اسرائیلی طاقت کا بھرم توڑنے والی 4 ضربیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مزاحمتی قوتوں کے لیے جنگ میں "ان کی طاقت کا جو فقط تاثر تھا"دشمن کو "اس طاقت کا عملی احساس ہوا"۔ یہ جنگ دو دھاری تلوار ثابت ہوئی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان 470 دن، تقریباً 16 ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی نے مقبوضہ علاقوں میں ایسی صورتحال پیدا کر دی جو اسرائیلی طاقت کے فسانے کو زائل کرنے کا باعث بنی۔ یہ شاید اسرائیل کی سب سے بڑی شکست ہے۔ تحریر: رضا رحمتی
اسرائیل غزہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن بین الاقوامی تعلقات کے تناظر اور طاقت کی منطق کے عنوان سے رائج سیاسی علمی اصطلاحات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل غزہ جنگ اور اسرائیل غزہ تعلقات کا تجزیہ کیسے کیا جائےکہ بین الاقوامی تعلقات کے علم و فن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے ایشو یعنی طاقت کی زبان کے تناظر میں اہم نتائج حاصل کیے جا سکیں جو موجودہ سیاسی ادب کا حصہ قرار پائیں۔ اس تحریر میں ہم طاقت کی بنیاد پر تعلقات کے ماڈل، طاقت کی تفہیم، طاقت کے توازن، طاقت سے متعلق افسانوی خیالات اور دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات سامنے رکھتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرینگے۔
1- طاقت کی تنظیم اور دینے کے نقطہ نظرسے طاقت کے توازن کو بنانے والے سب سے اہم عوامل"استحکام" اور "پاور" ہیں۔طاقت کے حصول کا محور استحکام ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل نے فرض کر لیا کہ مقبوضہ علاقوں میں طاقت کا نظم اسرائیل کی مرضی پر ہو گا، یہی وجہ تھی کہ فضائی بمباری کے بعد، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی شمال سے رفح کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی، اسرائیل نے غزہ کو کئی علاقوں میں تقسیم کر دیا اور 4 ڈویژن فوج کے ساتھ غزہ میں داخل ہو گیا۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ افواج کی یہ اتنے بڑے پیمانے پر تعیناتی غاصب ریاست کے گرد حریف مقابل کے طاقت کےنظم کو مکمل طور پر تباہ کر سکتی ہے۔
بے پناہ تباہی اور فضائی سے زمینی، مکمل بکتر بند موجودگی جیسی جنگی تدابیر کے ذریعے غزہ میں مستقل فوجی موجودگی قائم کرنے کی کوششوں کے باوجود، اسرائیل بالآخر فوجی کارروائیوں کے ذریعے اپنے قیدیوں کو بازیاب کرانے میں بھی ناکام رہا اوراس کے لئے فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ اسرائیلی فوج کا ایک مقصد غزہ کی پٹی میں مستقل فوجی تنصیبات قائم کرنا تھا تاکہ خطے میں اپنی مستقل موجودگی قائم کی جا سکے۔ صیہونی اخبار ییودیاوتھ آرنوتھ نے 10 نومبر 2024 کو لکھا: "نیتزاریم محور مستقل فوجی تنصیبات، حراستی مراکز اور کمانڈ سینٹرز کے قیام کے ساتھ اسرائیل کا ایک وسیع فوجی مرکز بن جائے گا۔"
اسرائیلی سیکورٹی حلقوں میں اس مسئلے پر بھی زور دیا گیا کہ اسرائیل غزہ میں مستقل موجودگی کے بغیر غزہ سے پیدا ہونے والے مستقل خطرات پر قابو نہیں پا سکتا۔ انٹیلی جنس کی ناکامی سے پہلے اسرائیل غزہ کو تین محوروں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صیہونیوں نے دعویٰ کیا کہ "اسرائیلی فوج ایک نیا محور قائم کریگی جو شمالی غزہ کی پٹی کو اس پٹی کے باقی حصوں سے الگ کر دے گی" اور اس کے مطابق وہ اس فلسطینی پٹی پر مستقل تسلط قائم کرنے کے لیے جنوبی غزہ کی پٹی میں تیسرا محور بنائے گی۔
