Express News:
2025-04-22@06:08:50 GMT

اینٹی بائیوٹک مزاحمت، ایک سنگین بحران

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیوٹک مزاحمت کو انسانیت کے لیے سنگین عالمی مسائل میں شمار کیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت ( اے، ایم، آر ) سالانہ تیرہ لاکھ اموات کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں طبی پیچیدگیوں کے علاوہ یہ مسئلہ نظامِ صحت اور معیشت کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے۔ امریکی سوسائٹی برائے مائیکروبیالوجی نے پاکستان میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت کو قرار دیا ہے۔

اینٹی بائیوٹک سے کیا مراد ہے؟

اینٹی بائیوٹکس ادویہ کو الیگزنڈر فلیمنگ نے 1928 ء میں دریافت کیا جو بیکٹیریا سے لاحق امراض میں مستعمل ہیں۔ ایک خاص کیمیائی عمل سے یہ جسم میں موجود بیکٹیریا کی نمو کو روکتی یا مکمل طور پر ختم کر دیتی ہیں۔ سائنسی دنیا میں اینٹی بائیوٹکس کو مختلف درجوں یا جنریشنز میں تقسیم کیا گیا ہے جو مخصوص انفیکشن میں موثر ثٓابت ہوتی ہیں۔

اینٹی بائیوٹک مزاحمت کیسے پیدا ہوتی ہے؟

بیکٹیریا اور انسانی خلیات میں ساخت کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹک جسم میں داخل ہوکر خون کے ذریعے مختلف حصوں میں پہنچتی ہیں اور انفیکشن پھیلانے والے بیکٹیریا کی نشونما کو روکتی ہیں۔ لیکن اگر ان اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری یا بے قاعدہ استعمال کیا جائے تو بیکٹیریا میوٹیشن کے ذریعے خاص جینیاتی تبدیلی کرکے ادویات کے خلاف اپنا دفاعی نظام مضبوط کرلیتے ہیں۔ نتیجتاً بیکٹیریا اس خاص اینٹی بائیوٹک سے مزاحم ہوجاتے ہیں اور ادویہ کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔

اینٹی بائیوٹک مزاحمت خطرناک کیوں؟

جب بیکٹیریا ایک مخصوص جنریشن کی اینٹی بائیوٹک سے مزاحم ہوجائیں تو وہ دوا بے فائدہ ہوجاتی ہے اور علاج کا عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں مرض کو اگلی جنریشن کی اینٹی بائیوٹک تجویز کی جاتی ہے جس کی مزاحمت کے بعد مزید اگلی جنریشن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ماہرین کے مطابق 2050ء تک بنی نوع انسان تمام دستیاب اینٹی بائیوٹکس سے مزاحم ہو جائے گا۔ یہ امر نہ صرف طبی لحاظ سے ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ عالمگیر سطح پر معاشی لحاظ سے بھی ایک سنجیدہ پہلو ہے۔

موسمی بیماریوں میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال درست؟

موسم اور آب و ہوا کی تبدیلوں کے باعث کھانسی، نزلہ اور زکام جیسے امراض بہت عام ہیں۔ ان امراض کو طبی دنیا میں مکمل بیماری کے طور پر نہیں لیا جاتا۔ یہ عموماً وائرل ہوتے ہیں اور جسم کے قدرتی مدافعتی نظام کی بدولت چند دن میں خود ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ان معمولی موسمی تبدیلیوں میں ہمارے ہاں پہلی یا دوسری کو چھوڑ کر تیسری یا چوتھی جنریشن کی اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ وائرل بخار سے اینٹی بائیوٹک ادویہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اس بے قاعدہ اور غیر ضروری استعمال سے ہمارے مدافعتی نظام کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر کسی مریض کو شدید وائرل انفیکشن ہو تو وہ تب ہی ڈاکٹر یا فارماسسٹ کے مشورے سے ویکسین لگوا سکتا ہے۔

کیا ہر فرد اینٹی بائیوٹک لے سکتا ہے؟

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ہر انسانی جسم کا ایک خاص طبی مزاج اور بیکٹیریل فلورہ ہوتا ہے۔ لازمی نہیں کہ کوئی اینٹی بائیوٹک اگر کسی ایک فرد کے لیے درست ہے تو دوسرے کے لیے بھی فائدہ مند ہو گی۔ اس معاملے میں سب سے اہم اور بنیادی مرحلہ مرض کی مناسب تشخیص کا ہے۔ انفیکشن اور بیکٹیریا کی نشاندہی کے بعد ہی خاص جنریشن کی دوا استعمال کی جائے۔ ہر اینٹی بائیوٹک کا ایک مکمل کورس ہوتا ہے جس کی مقدار اور مدت انفیکشن کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ کورس عموماً تین، پانچ یا سات دن تک ہوسکتا ہے۔ بعض مرتبہ ایک ہی خوراک سے مرض کی علامات رفع ہوجاتی ہیں اور مزید دوائی لینے کی حاجت نہیں سمجھی جاتی۔ دراصل، ایک یا دو خوراک سے وقتی طور پر آرام تو مل جاتا ہے لیکن کچھ جرثومے رہ جاتے ہیں جو کورس مکمل نہ کرنے کی صورت میں دوبارہ پنپتے اور مزاحم ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی صورت میں نکلتا ہے اور انسانی قوتِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجوہ

نیشل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد سے زائد اینٹی بائیوٹک بغیر ضرورت کے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جدید طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث مرض کی مناسب اور بروقت تشخیص نہیں ہو پاتی اور جراثیم کش ادویات کو بے قاعدہ طریقے سے لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صاف پانی کی عدم دستیابی، نکاسی کا نامناسب انتظام اور مویشیوں میں ادویات کا بے جا استعمال بڑی وجوہ ہیں۔

