Express News:
2025-04-22@18:55:20 GMT

دنیا سے مقابلہ!

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

چیف منسٹر پنجاب بلاشبہ دوسرے تمام وزرائے اعلیٰ سے زیادہ متحرّک ہیں۔ ان کے کئی نئے پروجیکٹ اچھے ہیں اور کئی بہت اچھے ہیں۔ ناجائز اور غیر قانونی تجاوزات ختم کرنا نہایت احسن اقدام ہے اور اس کی تعریف وتوصیف کی جانی چاہیے۔ چند روز پہلے وزیراعلیٰ نے وزیرِ تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ اسکولوں میں طلبا وطالبات کے لیے انگریزی میں بات چیت (conversation) کی کلاسیں شروع کی جائیں۔

اسی تقریر میں انھوں نے اس کی افادیّت بتاتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو انگریزی میں مہارت حاصل کرنا ہوگی‘‘۔ بے شک وہ دنیا بھر میں جاتی رہتی ہیں۔ انھوں نے باہر کے تعلیمی اداروں سے تعلیم بھی حاصل کی ہے، اس لیے وہ انگریزی بولنے کی اصل قدروقیمت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مگر ہمارے ہاں انگریزی بولنے کی جو اہمیّت سمجھی جاتی ہے، وہ حقیقت سے کہیں زیادہ ہے۔

 دنیا سے مقابلے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ علم اور ہنر۔ یعنی knowledge and skills۔ اگر ہمارے نوجوانوں کے پاس اپنے خاص شعبے کا علم بھی ہو اور مہارت بھی، تو ان کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوگی، پھر انگریزی میں عدمِ مہارت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہمارے ڈاکٹروں نے امریکا اور یورپ میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے اپنی انگریزی بول چال کی بنا پر نہیں بلکہ علم اور مہارت کی بنا پر قدرومنزلت حاصل کی ہے۔

میں کئی پاکستانی سرجن حضرات کو جانتا ہوں جو زیادہ روانی سے انگریزی نہیں بول سکتے مگر اپنے شعبے میں مہارت کی بنا پر انھیں وہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی پاکستانی نوجوان فرفر انگریزی بولتا ہے مگر وہ اچھا مکینک نہیں ہے تو اسے اس کی کمپنی نوکری سے نکال دے گی۔ دوسری طرف ایک اچھا پلمبر اگر انگریزی میں زیادہ مہارت نہیں رکھتا مگر اپنے کام کا ماہر ہے تو اسے اچھی سے اچھی نوکری ملے گی اور اس کی کمزور انگریزی اس کے روشن مستقبل کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔

کچھ عرصہ پہلے تک میں خود بھی یہی سمجھتا تھا کہ ترقی کرنے کے لیے انگریزی میں مہارت ضروری ہے مگر یورپ گھوم پھر کر دیکھا تو آنکھیں کھل گئیں۔ انگریزوں کے ہمسایہ ملک فرانس نے انگریزی کے بغیر ترقّی کا ہر زینہ طے کیا اوربہت سے شعبوں میں برطانیہ سے آگے نکل گیا۔ پھر جرمنی گیا تو انگریزی کی پامالی اور بے توقیری دیکھ کر مزید حیران اور پریشان ہوا۔ جرمنی انگریزی زبان کے بغیر، سب کو پچھاڑتا ہوا آگے نکل گیا اور آج وہ پورے یورپ کا چوہدری ہے جب کہ آپ کو وہاں کوئی سائن بورڈ انگریزی میں نہیں ملے گا۔

یہ بات پاکستانیوں کے لیے انتہائی حیران کن ہوگی اور وہ پوچھیں گے کہ جرمن انگریزی نہیں بول سکتے تو پھر ترقّی یافتہ کیسے ہو گئے؟ دراصل ہمارا ترقّی اور قابلیّت کا معیار وہی ہے جو ایک غلام قوم کا ہوتا ہے، ہم روانی سے انگریزی بولنے والے کو اسکالر سمجھ بیٹھتے ہیں اور انگریزی نہ بولنے والے جینوئن اسکالر کو کم پڑھا لکھّا سمجھتے ہیں۔

جاپان کو دیکھ لیجیے، وہ بھی مکمّل بربادی کے بعد انگریزی کی سیڑھی استعمال کیے بغیر دنیا کی معاشی سپر پاور بن گیا اور اب ہماری آنکھوں کے سامنے چین پورے یورپ بلکہ پوری دنیا کو روندتا ہوا آگے نکل گیا ہے۔ کیا انھوں نے اسکولوں میں انگریزی پڑھا کر ترقّی حاصل کی ہے؟ جواب ہے بالکل نہیں۔ انگریزی کی اہمیّت سے انکار نہیں، مگر چونکہ انگریزی اور انگریزوں سے مرعوبیّت ہمارے رگ وپے میں رچ بس گئی ہے اس لیے ہمارے ذہنوں میں انگریزی کی اہمیّت اس کی اصل قدروقیمت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔

