مقصد امن کی ضمانت ہے عارضی جنگ بندی نہیں، زیلنسکی
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
یوکرائنی صدر نے کہا کہ ہمارا ہدف امن کی ضمانت ہے، عارضی جنگ بندی نہیں اور ہم پوٹن کو دوبارہ دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اسلام ٹائمز۔ یوکرین کے صدر ولودمیر زیلنسکی نے بدھ کی شام اپنے خطاب میں تاکید کی کہ ان کا مقصد روس کے ساتھ ضمانت شدہ امن ہے، نہ کہ کوئی عارضی جنگ بندی۔ فارس نیوز کے مطابق، انہوں نے کہا کہ یوکرین کو یورپ، برطانیہ، ترکی اور امریکہ کے وسیع کردار کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے لیے سیکیورٹی گارنٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ زیلنسکی نے مزید کہا کہ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ محض چند مہینے یا چند سال بعد، پوٹن دوبارہ جنگ میں نہ لوٹ آئے۔ انہوں نے تاکید کی کہ ہمارا مقصد ایک مستقل اور ضمانت شدہ امن ہے، نہ کہ عارضی جنگ بندی، اور ہم پوٹن کو دوبارہ ہمیں دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یوکرینی صدر نے مزید کہا کہ تمام شراکت داروں کو کسی بھی ممکنہ مذاکرات سے پہلے سمجھنا ہوگا کہ طاقتور سیکیورٹی گارنٹیز مستقل امن کے لیے اولین ترجیح ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) فلورینٹینا لوآئزا ایک شیر خوار بچے کی ماں اور صرف انیس برس کی تھیں، جب پیرو کی حکومت کے کارندوں نے دھوکے سے ان کی نس بندی کر دی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق برسوں پہلے پیروکی ﹰ تقریبا پونے تین لاکھ خواتین کے ساتھ ایسا کیا گیا تھا۔
آج عشروں بعد فلورینٹینا کی عمر چھیالیس برس ہے اور وہ اور دیگر متاثرہ خواتین ابھی تک حکومت کی طرف سے معافی مانگے جانے اور اپنے لیے مالی ازالے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
جبری نسبندی ، نسل کشی کا ایک انداز
بیشتر متاثرہ خواتین کا تعلق پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تھا اور اقوام متحدہ نے مرضی کے خلاف افزائش نسل کی اہلیت سے محروم کر دینے والی اس حکومتی مہم کی مذمت بھی کی تھی۔
(جاری ہے)
ان لاکھوں خواتین کے ساتھ انیس سو نوے کی دہائی میں یہ ظلم کیا گیا تھا اور یہ بات بعد میں منظر عام پر آئی تھی۔
فلورینٹٰنا لوآئزا اب ایک سماجی کارکن ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''میری زندگی مختصر کر دی گئی۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ تولیدی نس بندی کے بعد ان کے شریک حیات نے بھی انہیں چھوڑ دیا تھا اور اس بات نے بھی ان کی زندگی پر کبھی نہ ختم ہونے والے اثرات چھوڑے، جو انتہائی تکلیف دہ تھے۔نسلی طور پر پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والی فلورینٹینا بتاتی ہیں کہ انیس سو ستانوے میں وہ چند ماہ کی عمر کے ایک شیر خوار بچے کی ماں تھیں اور جنوب مشرقی پیرو کے حوآن کاویلیکا نامی دیہی علاقے میں رہتی تھیں۔
سنکیانگ: شرح پیدائش تاریخ کی کم ترین سطح پر
ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب ایک روز کئی دیگر مقامی خواتین کے ساتھ وہ ایک ٹرک میں سوار ہو کر اس لیے ایک قریبی کلینک گئیں کہ وہاں انہیں وہ امدادی خوراک ملنا تھی، جس کا ان سب سے وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن کلینک میں ان خواتین کو کوئی امدادی سامان دینے کے بجائے ان سب کی زبردستی سرجری کر دی گئی۔
وہاں اپنے ساتھ کی گئی زبردستی کو یاد کرتے ہوئے فلورینٹینا کہتی ہیں، ''ہمیں پکڑ کر نرسوں نے زبردستی سٹریچروں پر لٹایا اور ہمیں بےہوشی کے ٹیکے لگا دیے گئے۔‘‘ فلورینٹینا کے بقول جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی نس بندی کر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا، ''جب میں گھر لوٹی اور سب کچھ اپنے شریک حیات کو بتایا تو اس نے میری بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔
