دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہمارا مشن، ملکی ترقی اور خوشحالی اس سے جڑی ہے، وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد: وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہمارا مشن ہے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ برادر ملک ترکیہ کے صدر دورہ پاکستان پر آئے، ترک صدر کی پاکستان آمد پرعوام نے خوش آمدید کہا، ترکیہ نے ہمیشہ دل کھول کرپاکستان کا ساتھ دیا، ترک صدر نے کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی، ترکیہ اور پاکستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں، ہر فورم پر ترکیہ اور پاکستان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں گیلپ سروے جاری ہوا ہے، مل کر کام کریں گے تو معاشی ترقی میں تیزی سےاضافہ ہوگا، ورلڈ بینک کے وفد نے پاکستان کی معاشی ترقی کی بھرپور ستائش کی، ہمیں محنت کو یقینی بنانا ہے، پاکستان اپنا مقام ضرور حاصل کرے گا، پاکستان میں بزنس کے ماحول کے حوالے سے 55 فیصد پاکستانیوں نے اعتماد کا اظہار کیا اور یہ گیلپ کا سروے ہے، جو کافی معتبر ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے لیکن ہمیں آگے بڑھنااور مزید محنت کرنی ہے، تین چار ماہ بعد بجٹ آئے گا، اڑان پاکستان ہمارا ہوم گرون ایجنڈا ہے، اس پر فی الفور کام شروع کر دینا چاہیے، اگر ہم مل کر شبانہ روز محنت کریں گے تو ہماری معاشی ترقی کا پہیہ بڑی تیزی سے گھومنا شروع ہو جائے گا، یقیناً اس کے لیے ملک کے اندر سازگار حالات انتہائی ضروری ہیں۔
شہبازشریف نے کہا کہ ابھی چند دن قبل لاہور میں ایک شہید لیفٹننٹ حسان اشرف کا نماز جنازہ ادا کیا، 21 سالہ لیفٹیننٹ حسن اشرف نے خارجی دہشت گردوں کے تعاقب میں وطن کے لیے اپنی جان قربان کر دی لیکن شہادت سے پہلے 6 خوارج کو ہلاک کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہمارا مشن ہے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ قربانیاں ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں، انہی کی بدولت پاکستان میں امن قائم ہوگا اور پاکستان ضرور ترقی کی راستے پر گامزن ہوگا۔
شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ روز عالمی بینک کا وفد مجھے ملا، 9 ڈائریکٹرز آئے ہوئے تھے، انہوں نے پاکستانی کی معاشی اشاریوں کے حوالے سے یک زبان ہو کر ستائش کی اور کہا کہ عالمی بینک پاکستان کے ریفارم ایجنڈے پر نہ صرف مطمئن ہے بلکہ انہوں نے بڑے شاندار انداز میں تعریف کی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ ہمیں ان تعریفی کلمات کو سن کر بیٹھنا نہیں بلکہ اسے اور آگے لے کر جانا چاہتا ہے، پاکستان ضرور آگے بڑے گا۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی دارالحکومت میں رجب طیب اردوان انٹرچینج کو ٹریفک کے لیے کھولنے کا باضابطہ افتتاح کردیا۔
وزیراعظم نے رجب طیب ایردوان انٹرچینج ٹریفک کے لیے کھولنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناح اسکوائر کے بعد ایک اور شاندار عوامی منصوبہ تکمیل تک پہنچا ہے، رجب طیب اردوان انٹرچینج کی تکمیل سے جڑواں شہروں کے لوگوں کے لیے بہترین سفری سہولت ثابت ہوگی۔
شہباز شریف نے کہا کہ فلائی اوور، یوٹرن اور سڑکوں کی تعمیر کے اس منصوبہ سے ٹریفک کی روانگی میں بہتری آئی گی ، وزیر داخلہ، چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا اور منصوبہ سے منسلک دیگر حکام کو محسن نقوی سپیڈ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، قلیل مدت میں منصوبہ کی تکمیل لائق تحسین ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں ترقیاتی کام دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے، 84 دنوں میں کم لاگت میں یہ منصوبہ مکمل کیا گیا ہے، اسلام آباد کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے مزید منصوبے بھی مکمل کئے جائیں گے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو فوری طور پر مکمل کرنا اسلام آباد کے شہریوں کے لیے بہت ضروری ہے، اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا، اس افتتاحی تقریب کی تصاویر اور ویڈیو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کو بھی بھجواؤں گا۔
تقریب سے خطاب میں وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا اس منصوبہ کو بجٹ میں مختص رقم سے بھی کم لاگت اور ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا ہے، منصوبہ سے اسلام آباد کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔
چیئرمین سی ڈی اے نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ منصوبہ کی تکمیل کا دورانیہ 180 روز مقرر کیا گیا تھا لیکن اسے 84 دنوں میں مکمل کر لیا گیا، اس منصوبہ میں ایف ٹین سے منسلک 4.