 قومی زبان کی جو توہین ہمارے ملک میں ہورہی ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہمارا شدید قسم کا احساسِ کمتری ہے کہ ہم آج بھی اپنی قومی زبان کوکمتر اور قابض ملک کی زبان کو برتر سمجھتے ہیں۔ پنجابی ہو یا سندھی، پشتو ہو یا سرائیکی یا بلوچی کسی علاقائی زبان کی اہمیّت، قومی زبان جیسی نہیں ہوسکتی کیونکہ ان میں کوئی بھی تمام صوبوں اور علاقوں کے لیے رابطے کی زبان نہیں ہے۔ رابطے کی زبان یا تمام صوبوں کی زنجیر صرف اور صرف اردو ہے۔ اپنی زبان کی تحقیر کرنے والے اور غیروں کی زبان اور کلچر سے مرعوب ہونے والے دنیا کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔

دنیا کا مقابلہ اپنی زبان اور اپنے کلچر پر فخر کرنے والے ہی کرسکتے ہیں۔ اور دنیا میں عزّت بھی غیروں سے مرعوب نہ ہونے والوں ہی کی ہوتی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف ،سابق وزیراعظم، نواز شریف، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور عمران خان بھی یو این او کی جنرل اسمبلی میں انگریزی میں تقریریں کرتے رہے ہیں مگر ترکی کے خوددار لیڈر طیّب اردوان جنرل اسمبلی سے ہمیشہ ترکی زبان میں خطاب کرتے ہیں، پاکستانی سفیروں سے معلوم کرلیا جائے کہ عالمی سطح کے لیڈر اور ترقی یافتہ ممالک میں انگریزی بولنے والے پاکستانی لیڈروں کی زیادہ عزت کی جاتی ہے یا انگریزی کو مسترد کرکے اپنی قومی زبان میں تقریر کرنے والے طیّب اردوان کا زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔

دنیا میں اپنی زبانوں میں تقریریں کرنے والے خوددار افریقی اور لاطینی امریکا کے راہنماؤں کی قدر ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے والوں کو صرف استعمال کیا جاتا ہے ان کی عزّت نہیں کی جاتی۔ اِس وقت بھی ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں جس قدر انگریزی پڑھائی جارہی ہے اس سے ہمارے لوگ بیرونِ ملک جا کر اپنا مافی الضمیر بہت اچھی طرح بیان کرسکتے ہیں۔

نئی نسل اپنی قومی زبان سے ناآشنا ہورہی ہے، وہ نہ اردو پڑھ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے۔ اپنی قومی زبان سے ناآشنا نسل کیا پاکستانی قوم بن کر رہے گی؟ اس میں پاکستانیت کس قدر ہوگی؟ اس کی اپنی مسلم تہذیب، اپنی اقدار اور اپنے ملک سے کس قدر وابستگی ہوگی؟ اپنے عظیم ہیروز اور ان کے کارناموں سے ناواقفیّت کی بناء پر ان میں کیا چیز احساسِ تفاخر پیدا کرے گی؟ موجودہ حکومت سے تو یہ توقّع تھی کہ اردوکو دفتری اور عدالتی زبان بنانے کا اعلان کرے گی ، انگلش میڈیم اسکولوں میں اعلیٰ معیار کی اردو پڑھانے اور مقابلے کے امتحانوں میں اردو کے پرچے لازمی قرار دے گی کیونکہ نئی نسل کا اردو سے رشتہ ٹوٹ گیا تو ملک سے رشتہ بھی کمزور ہوجائے گا۔ ڈکٹیٹر مشرّف نے تعلیمی نصاب سے کس قدر قیمتی مواد نکلوادیا تھا۔ اس میں مفکّرِ پاکستان علامہ اقبالؒ کا کلام بھی تھا۔ ہمارے عظیم شہیدوں کے حالاتِ زندگی بھی تھے اور ہمارے عظیم ملّی اور قومی راہنماؤں کے بارے میں لکھے گئے مضامین بھی تھے، فوری طور پر وہ نصاب میں شامل کروائے جائیں۔

