چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
پاکستان گو کہ سہ فریقی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچ کر بھی میدان نہ مار سکا۔ لیکن اب اس ٹیم کا سب سے بڑا امتحان چیمپیئنز ٹرافی میں ہونے والا ہے جوکہ آج سے شروع ہورہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا اس ایونٹ کا افتتاحی میچ بھی نیوزی لینڈ سے ہی ہے۔ جس کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم سہ فریقی ٹورنامنٹ کے لیگ میچ اور فائنل میں شکست سے دوچار ہوئی تھی۔
یہ پے در پے ملنے والی ہار پاکستانی ٹیم کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکی ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہوچکا ہے۔ کھلاڑیوں کے انتخاب پر کئی سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ بالخصوص وہ کھلاڑی جنہیں ایک طویل عرصے بعد ٹیم کا حصہ بنایا۔ ان میں خوش دل شاہ اور فہیم اشرف کے نام نمایاں ہیں۔ لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ حالیہ سیریز کے 2میچز میں خوش دل شاہ کی پرفارمنس ایسی نہیں رہی کہ وہ خود اس پر ’خوش‘ ہوسکیں۔ اسی طرح فہیم اشرف کے متعلق کرکٹ کے کرتا دھرتا اس ’خوش فہمی‘ کا شکار ہیں کہ وہ آل راؤنڈر ہیں لیکن ان کا حال بھی خوش دل شاہ سے کم نہیں۔
انہی کے نقش قدم پر فاسٹ بالر محمد حسنین بھی چل رہے ہیں۔ اسی لیے خیال کیا جارہا ہے کہ اس بار چیمپیئنز ٹرافی میں اپنے ہی میدانوں پر پاکستانی ٹیم کو کڑی محنت کرنی پڑے گی۔ بلے بازوں کو پچ پر کھڑے ہو کر اپنی ذمے داری نبھانی پڑے گی۔ بولرز کے لیے بھی سخت آزمائش شروع ہونے والی ہے۔ جبکہ فیلڈرز نے جس طرح سہ فریقی ٹورنامنٹ کے فائنل میں کیچز ڈراپ کیے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فیلڈنگ کے شعبے میں پاکستان کی حالت تشویشناک ہے، لیکن توقعات اور امیدیں تو بلند ہیں۔
بات کی جائے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اب تک کے چیمپیئنز ٹرافی کے مقابلوں کی 1998سے 2017تک 23میچز کھیلے ہیں ان میں سے 12میں ناکامی ہوئی جبکہ 11میں دفاعی چیمپیئن پاکستان سرخرو رہا۔ پاکستان کا ان ایونٹ میں سب سے زیادہ اسکور 338رنز رہا ہے۔ جوکہ چیمپیئنز ٹرافی2017کے فائنل میں اس ٹیم نے بھارت کے خلاف بنایا تھا اور پہاڑ جیسا اسکور کھڑا کرنے کے بعد پاکستان ناصرف یہ میچ جیتا بلکہ فائنل کا بھی مقدر کا سکندر رہا۔ یہی نہیں اسی میچ میں 180رنز کی برتری سے جیت بھی پاکستان کی اب تک کی سب سے بڑے مارجن سے کامیابی تھی۔
بات کی جائے پاکستان کے کم تر اسکورکی تو یہ 2006میں بھارتی شہر موہالی میں جنوبی افریقا کے خلاف 89رنز بنا کر قائم کیا۔ بدقسمتی سے یہ میچ پاکستان ہار گیا۔ کم سے کم مارجن سے جیت کی بات کی جائے تو پاکستان اس معاملے میں 19رنز سے جیتا جوکہ 2017میں جنوبی افریقا کے خلاف تھا۔ وکٹ کے اعتبار سے ستمبر 2004میں بھارت کے خلاف 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی۔
پاکستان کے نمایاں بلے بازمحمد یوسف نے 13میچز کی 12اننگز میں 484رنز جوڑ کر پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان میں کوئی سینچری تو نہیں تھی لیکن 3نصف سینچریاں شامل ہیں۔ موجودہ کرکٹ ٹیم میں فخرزمان نمایاں ہیں جنہوں نے 4اننگز میں 252رنزبنائے ہیں۔ فخر زمان اس اعتبار سے 5ویں نمبر پر ہیں۔
بابراعظم نے بھی فخر زمان کی طرح ایک ہی چیمپئنز ٹرافی کھیلی جنہوں نے 5اننگز میں 133رنز جوڑے ہیں۔ انفرادی اسکور میں شعیب ملک 128رنز بنا کر اس معاملے میں پاکستان کے سبھی بلے بازوں سے آگے ہیں۔ شعیب ملک نے یہ بڑا مجموعہ بھارت کے خلاف 2009میں سنچورین کے میدان میں بنایا تھا۔ ان کے بعد دوسرے نمبر پر کوئی اور نہیں فخر زمان ہی ہیں جنہوں نے 2017کے فائنل میں 114رنز کا کارنامہ کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ کرکٹ ٹیم کے اسکواڈ میں فخر زمان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز ایسا نہیں جس نے چیمپیئنز ٹرافی میں سینچری بنائی ہو۔ پاکستان کی طرف سے اس معاملے میں سعید انور 2سینچریوں کے ساتھ سب پر بازی لے گئے ہیں۔
شاہد آفریدی چھکوں میں شعیب ملک صفر میں آگےبوم بوم آفریدی نے ایونٹ کے 13میچز میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 10چھکے مارے ہیں۔ دوسری طرف شعیب ملک کے نام کے ساتھ یہ منفرد ریکارڈ بھی ہے کہ وہ 3بار بغیر کھاتہ کھولے ڈریسنگ روم لوٹ گئے۔
بالنگ میں کون آگے؟ کس کا ریکارڈ بہتر؟سب سے زیادہ چھکے مارنے والے شاہد آفریدی کے پاس یہ منفرد اور اچھوتا ریکارڈ بھی ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 14 شکار کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہ اعزاز پانے کے لیے 13میچز کھیلے۔ شاہد آفریدی کی ان وکٹوں میں 11رنز کے بدلے 5وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی ہے۔ آفریدی نے یہ کارنامہ کینیا کے خلاف 2004میں برمنگھم میں قائم کیا تھا۔ اور وہ اس میچ کے بہترین کھلاڑی بھی رہے تھے۔
وکٹوں کے پیچھے بہترین کھلاڑیکامران اکمل، معین خان، سرفراز احمد اور راشد لطیف اس معاملے میں سرخرو رہے ہیں کہ انہوں نے وکٹوں کے عقب میں 14کھلاڑیوں کو دبوچا۔ جبکہ معین خان نے 10، سرفراز احمد نے 9جبکہ راشد لطیف نے 2شکار کیے ہیں۔ جہاں تک کامران اکمل کے 14شکار کی بات ہے تو ان میں 11کیچ اور3اسٹمپ شامل ہیں۔ یہ کامران اکمل ہی تھے جنہوں نے کسی میچ میں 5بلے بازوں کو وکٹوں کے پیچھے دبوچا تھا۔
یہ کارنامہ انہوں نے 2013میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اوول کے میدان پر بنایا۔ بطور فیلڈر شعیب ملک 9کیچ پکڑ چکے ہیں جبکہ موجودہ ٹیم میں بابراعظم کے ہاتھوں میں 4بلے باز کیچ تھما چکے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے شعیب ملک وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ 20میچز چیمپیئنز ٹرافی کے کھیلے ہیں۔ ان کے بعد محمد یوسف اور شاہد آفریدی کے میچز کی تعداد یکساں طور پر 13ہی ہے۔
سب سے اچھا کپتا ن کون؟
اس معاملے میں سرفراز احمد کا ریکارڈ دیگر کپتانوں سے خاصا بہتر ہے۔ جنہوں نے 5میچز میں قیادت کی اور صرف ایک میچ میں شکست ہوئی اور 4 میں کامیابی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی طرف سے اس معاملے میں پاکستانی ٹیم کے فائنل میں میں پاکستان شاہد آفریدی سب سے زیادہ شعیب ملک جنہوں نے کے خلاف رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور، ایف بی آر پر تجربہ کامیاب
ملک میں سول سروس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافے کیلئے بڑی اصلاحات لائی گئی ہیں اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کیلئے ایف بی آر میں ایک نئی پرفارمنس مینجمنٹ اسکیم متعارف کرائی گئی جسے سینٹرل سپیریئر سروسز کی تمام سروسز اور کیڈرز تک وسعت دی جائے گی تاکہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹس (پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹس) ’’پی ای آرز‘‘ کے موجودہ ناقص اور ہیرا پھیری پر مبنی نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سکیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے معاملے میں کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (جسے انکم ٹیکس گروپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے) کے 98 فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔گزشتہ نظام کے تحت، کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی 99؍ فیصد تعداد کو ان کی دیانتداری کے لحاظ سے بہترین (’’اے کیٹگری‘‘) قرار دیا جاتا تھا۔ نئے نظام کے تحت بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو دوسروں کے مقابلے بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔ کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے کے پیکیج کا ہر 6 ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کی دیگر تمام سروسز اور کیڈرز کیلئے ایف بی آر کے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کرے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام ملک کی سول سروسز کی کارکردگی اور اس کے موثر ہونے کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دے گا۔ نیا نظام موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا آئیڈیا ہے، جنہوں نے اپنی ٹیم کے تعاون سے پوری اسکیم کو ڈیزائن، اس کا تجربہ اور پھر کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ہر افسر کے گزشتہ 6 ماہ کے جائزے کے دوران اسے کامیابی سے نافذ کیا۔ ماضی میں تقریباً ہر افسر کو اس کی ساکھ اور کارکردگی سے قطع نظر ’’شاندار‘‘ ’’بہت اچھا‘‘ اور ’’بہت ایماندار‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب نئے نظام کے تحت، ’’اے‘‘ کیٹیگری سے ’’ای‘‘ کیگٹری تک کی ہر کیٹیگری میں 20؍ فیصد افسران ہوں گے جن کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔
نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ ایف بی آر کے معاملے میں، اے کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی ہے، بی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو تین گنا، سی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو دو گنا جبکہ ڈی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو ایک اضافی تنخواہ مل رہی ہے۔ای کیٹگری کے افسران کیلئے کوئی اضافی معاوضہ نہیں۔ اس اسکیم کا ہر 6؍ ماہ بعد انفرادی لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا۔ ایف بی آر کے افسران کے معاملے میں شاید ہی چند ارب روپے کا ہی اضافی بوجھ ہو۔ کارکردگی جانچنے کے اس نئے نظام کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے نہ اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی فرد، سینئر حتیٰ کہ حکمرانوں کی خواہشات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔ اس سسٹم کے تحت، پہلے ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجربہ کرکے اسکیم پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہر افسران کا 45 ساتھیوں (سینئرز، جونیئرز، سول سروس کے ساتھیوں اور بیچ میٹ) کے ذریعے ہر 6 ماہ بعد گمنام انداز سے فورسڈ رینکنگ سسٹم کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فورسڈ رینکنگ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 5 کیٹگریز میں ہر ایک میں20 فیصد افسران تک محدود رکھا جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سروس یا کیڈر میں 20 فیصد سے زیادہ ’’شاندار‘‘ کارکردگی والے افسران نہیں ہوں گے۔ 45 ساتھیوں کی شناخت کو مکمل طور پر گمنام رکھنے کیلئے جدید سائبر سیکیورٹی ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے اور سسٹم کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔ سسٹم تک رسائی چیئرمین ایف بی آر اور ایف بی آر کے تین ممبران کو ہو گی تاہم ان میں سے کوئی بھی شخص کسی افسر کی رپورٹ کو تبدیل یا اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ ایف بی آر کے تینوں ممبران ڈیٹا تک صرف مشترکہ انداز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اور ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے کسی بھی غیر مجاز حرکت یا سرگرمی کی اطلاع 5 مختلف افراد تک پہنچ جائے گی تاہم، رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی ممکن نہیں ہوگی۔45 افراد کو منتخب کرنے کیلئے ایک چار سطحوں پر مشتمل ایک طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اُس افسر کو ممکنہ طور پر جانتے ہیں جس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ دیانتداری پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تکنیکی ٹیم افسر کے کام کے معیار کا بھی جائزہ لے گی۔تکنیکی پینل، جس میں ایف بی آر کے ریٹائرڈ افسران اور دیگر ٹیکس پریکٹیشنرز شامل ہیں، ڈیجیٹائزڈ سسٹم کے ذریعے بے ترتیب (رینڈم) انداز سے منتخب کردہ افسران کے کام کے معیار کا جائزہ لے گا۔ ایف بی آر نے نئی حکومت کے تحت گزشتہ 6 ماہ سے اپنے تمام افسران کا جائزہ (اسیسمنٹ) کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