ویب ڈیسک _ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ادویات، گاڑیوں اور سیمی کنڈکٹرز کی درآمد پر 25 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے منگل کو فلوریڈا میں واقع اپنی رہائش گاہ مارا لاگو میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فارماسوٹیکل اور سیمی کنڈکٹرز چپس پر صنعتی ٹیرف 25 فی صد یا اس سے زائد سے شروع ہو گا جو ایک سال کے دوران آہستہ آہستہ بڑھے گا۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ فارماسوٹیکل سیکٹر اور چپس سازی پر ٹیکس کب لگایا جائے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ادویات اور چپس بنانے والوں کو امریکہ میں فیکٹریاں لگانے کے لیے کچھ وقت دیا جائے تاکہ انہیں ٹیرف سے بچایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ دنیا کی بعض بڑی کمپنیاں آئندہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ میں نئی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کریں گی۔

صدر ٹرمپ نے اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

یوکرین جنگ پر روس، امریکہ مذاکرات پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یوکرین کو شامل نہ کرنے کی شکایات کو رد کر دیا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ "میرا خیال ہے کہ میں اس جنگ کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے۔”

یوکرین کا نام لیے بغیر صدر کا کہنا تھا کہ آج میں نے سنا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ "ہمیں نہیں بلایا گیا” میں یہ کہتا ہوں کہ آپ تین سال میں یہ جنگ ختم کرا سکتے تھے۔

صدر ٹرمپ کے بقول "آپ کو کبھی یہ شروع نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آپ معاہدہ کرسکتے تھے۔ میں یوکرین کے لیے معاہدہ کر سکتا تھا۔”




صدر ٹرمپ گزشتہ ماہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک چین سے درآمد ہونے والی تمام اشیا پر 10 فی صد ٹیکس جب کہ میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد ہونے والی اشیا پر 25 فی صد ٹیکس کا اعلان کر چکے ہیں۔

البتہ صدر نے میکسیکو اور کینیڈا پر 25 فی صد ٹیرف کو ایک ماہ کے لیے مؤخر کیا ہے۔

انہوں نے یورپی یونین، کینیڈا اور میکسیکو سے درآمد ہونے والی ایلومینیم اور اسٹیل پر 25 فی صد ٹیکس کا اعلان کر رکھا ہے جس پر 12 مارچ سے عمل درآمد ہونا ہے۔

صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اپنی معاشی ٹیم کو ہدایت کی تھی وہ ایسا منصوبہ تیار کریں جس کے تحت امریکہ سے تجارت کرنے والے ممالک کی اشیا پر اتنا ہی ٹیکس عائد کیا جائے جتنا وہ امریکی مصنوعات پر لگاتے ہیں۔

واضح رہے کہ یورپی یونین گاڑیوں کی درآمد پر 10 فی صد ٹیکس عائد کرتی ہے جو امریکہ میں درآمد ہونے والی گاڑیوں کے مقابلے میں تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔

یورپی یونین کے ٹریڈ چیف ماروس سیفکووک، نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر اور دیگر حکام بدھ کو دورۂ واشنگٹن کے دوران امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹنک سے ملاقات کریں گے اور صدر ٹرمپ کی جانب سے حالیہ ٹیرف انتباہ پر بات چیت کریں گے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: درآمد ہونے والی فی صد ٹیکس پر 25 فی صد کہ میں

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت
  • ٹیرف جنگ کے تناظر میں اتحادیوں کا امریکہ پر اعتماد انتہائی کم ہو چکا ہے، چینی میڈیا
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • ٹیرف کے اعلان کے بعد تجارتی معاہدے پر مذاکرات، امریکی نائب صدر کا دورہ انڈیا
  • ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے