ٹرمپ انتظامیہ کا مشترکہ مقاصدکے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں امریکی ناظم الامور نتالی بیکر نے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا پیغام پہنچایا ۔ صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت سے ان کی انتظامیہ کا یہ پہلا رابطہ ہے۔
وزیر اعظم آفس سے اس ضمن میں جاری ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا ہے کہ پاک امریکا تعاون کی تاریخ عشروں پر محیط ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بڑی خواہش رکھتے ہیں۔
اس ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں جن میں آئی ٹی، زراعت ، صحت، تعلیم اور انرجی کے علاوہ باہمی دلچسپی کے دیگر معاملات میں تعاون کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اس ملاقات میں انسداد دہشتگردی خاص طور پر داعش اور فتنہ الخوارج کے خاتمے کے لیے بھی قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق امریکی ناظم الامور نے ملاقات پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ ان کا ملک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔
پاکستان جو کبھی امریکا کا قریبی اتحادی تھا کچھ عرصے سے امریکا کی ترجیح نہیں رہا تھا، صدر ٹرمپ نے بھی اقتدار سنبھالنے کے چند دنوں کے اندر ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطہ کر کے انہیں دورے کی دعوت تھی ۔دوسری طرف پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر رابطہ بھی نہیں کیا تھا۔
اب امریکی ناظم الامور کی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات سے لگتا ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے وگرنہ وزیر اعظم یوں کسی ملک کے ناظم الامور سے کم ہی ملتے ہیں۔
اگر چہ پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ چلنے کی خواہش کا پہلے بھی اظہار کر چکا ہے ، تاہم اسے نئی امریکی حکومت کی بعض پالیسیوں سے اختلاف تھا، خاص طور پر پاکستان افغان مہاجرین کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر تشویش میں مبتلا ہے۔
صدر بائیڈن کی سابق انتظامیہ افغان جنگ کے دوران امریکا سے تعاون کرنے والے ہزاروں افغانوں کو لینے پر آمادہ تھی، یہ افغان اس وقت پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان افغانوں کی امریکا منتقلی کا عمل سست روی کا شکار ہے ۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکا 2025ء تک ان افغانوں کو اپنے ملک منتقل کر دے گا، لیکن صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کم از کم 90 دنوں کے لیے ان افغانوں کی امریکا منتقلی کے پروگرام کو روک دیا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا ان تقریباً 25 ہزار افغانوں کی امریکا منتقلی کے عمل کو تیز کرے۔
وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی ناظم الامور کی اس ملاقات میں ان افغانوں کی امریکا منتقلی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے یا نہیں، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی اس ملاقات کا حصہ تھی۔ اس وقت امریکی انتظامیہ نے نہ صرف پاکستان میں پھنسے ہوئے افغانوں کی اپنے ملک منتقلی روک رکھی ہے بلکہ بیرونی امداد بھی بند کر دی ہے ۔ لہذاپاکستان میں امریکی سفارتخانے کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ ان افغانوں کے اخراجات برداشت کر سکے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے فنڈز روکنے کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا
امریکہ کی سب سے باوقار اور ممتاز سمجھی جانے والی ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کو باضابطہ طور پر عدالت میں چیلنج کیا ہے جس کے تحت پچھلے دنوں ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے 2.2 ارب ڈالر کی گرانٹ روکنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ ہارورڈ یونیورسٹی میں غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازں پر سخت ناراض ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس سلسلسے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے گرانٹس کو روکنے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے ساتھ کیے گئے فیڈرل گورنمنٹ کے کیے گئے معاہدے ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی کی غیر ملکی طلبہ کو داخلے دینے کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کو غیر ملکیوں کو داخلے دینے سے روک سکتی ہے۔
تاہم ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر الان گاربر نے کہا ہے کہ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے ان مطالبات کے سامنے نہیں جھکے گی۔
یونیورسٹی صدر کے اس اعلان کے سامنے آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کے لیے اربوں ڈالرز کے فنڈز منجمد کر دیے۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکیوں کی زندگیاں بچانے اور امریکی سلامتی کے لیے کیا گیا ہے۔ مگر ہارورڈ یونیورسٹی اس امریکی دعوے کو مسترد کرتی ہے۔
صدر جامعہ نے عدالت کے سامنے پیش کردہ اپنی درخواست میں لکھا ہے ‘ حکومت نے ایسا کیا ہے نہ ایسا کر سکتی ہے کہ وہ ان الزامات کے حق میں کوئی منطقی تعلق پیدا کر کے ظاہر کر سکے۔ جو یونیورسٹی پر عائد کیے گئے ہوں کہ یونیورسٹی میں یہود مخالف سرگرمیاں جاری ہیں۔ حکومتی لازما بےبنیاد ہے۔ جبکہ حکومت نے یونیورسٹی میں ہونے والی میڈیکل سے متعلق تحقیقات کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں کی جانے والی تحقیقات کو فنڈز معطل کر کے روکنے کی کوشش کی ہے۔’
‘حتیٰ کہ حکومت اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ اربوں ڈالر کی روکی گئی اس رقم سے یونیورسٹی کے تحقیقی پروگراموں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور جن لوگوں کو یونیورسٹی کے ان تحقیقی منصوبوں سے فائدہ ہوتا ہے ان پر کیا اثرات آئیں گے۔ قومی مفادات کس طرح نقصان میں جائیں گے اور امریکہ میں ایجادات کی ترقی کا سفر کس قدر متاثر ہوگا۔ ‘
امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے 11 اپریل کو لکھے گئے خط میں کہا تھا ‘ہارورڈ یونیورسٹی کو اپنے ہاں شدت پسندانہ نظم و ضبط نافذ کرنا چاہیے۔ تاکہ ان احتجاجی طلبہ کو نکال باہر کیا جائے جو باہر کے ملکوں سے آئے ہیں اور امریکی اقدار کے دشمن ہیں۔ ‘
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ یونیورسٹی میں اس ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے قیادت کی سطح پر زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ داخلہ پالیسی کو بدلنے کی ضرورت ہے اور مختلف فیکیلٹیز میں آڈٹ کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس کی باڈیز کو کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ نیز یونیورسٹی کو چاہیے کہ وہ کئی متوقع اقدامات کرے۔
تاہم پیر کے روز یونیورسٹی انتظامیہ نے کھلے لفظوں میں انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ حکومت کے اس حکم کی بجا آوری نہیں کریں گے۔ کیونکہ آئین کی پہلی ترمیم ان کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اسی کے تحت یونیورسٹی کو ٹیکسوں سے استثناء بھی حاصل ہے۔
یاد رہے ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ذمہ داروں کے علاوہ خود صدر ٹرمپ بھی ہارورڈ یونیورسٹی کے بارے میں سخت تبصرے کرتے ہوئے انتباہ کا انداز اختیار کر چکے ہیں۔ جبکہ ہارورڈ کے ساتھ ساتھ باقی امریکی یونیورسٹیوں کے بارے میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ مخاصمانہ سمجھا جا رہا ہے۔ جس سے یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
ہارورڈ کے صدر گاربر نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں لکھا ‘ہم ان اقدار کے ساتھ کھڑے ہیں جو امریکہ کو اعلیٰ تعلیم کی طرف لے کر جانے والی ہیں اور دنیا کے لیے ایک مشعل کا کام کرتی ہیں۔ ہم اس سچائی کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ملک کے کالج اور یونیورسٹیاں معاشرے کے لیے اپنا ضروری کردار ادا کریں ۔ جبکہ حکومت ان میں مداخلت کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں اعلیٰ تعلیمی معیار اور ‘ایکسیلنس’ کیونکر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ‘
Post Views: 1