چیمپیئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ: پاکستان اور نیوزی لینڈ نے کمر کس لی
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
پاکستان میں تقریباً 3 دہائیوں بعد آئی سی سی کے کسی ایونٹ کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جس کے لیے ملک کے 3 انٹرنیشنل اسٹیڈیمز میں بھرپور تیاریاں کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی میں نیوزی لینڈ کے خلاف اوپننگ کون کرے گا؟ کپتان محمد رضوان نے بتادیا
اس سے قبل پاکستان نے آخری مرتبہ سنہ 1996 کے آئی سی سی ورلڈ کپ کی میزبانی کی تھی جو مشترکہ طور پر پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں کھیلا گیا تھا۔
پاکستان کی میزبانی میں چیمپیئنز ٹرافی کا باقاعدہ آغاز بدھ کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں میزبان پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ سے ہوگا۔
ایونٹ میں شرکت کے لیے انگلینڈ کی ٹیم بھی منگل کی علی الصباح لاہور پہنچ گئی ہے جب کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور افغانستان کی ٹیمیں پہلے سے ہی پاکستان میں موجود ہیں۔
8 ٹیموں کے اس ایونٹ میں بھارت بھی شامل ہے جو اپنے تمام میچز دبئی میں کھیلے گا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم دبئی پہنچ چکی ہے جہاں وہ اپنا پہلا میچ بنگلہ دیش کے خلاف جمعرات کو کھیلے گی۔
مزید پڑھیے: چیمپیئنز ٹرافی ایونٹ کی تیاریاں مکمل، محسن نقوی کی انتظامات کو خوب تر بنانے کی ہدایت
کراچی میں ایونٹ کے افتتاحی میچ کے لیے سینکڑوں سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے اور گراؤنڈ میں صرف اسی شخص کو داخلے کی اجازت ہو گی جس کے پاس ٹکٹ ہو گا۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ ٹیموں کی پریکٹسافتتاحی میچ کے لیے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں نے بھرپور پریکٹس کی ہے۔
محمد رضوان کی قیادت میں پاکستان کا 15 رکنی اسکواڈ فخر زمان، بابر اعظم، سعود شکیل، کامران غلام، نائب کپتان سلمان علی آغا، طیب طاہر، عثمان خان، فہیم اشرف، خوش دل شاہ، ابرار احمد، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ اور محمد حسنین پر مشتمل ہے۔
نیوزی لینڈ ٹیم کو دھچکاایونٹ کے افتتاحی میچ سے قبل نیوزی لینڈ کو دوسرا بڑا دھچکا لگا ہے۔ فاسٹ بالر لوکی فرگوسن پاؤں میں انجری کی وجہ سے چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہو گئے ہیں۔
اس سے قبل نیوزی لینڈ کو 15 رکنی اسکواڈ میں اس وقت تبدیلی کرنا پڑی تھی جب فاسٹ بالر بین سیئر پٹھوں کے کھچاؤ کی انجری کا شکار ہو گئے تھے۔
مزید پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی، پاکستان کے اسٹیڈیمز میں بھارت کے جھنڈے کیوں نہیں لگائے گئے؟
پاکستان کی میزبانی میں ہونے والا یہ ایونٹ کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں کھیلا جائے گا جب کہ دبئی ایک نیوٹرل ویونیو کے طور پر بھارت کے میچز کی میزبانی کرے گا۔
ایونٹ میں شامل تمام 8 ٹیموں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
گروپ اےگروپ اے میں پاکستان، بھارت، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں شامل ہیں۔
گروپ بیگروپ بی آسٹریلیا، انگلینڈ ، جنوبی افریقہ اور افغانستان کی ٹیموں پر مشتمل ہے۔
ہر گروپ سے 2 ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ پہلا سیمی فائنل 4 اور دوسرا 5 مارچ کو کھیلا جائے گا۔
فائنل مقابلہ پاکستان میں کس صورت میں ممکن؟بھارت کے فائنل میں نہ پہنچنے کی صورت میں لاہور کا قذافی اسٹیڈیم چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کی میزبانی کرے گا۔ دوسری صورت میں فائنل دبئی میں کھیلا جائے گا۔
واضح رہے کہ سنہ 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد کئی برس تک پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستان سے بہتر میزبان کوئی اور ہو نہیں سکتا تھا، ایان بشپ