2- طاقت کے بل بوتے پر ساکھ پیدا کرنا "طاقت کے علاقائی توازن کو منظم کرنے کے لیے ممالک اپنی طاقت پیدا کرنے کے لیے مختلف انداز اور آلات استعمال کرتے ہیں۔ دفاعی اور سیکورٹی تدابیر کو ان وسائل میں شمار کیا جا سکتا ہے جو ریاستیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ طاقت کی نمائش، ساکھ بنانا اور طاقت کا اظہار ایسے معاملات ہیں جو علاقائی توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں طاقت کے توازن کی موجودہ صورتحال کو چانچنے کے لئے طاقت کی حقیقی ساکھ کو ایک واقعیت کے طور پرملحوظ رکھا جاتا ہے۔
طاقت کوئی بیان بازی کا مسئلہ نہیں ہے۔ طاقت کو ازخود دوبارہ بحالی کے قابل ہونے کا نام ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد، اسرائیل کو جو معلوماتی دھچکا لگا، اس سے زیادہ وہ دھچکا تھا جس نے اسرائیل کی طاقت کی پیداوار اوراس کی تولید کر سکنے کی ساکھ کو منفی طور پرمتاثر کیا۔ اسرائیل کی فضائی حملوں میں کامیابی سے قطع نظر، اسرائیل کبھی بھی زمینی کارروائیوں میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے ساتھ فقط زبانی جمع خرچ کر کےاپنی طاقت ثابت نہیں کر سکا۔
3- بحران اور جنگ کی حالت میں طاقت کے اہداف میں ناکامی، سیاسی اداروں کو میدان جنگ میں نبرد آزما فوجی دستوں کے لیے قابل رسائی اہداف کا تعین کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ وہ اہداف جو یہ قوتیں میدان جنگ کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ قابل حصول اہداف لڑاکا جنگی قوتوں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں اور انہیں مزید برتر اور اعلیٰ تر اہداف حاصل کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد پہلے ہی دن سے، اسرائیل نے اپنی فوجی قوتوں کے لئے ناقابل حصول مقاصد تعین کیا۔
دوسری طرف 7 اکتوبر سے پہلے کے حالات میں توازن بحال کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے حوالے سے اپنے تمام مقاصد میں واضح طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اسرائیل حماس کو تباہ کرنے، فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنے اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے قیدیوں کو آزاد کرنے جیسے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور ان تمام ناکامیوں کو اسرائیل کی "فوجی طاقت" کی ناکامی سمجھا گیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ غزہ پر حملہ کرنے میں اس کا ایک مقصد حماس کو تباہ کرنا تھا لیکن نہ صرف حماس کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنی طاقت کے عروج پر ہے۔
علاوہ از ایں اسرائیلی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اس نے تقریباً 20 ہزار نئی فعال افرادی قوت بنا لی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو اپنے لیے ایک محفوظ زون میں تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن نہ صرف غزہ ایسی ریاست نہیں بن سکا بلکہ انتہائی مضبوط محرکات کے ساتھ ایک فعال اسرائیل مخالف قوت کی تیاری کے لیے حالات پیدا ہو گئے، 470 دن کے جنگی تجربے کے ساتھ اسرائیل کو زمینی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
4- طاقت کے متعلق افسانوی تاثر کا محو ہونا، عسکری طور پر اہم نکتہ شمار ہوتا ہے۔ طاقت کے متعلق افسانوی تاثر کا معنی یہ لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی ملک یا ریاست اپنے طاقتور ہونیکے متعلق پر اسراریت کو برقرار رکھتے ہوئے حریف کو زیادہ سے زیادہ ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ جارحانہ یا پیچیدہ اقدامات نہ کریں۔ یہ صورت حال ایک ذہنی کیفیت پیدا کرتی ہے جس کی روشنی میں اپنی صلاحیتوں کے صرف ایک حصے کو عملی طور پر استعمال کر کے وہ اپنی قوتِ کے ناقابل ادراک ہونیکا تاثر پیدا کر سکتے ہیں۔
قابل فہم اور پیمائش کے قابل طاقت ، طاقتور ہونیکی ایک ایسی سطح ہے جو حریف اور دشمن خیال کر رہاہو۔ اس قسم کی طاقت ضروری نہیں کہ حقیقی طاقت ہو۔ممکن ہے حقیقت میں اس کی کوئی جڑیں بھی نہیں ہوں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک طاقت شمار ہوتی ہے۔ اس کو طاقت کافسانہ یا طاقت کا واہمہ بھی کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں ریاستیں اس نفسیاتی کیفیت کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ نفسیاتی کیفیت ان کے لیے سب سے کم خرچ ہے، نہ تو فوجی وسائل کو ضائع ہوتے ہیں۔
اسی طرح نہ ہی ملک کو وہ نقصان پہنچتا ہے جو دشمن کوحقیقی طاقت کے ادراک کیو صورت میں پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی ممالک کو ہتھیاروں کی دوڑ میں بھاگنا پڑتاہے۔ اسرائیل کی اہل غزہ کے ساتھ حالیہ دست بدست لڑائی سے پہلے یہ صورتحال تھی کہ اسرائیل کے طاقتور ہونیکا بھرم اور اس کی ساکھ قائم تھی۔ طوفان الاقصیٰ کی جنگ اسرائیل کی پاور پروجیکشن کی صلاحیت کو تباہ کرنے میں کامیاب رہی۔ جنگ نے اس طاقت کو کم کر دیا جس کا "تصویر" کیا جاتا تھا اور اس کے متعلق جو کچھ محسوس کیا جاتا تھا۔
اس کے برعکس، مزاحمتی قوتوں کے لیے جنگ میں "ان کی طاقت کا جو فقط تاثر تھا"دشمن کو "اس طاقت کا عملی احساس ہوا"۔ یہ جنگ دو دھاری تلوار ثابت ہوئی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان 470 دن، تقریباً 16 ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی نے مقبوضہ علاقوں میں ایسی صورتحال پیدا کر دی جو اسرائیلی طاقت کے فسانے کو زائل کرنے کا باعث بنی۔ یہ شاید اسرائیل کی سب سے بڑی شکست ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی تعلقات کے اسرائیل غزہ کرنے کے لیے اسرائیل کی علاقوں میں اسرائیل نے استعمال کر کہ اسرائیل کی کوشش کر غزہ کی پٹی کے متعلق تباہ کر کے ساتھ کرنے کی طاقت کا طاقت کی کی طاقت طاقت کے پیدا کر کو تباہ اور اس کے بعد
پڑھیں:
خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
زمانہ قدیم سے ہی سلطنتوں کی عظمت کا دارومدار ان کے زیرِزمین خزانوں اورتجارتی شاہراہوں پررہا ہے۔ آج بھی جب چین اورامریکا جیسے عظیم اقتصادی طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ کی آگ بھڑکتی ہے،تواس کامرکزصرف محصولات تک محدودنہیں رہتابلکہ یہ جنگ اب ان نایاب معدنیات تک پھیل چکی ہے جوجدید ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں ۔ چین نے حال ہی میں ان معدنیات کی برآمد پرپابندیوں کااعلان کرکے امریکاکوایک ایسے میدان میں للکاراہے جہاں اس کی کمزوریاں عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔امریکااور چین کے درمیان ایک دوسرے کی اشیاء پرٹیرف اورجوابی ٹیرف لگانے کی اس تجارتی جنگ کاپس منظرنہ تونیاہے اورنہ ہی اچانک سامنے آیاہے۔
عالمی سیاسی منظرنامہ گزشتہ چنددہائیوں سے جس کروٹ پرہے،اس میں معیشت اورٹیکنالوجی کا امتزاج طاقت کے نئے پیمانے متعین کررہاہے۔یہ دور میدانِ جنگ میں گولیوں کی گونج سے زیادہ،معدنی وسائل کی تقسیم پرمبنی پالیسیوں کی گونج سن رہاہے۔چینی دانشورڈینگ شیوپنگ کایہ جملہ آج تاریخ کی سچائی بن چکاہے کہ ’’مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے پاس تیل ہے،ہمارے پاس نایاب معدنیات ہیں۔
