرین جنگ میونخ سیکیورٹی کانفرنس ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں امریکی صدر امریکا کی ممالک میں کہ امریکا حوالے سے ہیں اور میں بھی بات چیت یورپ کو کے بعد میں ہی ہیں تو کے لیے میں یہ
پڑھیں:
ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )امریکہ کے وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کی جانب سے مبینہ طور پر ایک گروپ چیٹ میں یمن پرحملے کی تفصیلات شیئر کیے جانے کے بعد انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی ان کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں نجی چیٹ گروپ میں امریکی وزیر دفاع کی اہلیہ، بھائی اور ان کے ذاتی وکیل بھی شامل تھے.(جاری ہے)
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں ہر کوئی ان سے خوش ہے امریکی جریدے کے مطابق وائٹ ہاﺅس حکام نے اس واقعے کی سنگینی کو کم کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے تاہم صدرٹرمپ نے اس کی تردید نہیں کی انہوںنے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں وزیر دفاع پر کافی بھروسہ ہے انہوں نے کہا کہ یہ وہی پرانا کیس ہے جسے میڈیا دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. ہیگستھ کی سگنل چیٹ کی خبر سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے شائع کی تھی تاحال ہیگسٹھ نے ان خبروں پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جبکہ وائٹ ہاﺅس کی جانب سے نیویارک ٹائمز کو بھیجے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس چیٹ میں کوئی خفیہ معلومات شیئر نہیں کی گئیں جبکہ نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ”ڈیفنس ٹیم ہڈل“ نامی یہ نجی گروپ ہیگستھ نے خود بنایا تھا اور15 مارچ کو چیٹ گروپ میں بھیجے گئے پیغام میں حوثی جنگجوﺅں پر حملے میں حصہ لینے والے جنگی جہازوں کی تفصیلات اور شیڈول تک شامل تھا. امریکی وزیردفاع ہیگستھ کی بیوی جینیفر فاکس نیوز کی سابق پروڈیوسر ہیں اور ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اس سے قبل ہیگستھ کو اپنی بیوی کو غیر ملکی راہنماﺅں کے ساتھ حساس نوعیت کی ملاقاتوں میں اپنے ہمراہ لے جانے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ہیگستھ کے بھائی اور ان کے ذاتی وکیل ٹم پارلا وزارتِ دفاع کے عہدیدار ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ ان تینوں افراد کو یمن میں امریکی حملے کی پیشگی اطلاع کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اعلیٰ امریکی عہدیداروں کو ”سگنل“ چیٹ گروپ میں حساس معلومات شیئر کرنے پر تنقید کا سامنا ہے اس سے قبل گذشتہ ماہ بھی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایک صحافی کو سگنل ایپ کے ایک ایسے گروپ چیٹ میں شامل کر لیا تھا جہاں اعلیٰ امریکی حکام حوثی جنگجوﺅں پر حملے کے منصوبے کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے تاہم یہ گروپ امریکی مشیربرائے قومی سلامتی مائیکل والٹزکی جانب سے بنایا گیا تھا”سی بی ایس“ نیوز نے بھی اپنے ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ اس معاملے میں ہیگستھ نے نجی چیٹ گروپ میں یمن میں جاری فضائی حملوں کے بارے میں تفصیلات شیئر کی تھیں گذشتہ ماہ” دی ایٹلانٹک “میگزین کے چیف ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں سگنل میسیجنگ ایپ کے ایک ایسے گروپ میں شامل کیا گیا تھا جس میں قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز اور نائب صدر جے ڈی ونس نامی اکاﺅنٹ بھی شامل تھے گولڈبرگ کے مطابق انہوں نے حملوں سے متعلق ایسے خفیہ فوجی منصوبے دیکھے ہیں جن میں اسلحہ پیکجز، اہداف اور حملے کے اوقات بھی درج تھے اور یہ بات چیت بمباری ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہو رہی تھی. گولڈ برگ کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کی قسمت اچھی تھی کہ ان کے نمبر کو گروپ میں شامل کیا گیا تھا ان کے مطابق کم از کم یہ کسی ایسے شخص کا نمبر نہیں تھا جو حوثیوں کا حامی تھا کیونکہ اس چیٹ گروپ میں ایسی معلومات شیئر کی جا رہی تھیں جس کے نتیجے میں اس آپریشن میں شامل افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا.