فیصل آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 فروری ۔2025 )پاکستان میں معیشت کو مضبوط بنانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول بہت ضروری ہے صنعت کارسلامت علی نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اتار چڑھاو تاجروں کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے وہ مستقبل کا لائحہ عمل وضع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں توانائی کی قیمت کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ایک اور سب سے بڑا چیلنج متضاد ریگولیٹری فریم ورک تھا انہوں نے کہا کہ پالیسی ساز اکثر حقیقی اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کیے بغیر پالیسیوں، ٹیکسوں اور ٹیرف میں تبدیلی کرتے ہیں ایسے میں نہ تو قومی اور نہ ہی بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان میں اپنا پیسہ لگانا پسند کریں گے.

انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں متواتر تبدیلیوں نے پوری سپلائی چین کو درہم برہم کر دیا ہے جس سے اخراجات بڑھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بے لگام مہنگائی کی وجہ سے ملرز کو اپنے کاروبار کو رواں دواں رکھنے کے لیے فنانس کی اشد ضرورت ہے انہوں نے نشاندہی کی کہ بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے قرضوں کا حصول ایک مشکل کام تھا.

انہوں نے کہا کہ شرح سود اب بھی بہت زیادہ ہے اور قرضوں کے حصول کے لیے تقاضے سخت ہیں ان رکاوٹوں کی وجہ سے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں ترقی اور اختراع کے لیے سرمایہ کاری نہیں کرتے . برآمد کنندہ امین احمد نے بتایا کہ ملک میں سرمایہ کاری کا موجودہ ماحول خاص طور پر برآمد کنندگان کے لیے مثالی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں سرمایہ کاروں نے ملک کے ٹیکسٹائل سیکٹر میں اپنی مرضی سے سرمایہ کاری کی تاہم اب وہ اپنی رقم خطرے میں ڈالنے سے ہچکچا رہے ہیں انہوںنے کہا کہ توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات منافع کو کھا رہے ہیں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو توڑ رہے ہیں ان دیرینہ مسائل کی وجہ سے برآمد کنندگان کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ ہماری قیمتیں دیگر ممالک کے مقابلے بہت زیادہ ہیں.

انہوں نے کہا کہ بیوروکریٹک رکاوٹیں بھی کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کر رہی ہیں جس سے برآمد کنندگان کو اپنی کھیپ بروقت بھیجنا مشکل ہو رہا ہے انہوں نے زور دیا کہ وہ کسٹم کے بوجھل طریقہ کار پر نظرثانی کریںجو طویل ہیں اور تاخیر کا سبب بنتے ہیں انہوں نے کہا کہ ترسیل میں تاخیر برآمد کنندگان کے اپنے غیر ملکی خریداروں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا رہی ہے اگر ہم ٹیکسٹائل کے شعبے میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو حکومت کو برآمد کنندگان کو نئی منڈیوں کی تلاش میں مدد کرنی چاہیے اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانی مصنوعات کی تشہیر کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کیے جائیں.

سرکاری یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر اشرف علی نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں نے ملک میں سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہم دوستانہ پالیسیاں متعارف کروا کر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ مستحکم ریگولیٹری فریم ورک کے بغیر کاروبار ترقی نہیں کر سکتے انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنے کے لیے درآمدات اور برآمدات کے لیے واضح پالیسیاں ناگزیر ہیں.

انہوں نے سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی فراہمی جیسے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ قابل اعتماد انفراسٹرکچر کو یقینی بنائے بغیر کاروباری پیداواری صلاحیت میں اضافہ ممکن نہیں انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے مراعات کا اعلان کرے ہمیں ان سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کرنی چاہیے جو نئی ٹیکنالوجیز لاتے ہیں اور ملازمتیں پیدا کرتے ہیں ہم ان کو ٹیکس کی چھوٹ یا کم ٹیرف کے ذریعے ترغیب دے سکتے ہیں.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان سرمایہ کاروں ہیں انہوں نے سرمایہ کاری کی وجہ سے رہے ہیں ہیں ان کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ

پاکستان اور افغانستان، دو ہمسائے جنہیں فطرت نے جوڑا، مگر تاریخ اور سیاست نے اکثر جدا رکھا۔ یہ محض دو ممالک نہیں، بلکہ دو تہذیبوں، دو قوموں، دو مشترکہ دکھوں کی داستان ہے۔ ایک وہ، جو کبھی دروازہ کھول کر مہمان نوازی کرتا رہا؛ دوسرا وہ، جو ہر بار بدلتے نظام میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسروں پر شک کرتا رہا۔ مگر اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان تعلقات کو نئی آنکھ سے دیکھیں،ایک ایسی نگاہ جو صرف ماضی کی گرد نہ دیکھے، بلکہ مستقبل کی روشنی تلاش کرے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔ مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی، اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔ پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جبکہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں، اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصور کرتی ہیں۔

پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں۔ مگر افغانستان کی پشتون قوم پرستانہ سوچ، اور ‘پشتونستان’ کے خواب نے ان تعلقات میں بداعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق

1979 سے 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹریٹجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔ تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ 2001 کے بعد، جب طالبان کو اقتدار سے ہٹا کر کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں لائی گئیں، تو توقع تھی کہ کابل پاکستان کا شکر گزار ہو گا۔ مگر اس کے برعکس، وہی کابل اسلام آباد کو خطے میں خرابی کی جڑ سمجھنے لگا۔

پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ وہ طالبان کی پناہ گاہ ہے، افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ پاکستان کو قرار دیا گیا، جبکہ بھارت کی موجودگی اور افغانستان کی داخلی بدانتظامی کو نظرانداز کیا گیا۔ پاکستان نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔

2021 میں طالبان کی واپسی ایک موقع تھا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں نئی جہت پیدا کریں۔ مگر افسوس، طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے سے انکار کیا، اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ساتھ اپنی قربت کو کم کرنے سے گریز کیا۔ 2022 کے بعد پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں جو اضافہ ہوا، اُس کے واضح سراغ افغان سرزمین کی طرف جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق

افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کا بھی ایک تناظر ہے۔ پاکستان اس وقت بھی 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا میزبان ہے، جن میں لاکھوں بغیر کاغذات کے مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انہی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر پاکستان ایک واضح پالیسی کے تحت مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کرتا ہے، تو اسے سیاسی انتقام قرار دینا انصاف نہیں۔

تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان-پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔ تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پر کرپشن اور بدسلوکی کے الزامات ،یہ تمام ایسے امور ہیں جنہیں افغان فریق اپنی جائز شکایات کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹریٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔

پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آئندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے، مگر کابل کی جانب سے سنجیدگی کی کمی رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان سے بات چیت سود مند نہیں ہوگی، بیرسٹر سیف

اس سب کے باوجود، امید کی کچھ کرنیں باقی ہیں۔ 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا، تو یہ معاشی تعاون دوطرفہ اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دونوں فریقوں نے سرحدی روابط کو بہتر بنانے، اور مشترکہ تجارتی انتظامات پر بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔

حل کیا ہے؟

پہلا قدم: ایک مستقل، فعال، اور بااختیار پاک-افغان رابطہ کمیٹی کا قیام، جو صرف بحران کے وقت نہیں بلکہ مسلسل رابطے میں رہے۔

دوسرا قدم: عوامی سطح پر ثقافتی اور علمی تبادلے، جن میں نوجوان، اساتذہ، اور علما شامل ہوں۔

تیسرا قدم: دہشت گردی کے خلاف مشترکہ انٹیلیجنس اور آپریشنل تعاون، جس میں طالبان کو بھی اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔

چوتھا قدم: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک۔

پانچواں قدم: کابل دریا پر ایک باقاعدہ آبی معاہدہ، جس میں دونوں فریق کی ضروریات اور خدشات شامل ہوں۔

مزید پڑھیں:  اسحاق ڈار کا پہلا دورہ افغانستان، اہم کیا ہے؟

پاکستان اور افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہی نہیں، بلکہ جغرافیائی تقدیر کا حصہ ہیں۔ دشمنی یا بداعتمادی کا تسلسل نہ صرف دونوں قوموں کو نقصان پہنچائے گا، بلکہ پورے خطے میں ترقی اور امن کی راہ روک دے گا۔ پاکستان کی ریاست، افواج اور عوام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن اس امن کی قیمت قومی سلامتی پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔

اب فیصلہ کابل کو کرنا ہے، وہ پاکستان کے ساتھ ایک باعزت تعلق چاہتا ہے یا مسلسل بداعتمادی کا اسیر رہنا چاہتا ہے۔ تاریخ نے ہر اُس قوم کو یاد رکھا ہے جس نے تعلقات کو عزت، وقار اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر استوار کیا۔ اب وقت ہے کہ افغانستان بھی یہی انتخاب کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد افغانستان بھارت پاکستان ٹی ٹی پی ڈیورنڈ لائین طالبان کابل

متعلقہ مضامین

  • یوتھ پالیسی کے تحت نوجوانوں کواقتدار کے عمل میں  شریک کیا جائے گا،امیرمقام
  • پنجاب غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ اور پرکشش مقام ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • سپلائی چین میں خامیاں پاکستان کے شہد کے شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں. ویلتھ پاک
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، وزیر مملکت طلال چودھری
  • پی ٹی آئی دورمیں محکمہ صحت پنجاب میں 6 ارب 23 کروڑ کی مبینہ خوردبرد
  • کینال منصوبوں سے سندھ اور پنجاب کے کسانوں کو نقصان ہوگا، سعید غنی
  • سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے پالیسی سازی کرینگے، سرفراز بگٹی
  • گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال سے چاول کی برآمدات بھی متاثر، 2 کروڑ ڈالر کا نقصان