باخبر صحافیوں کی یہ خبریں درست ثابت ہوئیں کہ ورلڈ بینک شفاف طرزِ حکومت کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی نظام اور انتظامی ڈھانچے کا جائزہ لے گا۔ ورلڈ بینک کی ٹیم نے گزشتہ ہفتے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے بھی ملاقات کی۔ اس دوران ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ٹرانسپرنسی کے تناظر میں پاکستان کا درجہ کم ظاہرکیا گیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن International Finance Corporation (I.
ادھر حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان چپقلش انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے درمیان سیاسی مذاکرات کے کئی ادوار بے نتیجہ نکلے تھے جس کی بناء پر سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف چاروں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے دعوؤں کے باوجود خیبر پختون خوا کے شہروں کے ساتھ سابقہ قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔
لنڈی کوتل سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور نوشہرہ تک حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ان علاقوں میں ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر تنظیمیں سرگرم ہیں اور حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقے میں ٹی ٹی پی کے جنگجو عدالتیں لگاتے ہیں۔ پارہ چنار گزشتہ 6 ماہ سے ملک سے کٹا ہوا ہے۔
قبائلی جرگوں کی بناء پر اس علاقے میں امن قائم ہوا ہے مگر اب بھی پارہ چنار میں ضروری اشیاء و ادویات کی سخت قلت ہے۔ پولیس کی نگرانی میں قافلے پارہ چنار آتے جاتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے حالات کو معمول پر لانے کے اعلانات کے باوجود صورتحال خراب ہے۔ گزشتہ دنوں پارا چنار میں پھنسے ہوئے کئی طالب علموں نے اپیل کی تھی کہ یورپ اور امریکا میں ان کے داخلے اس لیے منسوخ ہو رہے ہیں کہ وہ پارہ چنار سے نہیں نکل سکتے۔
دوسری طرف بلوچستان میں بھی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ دہشت گردوں نے پھر ہرنائی میں غریب کان کنوں کو نشانہ بنایا۔ اب تک 16کان کنوں کے مرنے کی خبریں ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 6 فروری 2025کو خضدار میں پولیس لائنز کے علاقے سے مسلح افراد نے ایک گھر سے ایک خاتون اسماء بلوچ کو اغواء کیا اور دو دن تک خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
اسماء کے اہلِ خانہ اور خضدار کے شہریوں نے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ یہ دھرنا 3 دن تک جاری رہا، جس کی وجہ سے ایران اور افغانستان کو کراچی کی بندرگاہ سے ملانے والی قومی شاہراہ پر ہر قسم کا ٹریفک معطل رہا۔ دھرنا کی قیادت اسماء بلوچ کی والدہ اور بھائی عطاء اﷲ جتک کررہے ہیں۔ عطاء اﷲ جتک اس وقت لسبیلہ یونیورسٹی کے پلانٹ پیتھالوجی شعبہ میں لیکچرار ہیں۔ اسماء بلوچ کے منگیتر عبدالسلام کو 6ماہ قبل نامعلوم افراد نے اغواء کر کے قتل کردیا تھا مگر اس نوجوان کے قاتل پکڑے نہ جاسکے، البتہ کوئٹہ کراچی مرکزی شاہراہ بند ہونے سے قلات ڈویژن کے کمشنر کو فوری توجہ دینی پڑی۔ پولیس نے اسماء کو برآمد کیا جس کے بعد دھرنا ختم ہوا، بدامنی کی صورتحال صرف خضدار تک محدود نہیں رہی بلکہ مکران ڈویژن میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر احتجاجی سلسلہ جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے تربت میں معروف شخصیت شریف ذاکر کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔ شریف ذاکر ایک ماہرِ تعلیم تھے اور تربت کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ان کا ایک بیٹا پہلے ہی لاپتہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک 16سالہ نوجوان حیات سبرل گزشتہ سال لاپتہ ہوا تھا۔ اس کی لاش پنجگور کے علاقے سے ملی۔ اس علاقے کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ تربت میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک نوجوان اﷲ داد بلوچ کو ہلاک کردیا۔ اﷲ داد بلوچ ایم فل کے اسکالر تھے۔ شریف ذاکر بنیادی طور پر ایک ماہر تعلیم تھے۔ ان کو قتل کرنے والوں نے مکران ڈویژن کے تعلیمی نظام کو تباہ کیا ہے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے ایک نوجوان بلوچ لڑکی اپنے 75سالہ بوڑھے باپ کی بازیابی کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔ یہ بوڑھا شخص گزشتہ ایک سال سے لاپتہ ہے۔
بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی دھرنوں سے بلوچستان میں تجارتی زندگی معطل ہوگئی ہے ۔ دوسری طرف اپر سندھ اور جنوبی پنجاب سے متصل کچے کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کے مسلسل آپریشن کی خبروں کے باوجود ڈاکوؤں کے خاتمے کی امید نظر نہیں آتی۔ دونوں صوبوں میں پولیس جدید اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے مگر اس علاقے کے صحافی کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے جن کی سرپرستی قبائلی سردار اور نان اسٹیٹ ایکٹرزکرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کئی سال گزرنے کے باوجود کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں پر قابو نہیں پاسکی ہے۔ کندھ کوٹ کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی سرپرستی قبائلی سردار، منتخب اراکین اسمبلی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کے دعوؤں کے باوجود کچے کا علاقہ غیر محفوظ نظر آتا ہے۔
صدر زرداری نے اپنے دورۂ چین کے بعد ایک دفعہ پھر یہ اعلان کیا کہ سی پیک گیم چینجر ہوگا مگر بلوچستان میں مستقل بدامنی اور اہم شاہراہوں کے مستقل بند ہونے سے گیم چینجر کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجود سیاسی استحکام ابھی تک نظر نہیں آتا۔ جب ملک میں مکمل طور پر سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو اقتصادی ترقی ایک خواب رہے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے باوجود پارہ چنار کے علاقے افراد نے
پڑھیں:
کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء
سماجی و سیاسی رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی پالیسی بنائی جائے، گرفتار کرکے انکی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سیاسی و سماجی رہنماوں نے کہا ہے کہ ملک سے بے دخلی کے نام پر افغان شہریوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس بھیجے۔ مساجد کے باہر سے گرفتاریوں سے نفرتوں میں اضافہ ہوگا۔ حکومت مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح پالیسی مرتب کرے۔ یہ بات کوئٹہ فاونڈیشن کی چیئرپرسن روزینہ خلجی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سینئر نائب صدر سلمان خان خلجی، درانی قومی اتحاد کے چیئرمین عباس درانی، انجمن تاجران کے رہنماء حاجی صالح محمد نورزئی، سماجی رہنماء سردار صدیق ہوتک و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔
کوئٹہ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن روزینہ خلجی نے کہا کہ افغانستان جنگ کے بعد پاکستان نے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو پاکستان میں جگہ دی، جو ایک احسن اقدام تھا۔ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد یو این ایچ سی آر سمیت دیگر عالمی اداروں نے افغان مہاجرین کیلئے حکومت پاکستان کو اربوں روپے کی امداد فراہم کی، تاکہ مہاجرین کو سہولیات کی فراہمی میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت پاکستان کی طرف سے بے دخلی کے نام پر افغان مہاجرین کی تذلیل کی جارہی ہے، جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس افغانستان واپس بھیجنے کیلئے حکومت اقدامات اٹھائے، تاکہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں حکومت نے مہاجرین کے نام پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور افغان شہریوں کو گرفتار کرکے انکی تذلیل کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر سلمان خلجی نے کہا کہ پاکستان میں 40 سے 45 سال سے افغان مہاجرین اپنی زندگی گزار رہے ہیں، انکی یہاں رشتہ داریاں ہیں۔ حکومت پاکستان کا اچانک انکی واپسی سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ افغان مہاجرین کی اپنے وطن واپسی کو باعزت طریقے سے یقینی بنانے کیلئے ایک واضح پالیسی بنائے اور افغان مہاجرین کی تذلیل کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