اس انکشاف کا سہرا اگر کسی کے سرجاتا ہے تو وہ قہرخداوندی چشم گل عرف سوائن فلو عرف کوئڈ نائنٹین ہے۔اگرچہ اس نے یہ انکشاف خالص بدنیتی اور علامہ بریانی عرف برڈ فلو کو ہدف بنانے کے لیے کیا ہے۔ لیکن انکشاف تو بہرحال انکشاف ہوتا ہے۔جس طرح انصاف بہرحال انصاف ہوتاہے چاہے وہ تحریک انصاف ہی میں کیوں نہ ہو۔
انکشاف یہ تھا کہ گاؤں بلکہ علاقے بلکہ پورے ملک میں مینڈک اور مینڈکیاں ختم ہو رہی ہیں، مفقود الخبر ہورہی ہیں، کم یاب و نایاب ہورہی ہیں اور واقعی ہم نے جب غور کیا تو پہلے جہاں ہم قدم اٹھانے سے پہلے دیکھ لیا کرتے تھے کہ کہیں کوئی مینڈک یا مینڈکی تو پاؤں کے نیچے آنے والی نہیں ہے وہاں اب دیکھنے کو بھی کوئی مینڈک یا مینڈکی نہیں ملتی۔ پہلے کسان جب کھیت کو پانی دے لیتے تھے تو رات کو وہاں مینڈک لوگ باقاعدہ قوالیاں منعقد کرتے تھے۔ دھرنے کا سماں ہوتا اور مشاعرے کی کیفیت ہوتی لیکن اب کھیت پر ایسا سناٹا چھایا ہوتا ہے جیسے ایک ہُو کا عالم ہو
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستایاں ہیں
قصہ یوں ہوا کہ ان دنوں جمعرات، جمعہ اور چہلم برسیوں کی وارداتیں کچھ زیادہ ہونے لگی تھیں شاید اس لیے مال حرام کے سارے دروازے چوپٹ کھل گئے اور ایسے میں سوائے حرام رفت کا سلسلہ بھی تیز ہوجاتا ہے جب کہ ایسی واردات کو’’قضا‘‘ کرنا علامہ بریانی کے لیے نمازعید قضا کرنے کے مترادف ہے۔ایک طرف لگاتار یہ مرغن چرغن وارداتیں اور اوپر سے لوگوں نے اب یہ بدعت بھی شروع کی ہے کہ دسترخوان پر یخ بستہ کولڈ ڈرنکس کا انتظام بھی کرنے لگے ہیں۔چنانچہ ایک ہی گلے سے جب گرما گرم اور یخایخ مال و متاع گزرتا ہے تو اس طرح تو ہوتا ہے۔
اس طرح کی وارداتوں میں کہ علامہ کی آواز پہلے لنگڑانے لگی پھر لڑکھڑانا شروع ہوئی پھر گر پڑی پھر بیٹھ گئی پھر لیٹ گئی اور آخر میں انگریزی کی لیٹ late ہوگئی۔جب کہ ادھر چندے کا دھندہ بھی مندا نہیں ہونے دے رہے تھے۔چنانچہ جب لاؤڈ اسپیکر پکڑلیتے تھے یا لاؤڈ اسپیکرعلامہ کو پکڑ لیتا تھا۔جو آوازیں نشر ہوتی تھیں۔وہ صرف ٹراں ٹروں،ٹراں ٹروں پر مشتمل ہوتی تھیں قہرخداوندی تو ایسے مواقع کی تاک میں رہتا ہے چنانچہ اس نے زبردست پبلسٹی کرکے علامہ ہی کو’’ٹراں ٹروں‘‘ مشہور کردیا اور کچھ دنوں بعد یہ انکشاف بھی کر ڈالا کہ مینڈک اور مینڈکیاں نقل مکانی کرنے لگے ہیں کہ اب ہماری یہاں ضرورت ہی نہیں رہی ہے
اے مرے دل کہیں اور چل
اس چمن میں ہمارا گزارا نہیں
قہرخداوندی کی بدنیتی اور اس کی علامہ سے پرخاش اپنی جگہ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ واقعی مینڈک اور مینڈکیاں مفقود الخبر ہوتی جا رہی ہیں، اب ظاہر ہے کہ ہم جو اکیڈمیوں کے تعلیم یافتہ اور تفتیشی اداروں کے تربیت یافتہ ہیں ذمے داری بنتی ہے کہ اس نہایت ’’سنجیدہ‘‘ معاملے میں اپنا تحقیق کا ٹٹو اسٹارٹ کریں۔