قوانین کیا کہتے ہیں؟

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اینٹی بائیوٹک کنٹرول پروگرام کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ( DRAP ) نے 2021 ء میں جراثیم کش ادویات کے غیر ضروری استعمال اور فروخت سے متعلق قوانین جاری کیے۔ مزید برآں اتھارٹی نے تمام اینٹی بائیوٹکس کی شیڈیول ڈی میں درجہ بندی کی ہے جس کے مطابق یہ ادویات مستند ڈاکٹر کی پرچی کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتی اور ہر میڈیکل سٹور پر ان کی خرید و فروخت کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔

اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی عالمگیر سنگینی کے تحت ہر سال 18 سے 24 نومبر تک ہفتہْ آگاہی منایا جاتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عام عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ مرض کی درست اور بروقت تشخیص کے بعد ہی ادویات کا استعمال کیا جائے۔ ہر فرد اپنے جسم کے مزاج اور ساخت کے مطابق ہی تجویز کردہ اینٹی بائیوٹک مقررہ مقدار میں استعمال کرے۔ اس کے علاوہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنا بھی بیماریوں سے دور رکھتا ہے اور ہم ادویات کے غیر ضروری استعمال سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

(مضمون نگار پنجاب یونیورسٹی ، لاہور کے کالج آف فارمیسی میں مدرس ہیں)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: استعمال کی ادویات کے جنریشن کی کے مطابق کیا جائے مزاحم ہو جاتا ہے ہیں اور کے لیے مرض کی

پڑھیں:

کراچی حج آپریٹرز کی حج بحران کے معاملے پر آرمی چیف، وزیراعظم اور صدر سے مداخلت کی اپیل

کراچی : حج آپریٹرز نے 67 ہزارعازمین کو کوٹے کے تحت اجازت دینے کا مطالبہ کردیا۔ حج آرگنائزر ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین زعیم اختر صدیقی نے وزیراعظم اورآرمی چیف سے مداخلت کی اپیل کر دی۔
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حج ٹور آپریٹر زعیم اختر صدیقی نے بتایا کہ تمام درخواست گزاروں کی ایڈوانس بکنگ مکمل ہو چکی ہے، اور حج آرگنائزر نے وقت پر تمام واجبات کی ادائیگی کر کے انتظامات مکمل کر لیے تھے، تاہم عین وقت پر ہزاروں درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ یہ بحران ٹور آپریٹرز کی غلطی سے پیدا ہوا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کا کل حج کوٹہ 1,79,210 ہے جس کا 50 فیصد حصہ پرائیویٹ سیکٹر کو دیا گیا تھا، مگر تاحال صرف 23 ہزار افراد کی درخواستیں ہی کنفرم ہو سکی ہیں، جب کہ 67 ہزار افراد اب تک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ ان میں سے 13 ہزار ایسے حجاج ہیں جن کا اندراج سعودی نسک سسٹم میں سرے سے ہوا ہی نہیں۔
زعیم اختر صدیقی نے کہا کہ سعودی حکومت نے 23 جون 2024 کو حج سے فوراً بعد آئندہ سال کے حج کی پالیسی جاری کی تھی، جس پر عملدرآمد میں پاکستانی اداروں کو کئی مہینے لگ گئے۔ پاکستانی وزارتِ مذہبی امور نے 27 نومبر 2024 کو حج پالیسی جاری کی اور پرائیویٹ حج اسکیم کی درخواستوں کی وصولی 14 جنوری 2025 کو شروع کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سعودی ٹائم لائن کے مطابق 21 فروری تک تمام کارروائی مکمل ہونی چاہیے تھی، مگر پاکستانی نظام کی سست روی، SECP اور اسٹیٹ بینک سے منظوری میں تاخیر اور ریمیٹنس کی محدود یومیہ حد (3 لاکھ ڈالر) کے باعث رقوم کی بروقت ترسیل ممکن نہ ہو سکی۔
حج آرگنائزرز کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 500 افراد پر مشتمل کلسٹر کی حد تھی، جبکہ اس سال سعودی حکومت نے اچانک 2000 افراد والے کلسٹر نافذ کر دیے، جس پر عمل تو کیا گیا مگر اس میں وقت لگا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس سال حجاج کو پرانے سسٹم کے تحت حج کی اجازت دی جائے۔
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ 67 ہزار افراد نے زندگی بھر کی جمع پونجی حج کے لیے لگا دی ہے، اور ان کے ارمان خاک میں ملنے جا رہے ہیں۔ حج آرگنائزرز نے تسلیم کیا کہ سعودی ڈیجیٹل سسٹم کی سخت ٹائم لائن پر مکمل عمل نہ ہو سکا، جس پر وہ معذرت خواہ ہیں۔
انہوں نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ 13 ہزار ایسے افراد جن کا اندراج نسک سسٹم میں نہیں ہو سکا، انہیں خصوصی اجازت دی جائے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • نہریں متنازع معاملہ ہے، جو سنگین ہوچکا، شرجیل میمن
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • کراچی حج آپریٹرز کی حج بحران کے معاملے پر آرمی چیف، وزیراعظم اور صدر سے مداخلت کی اپیل
  • کراچی: ایف آئی اے دفتر میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا
  • کراچی: صحت کے سنگین مسائل کے باوجود 80 سالہ طالبعلم نے پی ایچ ڈی کر لی
  • وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
  • نوبل انعام یافتہ اور درجنوں دیگر ماہرین اقتصادیات کا امریکی ٹیرف پالیسیوں کی مخالفت میں اعلامیہ
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • لاہور: قبضہ مافیا کیخلاف ریلوے کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن، 50 ارب مالیت کی اراضی واگزار کروا لی
  • پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