Express News:
2025-12-13@23:13:58 GMT

دہشت گردی کے خاتمے کا عزم

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

سیکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان میں خفیہ اطلاع پرکامیاب کارروائی کرتے ہوئے 30 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ سیکیورٹی فورسز نے ضلع سراروغہ میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا، اس دوران دہشت گردوں کے ٹھکانے کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا، علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فورسزکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فورسز ہر دن دہشت گردی کے مکمل سدباب کے ہدف کے قریب تر جا رہی ہیں۔ قوم کے بیٹوں کی عظیم قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی۔

 بلاشبہ ہماری سیکیورٹی فورسز دہشت گرد عناصر کے مذموم عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہیں اور ان کے خلاف کامیاب کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاک فوج نے جس طرح ماضی میں پاک وطن کو امن کا گہوارہ بنایا تھا، آیندہ بھی ایسے ہی اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کا عزم ہمیشہ فولادی اور غیر متزلزل رہا جو خطے اور عالمگیر امن کی خاطر اس کے انتھک ارادے اور ثابت قدمی کی روشن دلیل ہے۔

 درحقیقت افغان طالبان پر تشدد کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ (افغان) طالبان حکام کا ٹی ٹی پی پر لگام ڈالنے سے انکار ہے، جب کہ یہ تنظیم وہاں سے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، دوسری جانب بلوچستان میں تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک بیرونی کوشش معلوم ہوتی ہے۔

افغانستان میں طالبان حکام ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کے لیے لاجسٹک اسپیس فراہم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی سے پاکستان، ایران سمیت پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، طالبان کی عبوری حکومت کے آنے کے بعد گزشتہ 4 برس میں پاکستان میں دہشت گردی کے 600 کے قریب حملے ہوئے ہیں، افغانستان میں اس وقت القاعدہ اور داعش کے گروہ، بی ایل اے کا مجید بریگیڈ گروپ سرگرم ہیں۔

روس، چین اور پاکستان کا افغانستان میں کردار اہم ہے۔ افغانستان میں کچھ بھی ہو تو اس کے اثرات پاکستان، روس اور ایران پر ضرور آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد دیکھنا پڑے گا کہ یہ ممالک اب کیا کرتے ہیں، اس حوالے سے پاکستان نے آواز اٹھائی ہے۔ افغان طالبان کے پاس وسائل اور اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی کارروائیاں کرسکیں، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو بھی بھارت بھاری فنڈنگ کر رہا ہے، کروڑوں ڈالرز کا جدید امریکی اسلحہ القاعدہ اور طالبان حکومت کے پاس موجود ہے۔

آج کل خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے ٹریننگ کیمپ پاکستان سے باہر ہیں، یہ لوگ سیکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں۔ 2020کے قریب پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشت گردی پر قابو پا لیا تھا مگر 15اگست 2021میں افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھ آیا اور ہزاروں افراد کو رہا کیا گیا تو دوبارہ دھماکے شروع ہو گئے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں زیادہ تر بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں دیکھنے میں آرہی ہیں جہاں ملک دشمن عناصر علیحدگی کی تحریک میں ملوث ہیں جنھیں بھارت اور افغانستان کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ کابل انتظامیہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں اور خوارج کی نہ صرف بھر پور سر پرستی کر رہی ہے بلکہ انھیں افغانستان میں امریکا کا چھوڑا گیا جدید اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے جسے دہشت گرد ہماری سیکیورٹی فورسز کے خلا ف استعمال کر رہے ہیں۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔

بی ایل اے اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کا آپس میں اتحاد ہے اور ان کا ایجنڈا پاکستان کی وحدت و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ امریکا افغانستان سے نکلتے ہو ئے جو اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا تھا وہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، بی ایل ایف اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ خیبر پختونخوا میں ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور معمولاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے حالیہ واقعات اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستان کے دشمن ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ بلوچ قومیت کے نام پر جس طرح دہشت گردی کی جا رہی ہے اس سے عام بلوچ شہری کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں مٹھی بھر عناصر شامل ہیں جو بھارت کی شہ، اسلحہ اور پیسہ ملنے کی بنا پر اس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

 اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان بدستور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردوں کے حملے بڑھ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے، 2024کے دوران اس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے جن میں سے کئی افغان سر زمین سے کیے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ 43 ہزار ڈالرز فراہم کر رہے ہیں، تنظیم نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی، القاعدہ برِصغیر (AQIS) اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں مل کر ’تحریکِ جہاد پاکستان‘ (ٹی جے پی) کے بینر تلے حملے کر رہی ہیں جس سے یہ تنظیم علاقائی دہشت گرد گروپوں کا مرکز بن سکتی ہے۔پاکستان میں سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں مارے جانے والے دہشت گردوں میں افغان شہریوں کی شناخت سامنے آنے کے باوجود افغان عبوری حکومت تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھی کہ پاکستان میں معصوم لوگوں اور فوج کی سرحدوں پر قائم چوکیوں پر حملے افغانستان سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔

افغان عبوری حکومت کی اسی ہٹ دھرمی اور بلوچستان، کے پی کے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ہی پاکستان کی حکومت نے غیر قانونی طورپر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کو اکتوبر 2023میں 30دن کے اندر اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ کیونکہ پاکستان کے عوام میں افغان مہاجرین کے خلاف اشتعال بڑھتا جارہا تھا۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی دو وجوہات تھی۔ ایک تو دہشت گردوں کی ملک میں سہولت کاری میں افغان مہاجرین ملوث پائے گئے تھے۔

علاوہ ازیں مارے گئے دہشت گردوں کی بطور افغان شہری شناخت کے باوجود کابل میں افغان طالبان کی ’’میں نہ مانوں‘‘ پر مبنی پالیسی بھی پاکستانی عوام میں غصے کا سبب تھی۔ اوپر سے افغان مہاجرین بڑے پیمانے پر پاکستان سے ڈالر افغانستان اسمگل کرنے میں پائے گئے تھے جس کی باقاعدہ وڈیوز تیار کرکے سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتیں اور پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا۔ پاکستان میں یقیناً خونریزی کے ساتھ یہاں سے ڈالروں کی شکل میں کرنسی کی منتقلی بھی معاشی دہشت گردی سے کم نہیں تھی۔

پاکستان کے عوام حق بجانب تھے کہ اگر افغانستان میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوچکی ہیں اور افغان کرنسی پاکستانی روپے کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم ہے تو پھر 4 ملین سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان سے چلے کیوں نہیں جاتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد جب عرب ریاستوں یا مغربی ممالک کا رخ کرتے تو پاکستان کا احسان مند ہونے کے بجائے باہر کے ملکوں میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف شر انگیز بیان بازی کرتے۔ افغان عبوری حکومت نے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث عناصر کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کر رکھے ہیں اور افغانستان کی زمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔

ملک بھر میں بگڑتی ہوئی امن و امان اور سیکیورٹی کی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنا ناگزیر ہو چکا ہے مگر عسکری قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمے داریوں کا بوجھ اُٹھانا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان میں سیکیورٹی اداروں، وفاق اور صوبائی حکومتوں سب کی ذمے داریاں متعین ہیں۔ ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے یکسوئی اختیارکرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں دہشت سیکیورٹی فورسز افغانستان میں افغان مہاجرین افغان طالبان دہشت گردی کے عبوری حکومت پاکستان کے کہ پاکستان کر رہے ہیں میں افغان بی ایل اے متحدہ کی فراہم کر ٹی ٹی پی کے خلاف رہی ہے ہی ہیں

پڑھیں:

افغانستان سے دہشت گردی کا نیا خطرہ اٹھ رہا ہے، وزیراعظم،پیوٹن اور اردوان سے ملاقات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251213-01-28

 

 