پہلے تو ہمیں یہ خیال آیا کہ شاید کسانوں نے فصلوں پر کوئی ایسی دوا چھڑکنا شروع کی ہو جس سے زیربحث مخلوق کی نسل کشی ہوگئی ہو لیکن کسانوں اور دوا فروشوں نے کسی ایسی دوا کے استعمال سے قطعی انکار کردیا۔پھر ایک دانا دانشور نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کی کہ شاید علاقے میں سانپ بڑھ گئے ہوں جو مینڈکوں اور مینڈکیوں کو رغبت سے کھاتے ہیں۔لیکن ایک تو سانپوں کی تعداد پہلے کم ہوئی تھی بڑھی نہیں تھی دوسرے یہ کہ اگر ایسا ہوتا تو سانپوں کے’’مینو‘‘میں تو سب سے اوپر چوہے ہوتے ہیں وہ تو کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھ گئے ہیں تو پھر؟۔ایک شخص نے انتہائی دور کی کوڑی لاتے ہوئے پاکستان اور ایک دوست ملک کی دوستی کو بنیاد بناکر یہ ہوائی اڑائی کہ شاید کچھ جرائم پیشہ عناصر نے مذکورہ مخلوق کو پکڑپکڑ کر اسمگل کرنا شروع کیا ہو کیونکہ اس سے پہلے گدھوں کی کھالوں کے سلسلے میں بھی ایسی ہی ہوائیاں اڑی تھیں لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ بندہ پریشان اللہ مہربان۔ہم بھی حیران وپریشان ہو رہے تھے کہ کوئی سراغ کوئی کلو اور کوئی کھرا نہیں مل رہا تھا کہ آخر ان مینڈکوں پر ایسی کیا بیتا آپڑی ہے کہ مسلسل مفقوط الخبر ہوتے جارہے ہیں۔ کہ اچانک ذہن میں ایک جماکا ہوا پھر دھماکا ہوا کہ جو آخر میں کھڑاکا ہوکر دھڑاکا ہو گیا۔اور یہ سب کچھ سامنے میز پر پڑے ہوئے اخبار کو دیکھ کر ہوا تھا۔پھر ہم نے انگلیوں پر کچھ حساب کرکے تاریخیں ملوائیں تو یہ راز کھلا کہ مینڈکوں کی نقل مکانی ٹھیک اس وقت شروع ہوئی ہے جب سے پاکستان میں حکومت، سیاست، جمہوریت، تجارت معیشت آئین اور قانون سب کچھ سمٹ کر ’’بیانات‘‘ میں مرتکز ہوا ہے۔
یعنی بیانات ہی بیانات پاکستان کی کل کائنات بن گئے ہیں۔ اخبارات اور چینلات میں بھی صرف بیانات ہی بیانات بیانات ہی بیانات اور ایک مرتبہ پھر بیانات ہی بیانات وہ ودیا بالن سے منسوب بات پھر دُم ہلانے لگی ہے۔اداکارہ ودیا بالن جس نے فلم پکچر میں تمام ڈرٹی پکچروں کا عطر مجموعہ پیش کیا تھا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ ایک اچھی فلم کے لیے کیا ضروری ہے تو اس نے تین انگلیاں اٹھا کر کہا کہ اچھی فلم کے لیے تین چیزیں لازمی ہیں۔نمبر ایک انٹرٹینمنٹ نمبر دو انٹرٹینمنٹ اور نمبر تین انٹرٹینمنٹ۔اور یہی ہم پاکستانی سیاست،جمہوریت اور حکومت ہر ایک کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان تینوں کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں۔ بیانات، بیانات اور بیانات۔جسے مختصر کرکے ٹراں، ٹروں، ٹراں ٹروں اور ٹراں ٹروں بھی کہا جاسکتا ہے اب جب ہر طرف دائیں بائیں آگے پیچھے اور اوپر نیچے، ٹراں ٹروں ہی ہو تو بیچارے مینڈک بھاگیں گے نہیں تو کیا کریں گے۔