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتی رہتی ہے یہ نہ صرف مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیتی ہے بلکہ مسلمانوں کو غیر ملکی بھی خیال کرتی ہے۔ برصغیر میں اسلام پھیلانیکا سہرا بزرگان دین کے سر ہے جن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر غیرمسلم جوق در جوق مسلمان بنے۔ جہاں تک مسلمان بادشاہوں کا تعلق ہے۔ اسلام کو پھیلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے پروپیگنڈے کے قطع نظر ہندو مسلمان بادشاہوں سے اتنے مانوس تھے کہ جب 1857 میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو ختم کرنا چاہا تو ہندو ان کے ساتھ تھے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں سے لڑے۔
اگر انگریزوں کو ساورکر جیسے غدار ہندوستانی نہ ملتے تو وہ چند سالوں میں ہی ہندوستان سے نکال دیے جاتے مگر اس شخص نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا بلکہ ان کی ہدایت کے مطابق ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا کی جس کی وجہ سے دونوں قوموں میں دوریاں پیدا کی گئیں۔ ہندو مسلمانوں میں نفرت کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ اسی ساورکر کی وجہ سے ہندوستان میں کئی مسلم دشمن تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) بھی ہے۔
بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جو اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے ۔ چند سال قبل یہ متنازعہ شہریت بل متعارف کرا چکی ہے جس کے تحت بھارتی مسلمانوں کو بھارت میں اپنی شہریت ثابت کرنا ہے۔
مسلمانوں نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بالآخر بی جے پی حکومت کو اسے موخر کرنا پڑا۔ اسی بی جے پی نے بابری مسجد کو رام جنم بھومی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور بالآخر اپنی حکومتی طاقت کے بل پر اس قدیم مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر گائے کاٹنے یا اسے ایذا پہنچانے کے الزام میں درجنوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔
پھر لَو جہاد کا مسئلہ کھڑا کیا اورکئی مسلم نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دھرم پری ورتن یعنی مذہب کی تبدیلی کی مہم چلائی گئی جس کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کیا گیا مگر یہ اسکیم کامیاب نہ ہو سکی اور اسے بند کرنا پڑا۔ اب مسلمانوں کو تنگ کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وقت کی زمینوں اور جائیدادوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں ایک بل پیش کر کے لوک سبھا میں پاس کرایا گیا ہے۔ اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے کئی سیکولر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ لوک سبھا میں اس بل پر ووٹنگ میں اس کی حمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ آئے۔
ظاہر ہے کہ حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اس متنازعہ بل کو پاس کرا لیا تھا۔ یہ بل پاس تو ہوگیا ہے مگر مسلمان اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ احتجاجی مسلمانوں پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے حملے کر رہے ہیں تاکہ انھیں چپ کرا دیا جائے مگر مسلمان اس بل کو واپس لینے کے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ بل کسی طرح بھی ہندوؤں یا ملک کے خلاف نہیں تھا، یہ ایک خالص مذہبی معاملہ ہے۔ زمینوں کا اللہ کی راہ میں وقف کرنا اور پھر انھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا ایک پرانا نظام ہے۔ وقف زمینوں کی دیکھ بھال ایک بورڈ کے ذمے ہوتی ہے جو وقف بورڈ کہلاتا ہے۔
ایسے وقف بورڈ بھارت کے ہر شہر میں موجود ہیں۔ ان زمینوں کو مدرسے، اسکول، اسپتال، قبرستان، مساجد اور عیدگاہ وغیرہ کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وقف قانون میں پہلی دفعہ 1995 میں ترمیم کی گئی تھی اس کے بعد 2013 میں پھر کچھ تبدیلی کی گئی۔ اب نئی ترمیمات نے بل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ بی جے پی حکومت نے ان نئی ترمیمات کے ذریعے مسلمانوں کے اختیارات کو کم سے کم کر دیا ہے۔
اب نئی ترمیمات کے ذریعے دو غیر مسلم نمایندے بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب یہ مکمل مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور صرف وہی اپنی زمینوں کو وقف کرتے ہیں تو ہندوؤں کو بورڈ میں شامل کرنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب نئے قانون کے تحت ہر ضلع کا کمشنر پراپرٹی کا سروے کرے گا اور ضلع کا اعلیٰ سرکاری عہدیدار فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف کی ہے یا نہیں۔ وقف کے معاملات میں مداخلت پر مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں حکومت جو چاہتی ہے سپریم کورٹ بھی وہی فیصلہ دیتی ہے۔
کچھ مسلمان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جب مسلمانوں کے معاملات میں ہندوؤں کو دخل اندازی کا موقع دیا جا رہا ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کے مندروں وغیرہ کی زمینوں کے ٹرسٹ میں شامل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے۔
یہی بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ہے جس سے وہ انتخابات کے وقت سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ 15 برس سے مسلم کارڈ کے سہارے ہی حکومت پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ وقف جیسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر زیادتی کے سلسلے میں لیاقت نہرو معاہدے کے تحت حکومت پاکستان بھارتی حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت بالکل خاموش ہے پھر سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس زیادتی پر کچھ لکھا اور نہ کہا۔