پاکستانی ٹیم میں بھرپور ٹیلنٹ موجود ہے: کین ولیمسن
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے اہم بیٹر کین ولیمسن نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں میں پاکستان سے 2 میچز کھیلے، پاکستانی ٹیم میں بھرپور ٹیلنٹ موجود ہے۔
کین ولیمسن نے کہا کہ جو بھی کرکٹر پاکستان کی طرف سے فیلڈ پر آتا ہے وہ ورلڈ کلاس ہوتا ہے، پاکستان کے پاس تجربے کار کھلاڑی ہیں جو کچھ وقت سے کھیل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کپتان محمد رضوان، شاہین آفریدی اور بابر اعظم اچھے پلیئر ہیں جبکہ سلمان علی آغا اچھی فارم میں ہیں۔
کین ولیمسن نے مزید کہا کہ سلمان آغا پلیئر آف دی سیریز بھی ہوئے ہیں، ہمارے لیے اہم ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بیک کریں۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر نسیم شاہ نے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم مضبوط ہے، صرف ایک پلیئر کو ہدف نہیں بنا سکتے، نیوزی لینڈ کے کئی پلیئرز اس وقت اچھی فارم میں ہیں۔
نسیم شاہ نے کہا ہے کہ کین ولیمسن، ڈیرل مچل اور گلین فلپس اچھا کھیل رہے ہیں ان کی وکٹ اہم ہوگی، اگر ہم اہم موقع پر وکٹ لیں تو ٹیم کو فائدہ مل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو اس وقت اچھا کھیلے گا وہ جیتے گا۔
واضح رہے کہ چیمپئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ آج پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا جائے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نیوزی لینڈ کین ولیمسن نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن
ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ 78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔ ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔ یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