اس نے الٹا مجھ پر الزام لگایا کہ میں دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش مند تھی اور اسی لیے دانستہ اپنی نس بندی کروا آئی تھی کہ یوں حاملہ نہ ہو جاؤں۔ اس کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ان واقعات کے بعد فلورینٹینا لوآئزا نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیا اور پیرو کے دارالحکومت لیما منتقل ہو گئیں تاکہ عام لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزارہ کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں، ''سرجری کے بعد میرے پیٹ میں شدید درد رہتا تھا۔ مجھے سرکاری طبی امداد کی اشد ضرورت تھی کیونکہ میں خود اپنا علاج نہیں کرا سکتی تھی۔ سرجری کے بعد میری زندگی کی مشکلات بہت بڑھ گئی تھیں۔‘‘پیرو میں ریاست کے ایما پر دھوکہ دہی سے یا زبردستی کی جانے والی اس نس بندی سے متاثرہ خواتین کی مجموعی تعداد تقریباﹰ دو لاکھ ستر ہزار بنتی ہے۔
ان میں اب پچپن برس کی ماریا ایلینا کارباخال بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ لیما کے مضافات میں رہتی ہیں۔ کارباخال نے اے ایف پی کو بتایا، ''تب میری عمر چھبیس سال تھی۔ میں اپنے سب سے چھوٹے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں ہسپتال گئی، تو ڈاکٹروں نے میرے علاج کے لیے شرط یہ رکھی کہ میں اپنی نس بندی پر رضا مندی ظاہر کروں۔ دوسری صورت میں میں اپنے نومولود بچے کو کبھی نہیں مل سکوں گی۔‘‘کارباخال نے مجبوری میں ڈاکٹروں کی بات مان لی اور ان کی بھی زچگی کے فوری بعد نس بندی کر دی گئی۔ اس واقعے کے بعد کارباخال کے شوہر نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگیں۔ اب وہ جبری نس بندی سے متاثرہ خواتین کے لیے ایک ادارہ چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہمیں جبراﹰ بانجھ بنایا گیا۔
ہمارے جسموں پر نہ صرف زخم لگائے گئے بلکہ ہم ان زخموں کے نتیجے میں اپنے خاندانوں کے ٹوٹ جانے کے دکھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین کی جبری نس بندی کی یہ مہم پیرو کے سابق صدر البیرٹو فیوجی موری کے دور میں چلائی گئی تھی، جو 1990 سے لے کر 2000 تک اقتدار میں رہے تھے۔ اس دوران طبی پیچیدگیوں کے باعث اٹھارہ خواتین ہلاک بھی ہو گئی تھیں۔
تخت نشینی کا جاپانی قانون: اقوام متحدہ کے مطالبے پر ٹوکیو حکومت ناراض
فیوجی موری حکومت کے ریکارڈ کے مطابق یہ نس بندی فیملی پلاننگ کے ایک حکومتی منصوبے کے تحت متعلقہ خواتین کی مبینہ رضا مندی سے کی گئی تھی۔
لیکن اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی نے گزشتہ برس اکتوبر میں اپنی ایک رپورٹ میں اس جبری حکومتی عمل کو ''ریاست کی طرف سے دیہی اور قدیمی مقامی خواتین پر منظم حملہ‘‘ قرار دیا تھا، جس سے متاثرہ اکثر خواتین ناخواندہ تھیں اور پیرو کی سرکاری زبان کے طور پر ہسپانوی زبان بھی نہیں سمجھتی تھیں۔
اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی کی ایک رکن لیٹیسیا بونیفاز نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ دیہی علاقوں میں چلائی گئی ایسی مہم تھی، جس کا مقصد معاشرے کے غریب ترین اور محروم طبقے کی آبادی میں اضافے کو روکنا تھا۔‘‘ بونیفاز کے بقول یہ ناانصافی''لاطینی امریکہ میں جبری نس بندی کا سب سے بڑا منظم واقعہ‘‘ تھی۔
گلوبل جینڈر گیپ انڈکس کیا ہے؟
گزشتہ برس اقوام متحدہ نے پیرو کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے میںِ ''اپنی تحقیقات کو تیز اور وسیع کرے اور متاثرین کے لیے مالی معاوضے اور نفسیاتی علاج کا ایک جامع پروگرام بھی جلد ترتیب دے۔‘‘
پیرو کی ایک عدالت نے بھی 2023 میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت متاثرہ خواتین کے لیے مالی ازالے اور طبی دیکھ بھال کے انتظامات کرے۔ اس عدالتی فیصلے پر بھی اب تک عمل نہیں ہوا۔
عصمت جبیں/ ص ز (اے ایف پی)