حکمران یقیناً جانتے ہوں گے کہ اردو ہمارے لیے کتنی اہم ہے۔ ہمارا تمام تر دینی، ملّی،تاریخی ادبی اور ثقافتی ورثہ اردو زبان میں ہے۔ اگر نوجوان اردو سے نابلد ہوگئے تو وہ میرؔ اور غالبؔ کی شاعری کی نزاکتوں اور لطافتوں سے ناآشنا رہیں گے، وہ فیضؔ اور فرازؔ کی غزلوں میںجھلکنے والی محبّت کی حدّت اور حلاوت سے نابلد رہیں گے۔

وہ احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، انور مسعود، مشتاق یوسفی، ضمیر جعفری، عطاء الحق قاسمی امجد اسلام اور اظہارالحق جیسے شاعروں اور ادیبوں سے ناواقف رہیں گے۔ اردو نہ پڑھ سکنے والے نہ نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ سکیں گے نہ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ سے اور نہ قراۃالعین کی لازوال تخلیق ’آگ کا دریا‘ سے اور نہ مختار مسعود کی "آوازِ دوست" سے واقف ہوں گے۔

وہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو جانتے ہی نہیں ہوں گے اور پھر وہ جدید مسلم تاریخ کے سب سے بڑے شاعر، مفکّر اور تصوّرِ پاکستان کے خالق حضرت علامہ اقبالؒ کی حیات آفرین شاعری سے بھی بالکل ناواقف ہوں گے۔ تو پھر ان کا پاکستان کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہوگا کہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور پاکستان تو ایسی مثلّث ہے جس کے معنی ایک ہی ہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ کلامِ الٰہی کو سمجھنے کے لیے اردو سے ناآشنا نسل نہ مولانا مودودیؒ کی تفسیر سے راہنمائی لے سکے گی نہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے۔ وہ نہ ہی مولانا امین احسن اصلاحیؒ، جاوید غامدی اور بیسیوں دوسرے جیّد اسکالرز کی تحریریں پڑھ کر کتابِ حق کا اصل پیغام سمجھ سکے گی۔ ادب، شعر، فلسفہ، تاریخ اور مذہب پر اردو میں لکھی گئی ہزارہا کتابوں سے وہ لاعلم رہے گی لہٰذا لارڈ میکالے کے بقول "ایسی نسل شکل سے تو ہندوستانی (یا پاکستانی) ہوگی مگر اس کی سوچ پاکستانی قطعاً نہیں رہے گی" کیا قومیں اس طرح ترقی کرتی ہیں؟ ترقّی تو دور کی بات ہے اس طرح تو قومیں بنتی ہی نہیں ہیں!! دنیا کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے اور اس کے لیے کس چیز سے مسلّح ہونے کی ضرورت ہے یہ جاننے کے لیے دانائے راز اقبالؒ سے راہنمائی حاصل کریں۔

انھوں نے کہا تھا یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم۔ اپنے نظرئیے اور عقیدے پر غیر متزلزل ایمان اور اس کے بعد جہدِ مسلسل۔ ایسی محنتِ پیہم جس میں رات کے چراغ کے ساتھ خونِ جگر بھی جلایا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر نغمے خام اور نقش ناتمام رہتے ہیں۔ آپ نے اسکولوں میں کیریکٹر بلڈنگ کی بات کی ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ کیریکٹر میں سب سے اہم خوبی ایمانداری ہے اور خودداری ہے۔ انھیں رزقِ حلال پر قناعت کرنے، ہر حال میں سچ بولنے، قانون کا احترام کرنے، منشیات اور جرائم سے نفرت کرنے اور سادہ طرزِ زندگی اپنانے کی تربیّت دینے کی ضرورت ہے، تقریر اور لیکچر اپنی جگہ مگر نوجوان متاثر اپنے لیڈروں کا عمل دیکھ کر ہی ہوں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنی قومی زبان انگریزی بولنے اسکولوں میں انگریزی کی سے ناا شنا کرنے والے انھوں نے کے لیے ا کی زبان جاتا ہے اور اس ہے اور اہمی ت ہوں گے

پڑھیں:

سوشل میڈیا کی ڈگڈگی

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔

دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔

البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،

 Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,

Generation Z

یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔

چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔

دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔

زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔

حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔

چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جامعہ اردو کراچی میں آئی ایس او کی احتجاجی ریلی
  • دہشت گردوں سے لڑنا نہیں بیانیے کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، انوارالحق کاکڑ
  • کے پی ٹی میں ہو رہی لوٹ مار کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا، خواجہ آصف
  • اے آئی نے چاہت اور بابراعظم کا مقابلہ کرواڈالا؛ ویڈیو پر مداح حیران
  • فکر اقبال سے رہنمائی حاصل کر کے مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے: احسن اقبال
  • زباں فہمی نمبر245؛کشمیر اور اُردو (حصہ اوّل)
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی