حماس نے تمام اسرائیلی قیدیوں کو ایک ساتھ رہا کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کردی
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
تل ابیب ،واشنگٹن(صباح نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مستقل جنگ بندی کے بدلے ایک ساتھ اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرنے کی پیشکش کر دی۔عرب میڈیا کے مطابق حماس نے جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں تمام اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کا ایک ساتھ تبادلہ کرنے کی پیشکش کی ہے۔حماس نے تمام یرغمالیوں کی ایک ساتھ رہائی کے بدلے اسرائیلی افواج کے غزہ سے مکمل انخلا کا بھی مطالبہ کر دیا۔خبرایجنسی کے مطابق حماس آج جمعرات کو 4 اسرائیلی یرغمالیوں کی نعشیں بھی اسرائیلی حکام کے حوالے کرے گا، ہفتے کے روز مزید 6اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جائیں گے۔ حماس ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ اسرائیل کے بقیہ تمام زندہ قیدیوں اور 8کی لاشیں ایک ساتھ واپس کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ غزہ میں مستقل جنگ بندی ہو اور اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائے۔حماس نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کو غیر مسلح کرنے کی باتیں ناقابل قبول ہیں۔ یہ پیشکش امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل سے اغوا کیے گئے قیدیوں کی مرحلہ وار ہفتہ وار رہائی کے خلاف آواز اٹھانے اور غزہ میں باقی رہنے والے افراد کے اہل خانہ کی جانب سے اپنے تمام پیاروں کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔فلسطینی گروپ نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ وہ باقی 6 زندہ قیدیوں کو ہفتے کے روز رہا کرے گا، جنہیں پہلے مرحلے میں رہا کیا جانا تھا، جب کہ اسرائیل کے وزیر خارجہ گیدون سار کا کہنا ہے کہ معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات اس ہفتے ہوں گے۔دوسری جانب لبنان میں اسرائیلی فوج کے جنوبی دیہات اور قصبوں سے جزوی طور پر نکلنے کے بعد امدادی کارکنوں نے 23 افراد کی لاشیں برآمد کی ہیں۔ادھر خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حماس اور اسرائیل نے غزہ سے 6 یرغمالیوں کی رہائی اور 4 قیدیوں کی لاشوں کی واپسی کے معاہدے کا اعلان کیا ہے، جس میں فلسطینی گروپ کے مطابق 2 نوجوان لڑکوں کی باقیات بھی شامل ہیں۔یرغمالی شیری بیبس اور ان کے بیٹوں ایریل اور کفیر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اس خبر سے پریشان ہیں، اور انہیں ابھی تک اپنے پیاروں کی ہلاکت کی کوئی ’سرکاری تصدیق‘ نہیں ملی ہے۔گزشتہ ماہ سے نافذ العمل غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے تحت 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جانا تھا اور اب تک 1100 سے زائد فلسطینی قیدیوں کے بدلے 19 افراد کو رہا کیا جا چکا ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ باقی 14 میں سے 8 ہلاک ہو چکے ہیں۔چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارہ سیاسی تجارت میں ’سودے بازی‘ کا ذریعہ نہیں ہے۔وانگ نے کثیرالجہتی امور پر 15 رکنی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی، کیوں کہ چین ماہ فروری کے لیے اس ادارے کا صدر ہے۔وانگ نے کہا کہ غزہ کے دو ریاستی حل کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارہ فلسطینی عوام کا وطن ہیں، نہ کہ سیاسی تجارت میں سودے بازی کا ذریعہ، غزہ پر فلسطینیوں کی حکومت پر عمل کیا جانا چاہیے۔وانگ نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ توجہ یوکرین پر دی جا رہی ہے، لیکن غزہ جیسے دیگر معاملات کو ایک طرف نہیں دھکیلا جانا چاہیے، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج ہماری دنیا میں صرف یوکرین کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے بحران سمیت بہت سے دیگر ہاٹ اسپاٹ ہیں، جن پر بین الاقوامی برادری کی توجہ کی بھی ضرورت ہے، اور ان مسائل کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی جانب سے ایک ساتھ کے مطابق کہا کہ کہ غزہ
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم
اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔
معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔
لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔
اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔
صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