Express News:
2025-04-22@07:05:56 GMT

پاک ترکیہ باہمی تجارت

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

پاکستان ترکیہ میں تعاون کے 24 سمجھوتوں پر دستخط ہو گئے ہیں، گزشتہ دنوں رجب طیب اردوان پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، جہاں ان کے استقبال کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان کے صدر آصف زرداری موجود تھے۔ صدر رجب طیب اردوان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں۔

ترکی کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ ترکیہ نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی زبانی اور عملی حمایت کی ہے اور پاکستان کے ساتھ دنیا کے بہت سے معاملات میں کھڑا رہا ہے۔ 1971کی جنگ میں ترکیہ نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور عملی اقدام اٹھا کر بھی دکھایا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ 16 دسمبر سقوط ڈھاکا کے ساتھ ہی جب اپنے ہی ملک کے شہری یعنی مغربی پاکستان کے شہری جوکہ ڈھاکا میں بسلسلہ تجارت و صنعت مقیم تھے وہ اجنبی قرار پائے اور انھیں اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ ایسے میں ان شہریوں کو محفوظ جائے پناہ کی تلاش تھی، اس موقعے پر ترکیہ نے ڈھاکا میں واقع اپنے سفارت خانے کے گیٹ ان کے لیے کھول دیے اور ہزاروں مغربی پاکستانیوں کے بارے میں پاکستان میں یہ خبر آ چکی تھی کہ ان کے عزیز و اقارب ترکیہ کے سفارت خانے میں موجود ہیں، تو ہر ایک نے اطمینان کا سانس لیا کہ ہمارے عزیز و اقارب ہمارے بھائی اور برادر ملک ترکیہ کے گھر میں موجود ہیں۔

ترکیہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک لے جانے کی باتیں غالباً 2009 سے ہو رہی ہیں، ان دنوں اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ سطح تزویراتی تعاون کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس سے امید ہو چلی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔

اگرچہ پاکستان کے بزنس مین بڑی تعداد میں استنبول اور دیگر بڑے شہروں کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور اس بات کا تذکرہ بھی کرتے رہتے ہیں اور وہاں پر اپنی مصنوعات ایکسپورٹ کو بڑھانے کے بارے میں پرامید بھی ہیں،کئی افراد ایسے بھی ہیں جو ترکیہ جا کر وہاں کاروبارکرنے کے خواہاں ہیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نسبت وہاں پر مہنگائی بہت ہی زیادہ ہے اور رہائشی مکان یا فلیٹوں دفاترکے کرائے بھی بہت زیادہ مہنگے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ دیگر ممالک کے شہریوں کی نسبت وہاں کے لوگوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص پاکستانی ہے تو وہ اسے اچھی نظر سے دیکھتے ہیں اورکئی افراد ایسے بھی ہیں جو کہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہاں کے شہری پاکستان کے کئی مقامات سے آگاہ بھی ہیں، شاعر مشرق علامہ اقبال سے بھی واقف ہیں، ان کے فارسی کلام کو سمجھتے بھی ہیں، بہت سے افراد لاہور کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور مغل بادشاہوں سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔

 جن دنوں پاکستان ترکیہ اور ایران نے مل کر ایک تنظیم قائم کی تھی جسے مخفف میں آر سی ڈی کہا جاتا تھا بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں وہاں کے لوگ سابق صدر ایوب خان سے بھی واقف تھے۔ ان تینوں ملکوں کی خواہش تھی کہ کراچی سے بلوچستان کے راستے سے ہوتی ہوئی وہاں سے ایران سے گزر کر ترکیہ تک ایک روڈ ہو جسے آر سی ڈی روڈ کا نام دیا گیا لیکن 1979 کے ایران انقلاب کے بعد یہ تنظیم غیر فعال ہو کر رہ گئی۔ اب دونوں ممالک مل کر اسلام آباد، استنبول، تہران ITT روڈ کوریڈور کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششیں تیز ترکر رہے ہیں۔

پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تجارتی حجم بہت ہی زیادہ کم ہے۔ پاکستانی ایکسپورٹ زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات پر مبنی ہوتی ہیں جب کہ پاکستان ترکیہ سے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدتا ہے۔ 2009 سے اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح دونوں ملکوں کی تجارت میں اضافہ ہو۔

پی بی ایس کی طرف سے شایع کردہ 20 ممالک کی فہرست انتہائی اہم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سے 20 اہم تجارتی پارٹنرز ہیں جن سے پاکستان بڑے پیمانے پر امپورٹ اور ایکسپورٹ کرتا ہے۔ 2024 کے لیے شایع کردہ لسٹ میں 20 بڑے ممالک میں درآمد اور برآمد دونوں طرف ترکیہ کا نام شامل نہیں ہے۔ البتہ 2023 کے 20 اہم ملکوں کے نام جن کو پاکستان نے بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ کی تھی ان میں ترکیہ کا نام سولہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان نے ترکیہ کو 82 ارب 38 کروڑ77 لاکھ روپے کی اشیا برآمد کیں اس کا حصہ 1.

14 فی صد بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار جولائی تا جون 2023 تک کے ہیں۔

جولائی تا جون 2022 یہ مالیت64 ارب 75کروڑ66 لاکھ روپے بنتی ہے اور شیئر 1.14 فی صد بن رہا ہے۔ جولائی تا جون 2021 میں کل ایکسپورٹ جوکہ ترکیہ کے لیے تھی وہ مالیت 43ارب 83 کروڑ روپے کے ساتھ 1.08 فی صد بنتی ہے اور جولائی تا جون 2020 تک اس کا حجم 41 ارب 37کروڑ50 لاکھ روپے بنتا ہے۔

پاکستان نے 2009 میں ترکیہ کے ساتھ مل کر جو اعلیٰ سطح تزویراتی کونسل بنائی تھی، اس کے ثمرات اب تک حاصل نہ ہو سکے۔ البتہ اب یہ 24 معاہدے ہوئے ہیں، ان کی بنیاد پر امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے ترکیہ کو جانے والی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ترکیہ کا عالمی تجارت میں بہت بڑا حصہ ہے۔

2023 میں ترکیہ نے 256 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کی تھیں اور آبادی کل ساڑھے 8 کروڑ ہے اور پاکستان کی آبادی اس سے ٹھیک تین گنا زائد ہے اور ہماری ایکسپورٹ اس کے 10 فی صد سے زائد ہے۔ البتہ امپورٹ میں ایک سال ایسا گزرا جب ہم نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور اس ایکسپورٹ کے ایک تہائی کے قریب پہنچ چکے تھے یعنی80 ارب ڈالرکی امپورٹ کر لی تھی۔ ترکیہ اپنی کرنسی لیرا کو بھی بیرونی تجارت میں استعمال کر رہا ہے اور اس میں کامیاب چلا آ رہا ہے۔

پاکستان ترکیہ کے ساتھ تجارت بڑھانے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟ ان وجوہات کو تلاش کیا جائے۔ تجارتی معاہدے کر لینا اور پھر دوسرے کاموں کی طرف توجہ دینا یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ترکیہ میں واقع پاکستانی سفارت خانے کو فعال بنایا جائے ان سے ہر ہفتے رپورٹ لی جائے معلوم کریں کہ تجارت کیوں نہیں بڑھ رہی؟ یہاں کے وہ تاجر ایکسپورٹر جو ترکیہ کے ساتھ کام کرتے ہیں، ان کے مسائل معلوم کیے جائیں ان کو حل کیا جائے۔ 8 کروڑ کی آبادی اور 256 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ یہ اچھی کارکردگی ہے۔

پاکستان کو بھی ان کی اچھی کارکردگی کو مثال بنا کر اس پرکام کرنا چاہیے سب سے پہلے ترکیہ میں ہی اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وہاں کا پاکستانی سفارت خانہ، وہاں کام کرنے والے تاجر اور پاکستان کے معاشی حکام سب مل کر اس بارے میں 5 ارب ڈالر نہ سہی فوری طور پر 3ارب ڈالر سے زائد تجارت کو لے کر جا سکتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور پاکستان کے پاکستان ترکیہ جولائی تا جون پاکستان کی میں ترکیہ ترکیہ کے ارب ڈالر ترکیہ نے بھی ہیں ہیں اور کے ساتھ رہا ہے کی تھی کے لیے سے بھی ہے اور

پڑھیں:

سندھ اور پنجاب بارڈر پر کینالز کے خلاف دھرنا، 15 لاکھ ڈالرز کا مال خراب ہونے کا خدشہ

دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے خلاف ہائی ویز پر ہونے والے دھرنوں کی وجہ سے 15 لاکھ ڈالر کے نقصان کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب اور سندھ کے داخلی راستے پر جاری دھرنے کی وجہ سے ہائی ویز پر دھرنے سندھ کے داخلی راستے پر آلو کے  250 کنٹینرز پھنس گئے ہیں جس کی وجہ سے ایکسپورٹ کو بڑے چلینج کا سامنا ہے۔

دھرنے کی وجہ سے آلو کی ایکسپورٹ کے 250 کنٹینرز سندھ کے داخلی راستے پر  پھنس گئے، جنہیں مشرق وسطی، مشرق بعید کے ملکوں میں ایکسپورٹ کرنا تھا۔

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ آلو کو مخصوص درجہ حرارت پر رکھنے کیلیے جنریٹرز کی ضرورت ہوتی ہے اور گزشتہ دو روز سے دھرنے کی وجہ سے اب انتظامات ختم ہورہے ہیں، اگر کنٹینرز بندرگاہ نہ پہنچے تو تمام مال تلف ہونے کا خدشہ ہے جس سے ایکسپورٹرز کو 15 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوگا، اس کے علاوہ کسانوں کو بھی بڑا نقصان ہوگا۔

سبزی اور پھلوں کی ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ وحید احمد نے سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ کنٹرینرز کی بندگاہوں تک ترسیل کو ہرصورت یقینی بنائے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی وزیراعظم آج ترکی کے دورے پر
  • وزیراعظم شہباز شریف کل ترکیہ کا دورہ کریں گے، صدر اردوان سے ملاقات شیڈول
  • سندھ اور پنجاب بارڈر پر کینالز کے خلاف دھرنا، 15 لاکھ ڈالرز کا مال خراب ہونے کا خدشہ
  • اسحاق ڈار اور امارات کے نائب وزیراعظم کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے پر زور
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • وزیر مملکت کھیئل داس کی گاڑی پر حملہ؛ سندھ ترقی پسند پارٹی کے ضلعی صدر زیر حراست
  •  معیشت بہتر‘ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ میں سٹرکچرل ریفارمز کی جارہی ہیں:جام کمال
  • پاکستان اور افغانستان کا روابط برقرار رکھنے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ
  • مارکیٹ میں نئی تبدیلیوں کیلئے خود کو تیار رکھیں؛ احسن اقبال
  • چوہدری شافع حسین سے کینیڈا کے ایکٹنگ ہائی کمشنر کی ملاقات،دوطرفہ تجارت بڑھانے کے امور پر بات چیت