سال 2014 میں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد ملک میں سیکیورٹی صورتِ حال بہتر ہونا شروع ہوئی اور پھر 2019 میں پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ بحال ہوئی۔ بعدازاں آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 20225 پاکستان کرکٹ ٹیم چیمپیئنز ٹرافی افتتاحی میچ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 20225 پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم پاکستان اور نیوزی لینڈ چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں افتتاحی میچ کی میزبانی کے لیے کی ٹیم
پڑھیں:
بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
گوادر پورٹ پاکستان کے لیے تجارتی ترقی کا دروازہ ہے۔ خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بندرگاہ پاکستان کو نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس بندرگاہ کے ذریعے چین، وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک تک بآسانی رسائی میسر آئے گی، جس سے پاکستان کو سالانہ لاکھوں ڈالرکا تجارتی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر بندرگاہ نہ صرف پاکستان کو اقتصادی استحکام دے رہی ہے بلکہ یہ بلوچستان کی معاشی خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔
ویژن بلوچستان 2030 پروگرام کے تحت کمیونی کیشن انفرا اسٹرکچر، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی قلت کو دورکرنے اور فشریزکے مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ خوشحال بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں حکومتی اور عسکری کاوشوں کا کلیدی کردار ہے۔
اس طرح کے بے شمار منصوبے بلوچستان کی تقدیر بدلنے کے لیے سرگرم ہیں، جس میں ریکوڈک کا منصوبہ بھی سرفہرست ہے، اس منصوبے کے زیر اہتمام طبی سہولیات سے آراستہ انڈس اسپتال نوکنڈی کا افتتاح گزشتہ برس 25جون 2024 کو کیا جاچکا ہے۔
یہ اسپتال ضلع چاغی اور نوکنڈی جیسے پسماندہ علاقوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، اس کے علاوہ ریکوڈک مائننگ کے تحت نوکنڈی میں قائم ہنر ٹیکنیکل انسٹیوٹ، جس میں 350 کے قریب خواتین و مرد حضرات ہنر سیکھ رہے ہیں جب کہ اس منصوبے کے تحت پانچ پرائمری اسکول، ہمائی کلی، مشکی چاہ، موکچہ، دربن چاہ اور تنگ کھچاؤ کے علاقوں میں قائم کیے جاچکے ہیں جن میں اس وقت 357 طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
اس کے علاوہ چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ سینڈک کاپر،گولڈ مائن پراجیکٹ کے تحت سینڈک اسپتال، اسکولوں کا قیام بلوچستان کے روشن مستقبل کا اہم باب ہیں۔ سی پیک، سینڈک اور ریکوڈک منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے۔ نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں، متعدد یونیوسٹیوں اور میڈیکل کالجزکا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔
بلوچستان کی ترقی سے کالعدم تنظیمیں خائف ہیں، یہ تنظیمیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے خطرے کا سبب بنی ہوئی ہیں، جن سے نجات کے لیے سیکیورٹی فورسز مسلسل متحرک ہیں۔گزشتہ ماہ جعفر ایکسپریس پرکالعدم تنظیم کے حملے کے واقعے نے پوری قوم کو خوف میں مبتلا کر کے رکھا، دہشت گردوں نے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنایا اور 20 سے زائد مسافروں کی جان لی۔
بعد ازاں پاک فوج کے آپریشن نے عسکریت پسندوں کا سارا زور پسپا کیا اور 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا، بعد ازاں مسافروں کو بازیاب کرایا، خیال رہے، اس ٹرین میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، بلوچستان میں پنجابی بولنے والوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی بہت فخر سے لیتی ہے۔
بلوچ قوم کی داد رسی کی باتیں بلوچستان کی بہت سی قوم پرست تنظیمیں کرتی ہیں، جس میں ایک نام بلوچ یکجہتی کونسل کا ہے، اس تنظیم کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ لیڈ کرتی ہیں، جو کہ غفار لانگو کی بیٹی ہیں، غفار لانگو واپڈا کا ملازم تھا،جس نے بی ایل اے جوائن کر لی تھی، جس کی وجہ سے وہ ایک آپریشن میں مارا گیا تھا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی مکمل تعلیم حکومتی وظیفے پر ہوئی، وہ سرکاری ملازم ہیں، ان کی بہن بھی سرکاری وظیفے پر صوبہ پنجاب میں زیر تعلیم ہیں، پھر بھی یہ لوگ ریاست کے مخالف ہیں، جس سے ان کی منافقت واضح ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج کل جیل میں ہیں کیونکہ انھوں نے جعفر ایکسپریس حملے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کو مردہ خانے سے زبردستی اپنی تحویل میں لیا، جس پر مذمت کی گئی اور کوئٹہ کے حالات خراب ہوئے، جس کے سبب ماہ رنگ کی گرفتاری عمل میں آئی، یہاں سوال ہے کہ آخر ماہ رنگ کو کیوں ان دہشت گردوں کی لاشوں کی اس قدر ضرورت تھی کہ وہ اسے لینے کے لیے اتنی بے تاب تھیں۔
بلوچستان کے بدترین حالات میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا بھی بڑا اہم کردار ہے،گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں خضدار سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم انھوں نے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی کی اپنی اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ اپنی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے واحد منتخب رُکن قومی اسمبلی تھے۔
اختر مینگل ایم پی اے، ایم این اے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان رہ چکے ہیں، وہ کوئلے کی کانوں کے مالک ہیں، ہمیشہ اقتدار سے وابستہ رہے ہیں، ان کی بے شمار جائیدادیں ہیں، وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے بلوچ قوم کے نام پر دھرنے دے رہے ہیں، آج سے قبل جب وہ خوب اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے جائیدادیں بنا رہے تھے تو انھیں ایک بار بھی بلوچستان کی تقدیر اور بلوچ قوم کی قسمت کے بارے میں ایک بار بھی خیال نہیں آیا، کچھ لوگ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے آلہ کار معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستانی کالعدم جماعت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، بی ایل اے کے نسلی تشدد کے خلاف صوبہ سندھ میں مختلف مقامات پر احتجاج ہوا۔ عوام کا دعویٰ ہے کہ بی ایل اے ہندوستان کی ہدایت پرکام کررہی ہے،کالعدم تنظیم نسلی بنیادوں پر بے گناہ پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور قتل کر رہی ہے۔ عوام نے دہشت گردوں کو پھانسی سمیت سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگ بلوچ طلبا اور شہریوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں، جب کہ پنجابیوں اور پشتونوں کو قتل کر کے نفرت پھیلانے پر بی ایل اے کی مذمت کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے خلاف احتجاج میں عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے بلوچ بھائیوں کی حمایت کا بھی اظہارکیا اور پاکستان کی مسلح افواج کے حق میں نعرے لگائے۔
پاکستان کے باشعور عوام کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کا احتجاجی مارچ ایک ڈھونگ ہے، جو ان کے اصل مقصد کو چھپا رہا ہے، دراصل یہ عناصر بلوچستان کی ترقی کو سبوتاژکرنا چاہتے ہیں تاکہ بلوچ قوم بنیادی سہولیات سے محروم رہے۔
ریاست مخالف عناصر نے پاکستان کے استحکام کو کافی بار متزلزل کرنے کی کوشش کی اور اللہ کے کرم سے ہر بار ناکام رہے، سیکیورٹی فورسز نے فیصلہ کن کارروائی سے ان کے ناپاک منصوبوں کوکچلا، بات واضح ہے کہ ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والوں کو قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے کسی کو استثنا نہیں ملے گا۔