قہرخداوندی چشم گل عرف سوائین فلو نے تو خواہ مخواہ ہمارے بیچارے علامہ بریانی کو ٹراں ٹروں کے لیے ٹارگٹ کیا ہے۔یہ ٹراں ٹروں صرف ہمارے گاؤں یا علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک گیر صورت اختیار کرچکا ہے۔یقین نہ ہو تو ابھی اٹھ کر باہر نکلیے آنکھیں اور کان کھول کر دیکھیے اور سنیے اگر کہیں ایک بھی مینڈک یا مینڈکی دکھائی یا سنائی دے تو ہمارا نام بدل کر ’’معاون خصوصی‘‘ رکھ لیجیے۔ ارے ہاں یادش بخیر۔معاونین خصوصی سے یاد آیا کہ پہلے مرحلے میں جب بیانات کی وبا ہمارے ملک پر کرونا عرف کوئڈنائنٹین کی طرح نازل ہوئی تھی تو صرف مینڈک ہی راہ فرار اختیار کرنے لگے وہ بڑے بڑے زرد و سبز رنگ کے مینڈک جسے ہماری پشتو میں ’’بھاٹا‘‘ کہتے ہیں جو بھانڈ یا بھاٹ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔لیکن جب بیانات کے لیے یہ خصوصی مخلوق میدان میں آئی جسے معاونین خصوصی کہا جاتاہے۔تو وہ چھوٹی چھوٹی مینڈکیاں بھی بھاگ اٹھیں۔جو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔اس لومڑی کی طرح جو جنگل میں بے تحاشا بھاگ رہی تھی کسی نے پوچھا بی لومڑی کیا ہوا جو اتنی سرپٹ دوڑ رہی ہو۔لومڑی نے کہا جنگل کے اس سرے پر قانون نافذ کرنے والے اونٹوں کو پکڑ رہے ہیں۔
پوچھنے والے نے کہا مگر تم تو اونٹ نہیں لومڑی ہو۔ لومڑی نے کہا ہاں میں ہوں تو لومڑی ہی لیکن اگر ان سے کسی نے جھوٹ موٹ بھی کہا یا خود ہی مجھے اونٹ کا بچہ سمجھ لیا اور مجھے پکڑ کرلے گئے تو جب تک میں خود کو لومڑی ثابت کروں گی تب تک وہ میری کوئی بھی کل سیدھی نہ چھوڑیں گے۔
مینڈکیوں نے بھی شاید اسی خدشے سے غائب غُلہ ہونا شروع کیا ہوگا کہ اگر ہمیں بھی بچہ مینڈک سمجھ کر پکڑلیا گیا تو جب تک خود کو مینڈکی ثابت کریں گے تب تک وہ چھترول کرکے اتنا سُجا چکے ہوں گے کہ ٹراں ٹروں بن چکے ہونگے اور ہمیں بھی معاون خصوصی بنا چکے ہوں گے۔بہرحال ہماری تحقیق مکمل ہوگئی کہ دو فقیر ایک کمبل میں تو گزارہ کرسکتے ہیں لیکن ایک ملک میں دو قسم کے ’’ٹراں ٹروں‘‘ نہیں چل پاتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیانات ہی بیانات رہی ہیں شروع کی میں بھی کے لیے
پڑھیں:
بجلی
ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔
ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔
اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔
پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔
لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔
بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