چین اورامریکاکے مابین جاری تجارتی جنگ اس وقت نہایت ہی نازک موڑپرآپہنچی ہے۔ایک طرف دونوں ممالک ایک دوسرے پربھاری محصولات (ٹیرف)عائدکرکے معاشی ضربیں لگارہے ہیں، تو دوسری طرف چین نے اپنی سب سے بڑی طاقت نایاب معدنیات کوبطورہتھیارا ستعمال کرناشروع کردیا ہے۔ ان معدنیات کی برآمدپرپابندی کے احکامات جاری کرنا امریکاکے لئے ایساہی ہے جیسے کسی زندہ جسم سے سانس کی ڈورکھینچ لی جائے۔
امریکاکاان نایاب معدنیات پرانحصار بے حد زیادہ ہے۔ سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم اور دیگر ریئرارتھ عناصرجدید ٹیکنالوجی کے بنیادی ستون ہیں۔میزائل سازی،جیٹ طیارے ،موبائل فونز،ریڈار،الیکٹرک گاڑیاں،اورحتیٰ کہ سبزتوانائی کی مصنوعات میں ان کا استعمال لازم ہے۔ان معدنیات کو’’نایاب ‘‘اس لئے کہاجاتاہے کہ یہ زمین میں قلیل مقدارمیں پائے جاتے ہیں،اور انہیں علیحدہ کرنا،صاف کرنااورپروسیس کرنا انتہائی مہنگااورماحول دشمن عمل ہے۔
دنیامیں سب سے زیادہ ذخائرآسٹریلیا، چین،امریکا،برازیل اورروس میں پائے جاتے ہیں،مگر پروسیسنگ کا92فیصدحصہ صرف چین کے پاس ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق،چین اس وقت عالمی سطح پر61 فیصدتک نایاب معدنیات پیداکرتاہے اور92 فیصدتک ان کی ریفائننگ چین کے ہاتھ میں ہے۔اس یکطرفہ اجارہ داری نے چین کواس شعبے کابلاشبہ شہنشاہ بنادیاہے۔
یہ معدنیات نہ صرف قیمتی ہیں بلکہ ماحولیاتی طورپرمہلک بھی ہیں۔ان کی کان کنی میں تابکاری عناصرشامل ہوتے ہیں، جوماحول اورانسانی صحت کے لئے خطرناک ہیں۔یہی سبب ہے کہ یورپ اوردیگر مغربی اقوام نے اس میدان سے راہِ فرار اختیارکی اور چین نے اس خلاکوکئی دہائیوں کی جامع منصوبہ بندی سے پرکر دیا ۔ چین نے سات اہم نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی لگادی ہے،جن میں ایسے عناصربھی شامل ہیں جوامریکی دفاعی صنعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف امریکاکی دفاعی تیاریوں میں خلل پڑا،بلکہ عالمی منڈی میں بے چینی بھی بڑھ گئی ہے۔
چین نے اپریل سے برآمدات کے لئے سپیشل لائسنس لازمی قراردے دیاہے،جوکہ’’دوہری استعمال‘‘ کے معاہدات کے تحت ایک جائزقدم ہے۔یہ معدنیات جنگی اورغیر جنگی، دونوں ٹیکنالوجیزمیں استعمال ہوتی ہیں، جس سے ان کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سینٹرآف سٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل سٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق، ایف 35 جیٹس، ٹوموہاک میزائل اوردیگرہائی ٹیک دفاعی آلات کا انحصارانہی معدنیات پرہے۔چین کی موجودگی نہ ہوتوامریکاکے لئے یہ دفاعی سلسلہ تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
امریکاکے پاس بھی محدودمقدارمیں ذخائر ہیں، مگرپروسیسنگ کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین سے معاہدے کی کوشش کی تاکہ چین پرانحصارکم کیاجاسکے۔ بدقسمتی سے،یوکرین کے وہ علاقے جہاں یہ معدنیات ہیں،روسی قبضے میں آچکے ہیں۔دراصل یوکرین کی جنگ میں امریکا اوریورپ کی دلچسپی انہی معدنیات کی وجہ سے ہے لیکن ناکامی کی وجہ سے اب ٹرمپ کی پالیسی کایوٹرن انہی مفادکے لئے ہے۔اسی لئے ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کوکھلی دھمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی اوراس سے براہِ راست ان معدنیات کے حصول کامطالبہ کیاتھا جوابھی تک پور انہیں ہوسکا۔