اشک آباد (خبر ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے، عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلیے دبائو ڈالے۔ترکمانستان کی مستقل غیر جانبداری کی 30 سالہ سالگرہ پر منعقدہ عالمی فورم سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ قطر، ترکیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران کے جنگ بندی کیلیے تعاون پر ممنون ہیں، تنازعات کا پر امن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی

ستون ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حمایت سے غزہ امن منصوبہ منظور ہوا، سلامتی کونسل کی قرارداد پاکستان کے وژن کی تائید ہے، آٹھ عرب اسلامی ممالک کے رکن کی حیثیت سے پاکستان کا امن مشن میں کردار ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دیرپا جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی ضروری ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ترکمانستان کو اسکی غیر جانبداری کی سالگرہ کے 30 سال مکمل ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں، اشک آباد کے شاندار شہر میں ہونا میرے لیے باعث مسرت ہے، سفید سنگ مرمر کی خوبصورتی اور ترکمان عوام کی گرمجوشی قابل تعریف ہے۔قبل ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کی صبح عالمی رہنمائوں کے ساتھ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت ’’یادگار غیرجانبداری‘‘ کا دورہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں یادگار غیرجانبداری پر پھول چڑھائے۔ اس موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان اور ترکمانستان کے صدر بردی محمدوف سمیت متعدد عالمی رہنما بھی موجود تھے جن سے وزیراعظم کا خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ ’’یادگار غیرجانبداری‘‘ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت ہے۔ فورم کے موقع پر وزیراعظم نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان، ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پیزشکیان،تاجک صدر امام علی رحمان اور کرغیزستان کے صدر سادر جپاروف سے غیر رسمی اور خوشگوار ملاقاتیں کیں۔اشک آباد میں منعقدہ فورم کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان اہم ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی تعاون اور سرمایہ کاری پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم نے پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور توانائی، پیٹرولیم، معدنیات، سیاسی و دفاعی تعاون اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں بڑھتی ہوئی شراکت داری کو سراہا۔وزیراعظم نے پاکستان میں بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری میں ترکی کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ظاہر کی جبکہ دونوں رہنماؤں نے جلد وزارتی سطح کے تبادلوں پر اتفاق کیا۔اس کے علاوہ ملاقات میں اسلام آباد، تہران، استنبول ریل نیٹ ورک کی بحالی پر بھی گفتگو ہوئی۔وزیراعظم نے غزہ میں امن کی کوششوں کیلئے صدر اردوان کی جرات مندانہ قیادت کو خراجِ تحسین پیش کیا اور افغانستان سے پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خدشات پر بھی بات چیت کی۔صدر ایردوان نے پاکستان کے ساتھ تعاون مزید بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ایرانی صدرپیزشکیان نے کہا کہ ایران پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ملاقات پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی اور برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتی ہے جو ان کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور عقیدے سے جڑے ہوئے ہیں۔دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے باقاعدہ اعلیٰ سطحی ملاقاتیں اور مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم نے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے لیے تہہ دل سے تہنیتی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی برادری کو درپیش بڑے چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی، غربت اور عدم مساوات دنیا کے بڑے خطرات ہیں۔پاکستان عالمی امن و سلامتی کے فروغ کیلیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔

 

 

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  • افغانستان اور دہشت گردی
  • افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خدشات پر ہمسایہ ممالک کی اہم کانفرنس کل تہران میں
  • افغانستان سے دہشت گردی کا نیا خطرہ اٹھ رہا ہے، وزیراعظم،پیوٹن اور اردوان سے ملاقات
  • افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہے‘ پاکستان
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • پاکستان کا افغان طالبان سے تحریری ضمانتوں کا مطالبہ—بھارت کی ریاستی دہشت گردی بے نقاب، دفترِ خارجہ کا دوٹوک اعلان!
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پاکستان کیلئے سنگین خطرہ ہے:عاصم افتخار  
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے،پاکستان
  • افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے: عاصم افتخار