چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے ساتھ اب کیا کرنا ہے؟ شاہد آفریدی کا قومی ٹیم کو مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے کہا ہے کہ جب ساری دنیا کی ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی کیلیے پاکستان آئیں تو بھارت کو بھی آنا چاہیے تھا، اب پاکستان کو چاہیے کہ بھارت کو شکست دے۔
ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد آفریدی نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی کیلیے ساری ٹیمیں پاکستان آرہی ہیں تو بھارت کو بھی آنا چاہیے تھا اب وہ نہیں آئے تو میں کیا بولوں۔
انہوں نے کہا کہ انڈیا پاکستان نہیں آرہا اب یہ بات پرانی ہوگئی، قومی ٹیم کو چاہیے کہ اب بھارتی ٹیم جہاں بھی میچ کھیلے اُسے شکست دے کر فتح حاصل کرے اور قوم کا مزہ دوبالا کردے۔
انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں پر اس حوالے سے بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے، فتح کی وجہ سے ہی چاروں صوبے اور ملک بھر کے عوام خوشی میں ایک ہی جھنڈے کے نیچے آجاتے ہیں۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ پندرہ رکنی اسکواڈ میں کچھ ایسے کھلاڑی ہیں جن کے بارے میں مجھے معلوم ہے وہ کہاں سے آئے مگر اس پر ہم بعد میں بات کریں گے کیونکہ چیمپئنز ٹرافی ابھی سر پر ہے۔
انہوں نے قومی ٹیم کو مشورہ دیا کہ ساری ٹیمیں بہت تیاری کے ساتھ آئی ہیں، پاکستان کو بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں بہترین کارکردگی دکھانا پڑے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی قومی ٹیم
پڑھیں:
امریکی کانگریس میں بھارت سے تعلقات میں جمود، پاکستان کو کلیدی شراکت دار قرار دینے پر بحث
واشنگٹن میں اس ہفتے امریکی ایوانِ نمائندگان کی فارن افیئرز سب کمیٹی برائے جنوبی و وسطی ایشیا کی سماعت میں یہ بات نمایاں رہی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل پاکستان کو ‘کلیدی علاقائی شراکت دار’ قرار دیتے آ رہے ہیں، جبکہ ان کی انتظامیہ بھارت کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سماعت کے دوران ارکانِ کانگریس اور ماہرین نے واشنگٹن کی بھارت پالیسی پر سخت اختلافات کا اظہار کیا۔ گواہوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف، ویزا پابندیوں اور سیاسی بداعتمادی نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ‘سیاسی جمود’ کا شکار کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، دفتر خارجہ
کنزرویٹو تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ماہر جیف اسمتھ نے اعتراف کیا کہ تعلقات ‘گہرے پانیوں’ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس تناؤ کی وجہ ایک جانب ٹرمپ کے بھاری ٹیرف ہیں، تو دوسری جانب پاکستان کے ساتھ امریکی رابطوں پر بھارت کی بےچینی۔
ڈیموکریٹ رکن کانگریس سِڈنی کاملاگر ڈَو نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ جولائی میں دستخط کے قریب تھا مگر وائٹ ہاؤس نے اسے اچانک واپس لے لیا، اور اس کے بجائے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف اور روسی تیل کی درآمد پر 25 فیصد نیا ٹیرف نافذ کیا گیا۔
ان کے مطابق یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ بھارت بدلتی عالمی سیاست میں ابھی بھی روس اور چین کے قریب رہنے کی حکمتِ عملی پر گامزن ہے۔
انہوں نے نئے ایچ ون بی ویزا فیس پر بھی تنقید کی، جس سے بھارتی آئی ٹی اور میڈیکل پروفیشنلز سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ان پالیسیوں سے اعلیٰ سطحی مصروفیات منجمد ہو گئیں اور کوآڈ لیڈرز سمٹ بھی مؤخر کرنی پڑی۔
یہ بھی پڑھیے: بھارت کی دوہری پالیسی مہنگی پڑ گئی، امریکا نے 50 فیصد تک ٹیکس لگا دیا
واشنگٹن اسٹیٹ کے ری پبلکن رکن کانگریس مائیک باؤمگارٹنر نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت واقعی امریکا کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے میں سنجیدہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج پر ایک کتاب میں روس کے ساتھ بھارتی مشقوں کی نمایاں تصاویر تھیں، جبکہ امریکا کے ساتھ مشقیں محض ایک چھوٹے خانے میں دکھائی گئیں۔
سماعت میں یہ نکتہ بھی ابھرا کہ کانگریس کے سخت بیانیے کے برعکس صدر ٹرمپ پاکستان کے بارے میں پورے سال نرم لہجہ اختیار کیے رہے۔ انہوں نے 30 سے زائد بار پاکستان کی تعریف کی، اسے ‘کلیدی علاقائی شراکت دار’ کہا اور بھارت پاکستان کشیدگی کے بعد کسی ایک فریق کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کیا۔
تحلیل کاروں نےاعتراف کیا کہ ٹرمپ کے بیانات نے بھارت میں سیاسی دباؤ بڑھا دیا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب بھارت اور پاکستان نے طیاروں کی تباہی کے دعوؤں اور جوابی بیانات کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن امریکا کے دھروَہ جیشَنکر نے کہا کہ پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ حالیہ امریکی رابطے بھارت کے لیے تشویشناک ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حل طلب تجارتی تنازعات بھارت میں ‘سیاسی مخاصمت’ کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی کانگریس کا مبینہ خط: پی ٹی آئی کی کہانی جھوٹ کا پلندہ ثابت، امریکی حکام کی تردید
جیشَنکر نے باور کرایا کہ امریکا بھارت تعلقات آگے بڑھ سکتے ہیں، مگر اس کے لیے پاکستان سے متعلق پالیسی اور تجارتی تنازعات کو درست طریقے سے سنبھالنا ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے دفاعی تعاون میں جاری پیش رفت 10 سالہ تعاون فریم ورک، مشترکہ پیداوار، ناسا اسرو سیٹلائٹ، اور بھارت کے انسانی خلائی مشن میں امریکی معاونت کو اہم قرار دیا۔
جرمن مارشل فنڈ کے سمیر لالواِنی نے کہا کہ بھارت عالمی نظام میں ایک ‘خودمختار قطب’ بننے کی کوشش کر رہا ہے، نہ کہ امریکی اتحاد کا حصہ بننے کی۔ جبکہ جیف اسمتھ کے مطابق پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ امریکی روابط نے بھارت میں سیاسی بےچینی بڑھائی ہے۔
سماعت نے واضح کر دیا کہ امریکا بھارت تعلقات کا اصل ستون سیاسی اعتماد اس وقت دباؤ کا شکار ہے۔ اور جیسے جیسے واشنگٹن جنوبی ایشیا میں اپنے تزویراتی آپشنز پر نظرِ ثانی کر رہا ہے، پاکستان کا کردار دوبارہ امریکی بحث کا اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا بھارت پاکستان تعلقات کانگریس