گرین لینڈکوامریکاخریدنے کی پیشکش کرچکا ہے۔ معدنیات سے مالامال یہ خطہ،ڈنمارک کی مالی امدادپرانحصارکرتاہے،مگرٹرمپ کی جارحانہ حکمت عملی نے اس تجویزکوعالمی سطح پرمزاح کانشانہ بنادیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمتوازن فیصلوں نے امریکاکودوہری مشکل میں ڈال دیاہے۔نہ صرف اس نے چین جیسے اجارہ دار کو ناراض کردیاہے بلکہ یورپ جیسے اتحادی بھی اس کے اقدامات سے نالاں ہیں۔یہ جنگ محض تجارتی یااقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے نئے مراکزکاتعین کررہی ہے۔اگرامریکا نے وقت پرکوئی نیا راستہ نہ چنائوتوممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ میدانِ جنگ میں موجودتو ہو،مگراس کے پاس جنگ جیتنے کے لئے ہتھیار نہ ہوں۔یوں بھی تاریخ سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ امریکااب تک36سے زائدممالک میں جارحیت کا مرتکب ہوچکاہے اورہرجنگ کا مقدررسواکن شکست اور فرار پر مبنی ہے۔آئیے!چین اورامریکا میں موجودہ تناؤکو سمجھنے کے لئے اس تنازعہ کا شواہدکے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں طاقت کے مراکز کس کے ہاتھ میں ہوگا؟
دراصل اس کشیدگی کی بنیادٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں2018ء میں چین پرٹیکنالوجی چوری، غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں،اورذہین ملکیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکرتے ہوئے250 ارب ڈالرمالیت کی چینی مصنوعات پر ٹیرف لگاکررکھی تھی جس کے جواب میں چین نے اپنے ردعمل میں 110ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات(سویا بین،الیکٹرانکس، پٹرولیم) پر ٹیرف کاجواب دیاتھا۔2023ء تک دونوں ممالک کے درمیان 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائدہوچکے تھے۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، امریکا کو 2023ء تک0.5 فیصد جی ڈی پی کانقصان،جبکہ چین کو1.2 فیصد جی ڈی پی کااقتصادی دھچکالگا۔گویاامریکااورچین کے درمیان یہی نایاب معدنیات کامحاذایک مرتبہ پھر ایک خوفناک جن کی صورت میں عالمی تجارتی منڈی میں آن پہنچاہے۔
نایاب زمینی معدنیات وہ17کیمیائی عناصر ہیں جن کے بغیرآج کی ٹیکنالوجی چاہے وہ اسمارٹ فونزہوں،الیکٹرک گاڑیاں یاجنگی میزائل سسٹم ،ناممکن ہیں۔ سکینڈیئم سے لے کر لٹیٹیئم تک،یہ تمام عناصرایسے ہیں جوزمین کی گودمیں تووافرمقدارمیں موجودہیں، مگران کانکالنااورصاف کرناانتہائی مشکل اورمہنگاعمل ہے۔تاریخی طورپر،ان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ بیسویں صدی میں یورینیم کے بعدیہی وہ دوسرے خاموش ہتھیارہیں جونہ صرف عالمی طاقتوں کی جنگی اوراقتصادی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں بلکہ یہ نایاب معدنیات جدید تہذیب کامضبوط ستون بن کر مستقبل فاتح قوم کااستعارہ بن گئی ہیں۔
گزشتہ دوعشروں میں چین نے نہ ان معدنیات کی کان کنی اوران کی پروسیسنگ میں بھی دنیاپرغلبہ حاصل کرلیاہے۔کان کنی سے پروسیسنگ تک چین کی بالادستی نے امریکاکی صنعتی اورمعاشی دنیا پرلرزہ طاری کردیا ہے۔ بین الاقوامی اعدادوشمارکے مطابق، چین اس وقت دنیا بھر میں61 فیصد نایاب معدنیات پیداکرتاہے، جبکہ ان کی پروسیسنگ کا 92 فیصد حصہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ بالادستی محض اتفاق نہیں،بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہے۔1980ء کی دہائی میں جب مغربی ممالک نے ماحولیاتی تحفظ کے نام پرکان کنی کے سخت قوانین بنائے،توچین نے اس موقع کوغنیمت جانا۔اس نے کم لاگت،کم مزدوری ، اورماحولیاتی پابندیوں میں نرمی کے ذریعے دنیابھرکی صنعت کواپنی جانب متوجہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج چین کے صوبے انرمونگولیا اورجیانگشی میں واقع کانیں دنیا کی ٹیکنالوجی کوسہارا دے رہی ہیں۔
(جاری ہے)