مینو” سے “میز” تک، دنیا کو بیداری کی ضرورت ہے، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
بیجنگ :میونخ سیکیورٹی کانفرنس 2025 کی اختتامی تقریب میں کانفرنس کے چیئرمین کرسٹوف ہوئزگن نے روتے ہوئے کہا کہ امریکی نائب صدر وینس کی تقریر کے بعد ہمیں فکر مند ہونا پڑے گا کہ ہماری مشترکہ اقدار کی بنیاد اب مضبوط نہیں رہی۔اس منظر نے یورپیوں کو، جو ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ وہ امریکہ کے ساتھ میز پر بیٹھ کر عالمی ضیافت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، یہ احساس دلایا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں امریکہ کی طرف سے میز سے باہر نکالا جا رہا ہے، جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازعے میں پھنسے ہوئے یوکرین نے پایا کہ وہ انکل سیم کی دعوت کے مینو پر صرف ایک پکوان ہیں۔ وینس کی ظالمانہ تقریر، اور ہوئزگن کے آنسوؤں نے یونی پولر دنیا کی سرد اور ظالمانہ فطرت کو بے نقاب کر دیا:
امریکہ نے ہمیشہ دنیا کو “مینو” پر ایک پکوان کے طور پر دیکھا ہے، جبکہ دوسرے ممالک ایک ساتھی یا ویٹر بن سکتے ہیں، یا انہیں کسی بھی وقت ذبح کر کے کھایا جا سکتا ہے.
جس میں سوویت یونین نے کیوبا پر حملہ نہ کرنے کے امریکہ کے وعدے کے بدلے کیوبا سے اپنے میزائل واپس لے لیے تھے، اور امریکہ نے یورپ سے یورپی اتحادیوں کی حفاظت کرنے والے’’ جوپیٹر میزائلوں‘‘ کو واپس لے لیا تھا، جب کہ کیوبا اور امریکہ کے یورپی اتحادیوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ دونوں میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ چھوٹے ممالک کے مفادات بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے نگل جاتے ہیں اور نام نہاد “امن” طاقتوروں کے مفادات کی تنظیم نو سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس بار، جب یورپ نے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی کوشش کی، وینس نے “یورپی اقدار کے انحطاط” کی طرف انگلی اٹھائی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یورپ کی سلامتی کی بے چینی صرف ایک بلاوجہ چیخ ہے، اور یہ کہ یورپ کو سب سے بڑا خطرہ خود یورپ سے ہے۔ “متاثرین کے جرم” کا یہ بیانیہ یونی پولر بالادستی کا ایک عام بیانیہ ہے۔امریکہ کی “مینو منطق” کی ایک طویل تاریخ ہے، چاہے وہ افغانستان ہو، شام ہو، فلسطین اسرائیل تنازعہ ہو یا اب روس-یوکرین تنازعہ، ہر بار امریکہ نے خود کو “شیف” کے طور پر دیکھا ہے، اپنے مخالفین اور یہاں تک کہ اپنے اتحادیوں کو بھی ضیافت کی میز پر لایا ہے۔ ایک طرف انہوں نے مطالبہ کیا کہ یورپ زیادہ دفاعی اخراجات برداشت کرے اور یورپ سے فوجیں واپس بلانے کی دھمکی دی اور دوسری طرف اس نے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ امریکہ کی جانب سے وضع کردہ مذاکراتی معاہدے کو قبول کرے اور ساتھ ہی یوکرین کو نایاب زمینی وسائل اور دوسرے طریقوں سے امریکہ کی طرف سے تمام امداد کا معاوضہ دینے پر مجبور کیا ۔ اجلاس کی افراتفری اور آنسو دراصل پرانے عالمی حکمرانی نظام کا ایک مرثیہ ہے ۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ “یورپ کو اپنا دفاع مضبوط کرنا ہوگا”، فرانس نے فوری طور پر ایک آزاد سلامتی کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے یورپی سربراہی اجلاس بلایا، اور یوکرین کے صدر زیلنسکی نے “یورپی فوج” کی تشکیل کی تجویز پیش کی – یہ اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے کی قیمت کا احساس ہو گیا ہے.کثیر القطبی دنیا کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک، چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، مضبوط ہوں یا کمزور، بین الاقوامی نظم و نسق اور قواعد کی تشکیل اور برقراری میں مساوی بنیادوں پر “باورچیوں” کی حیثیت سے حصہ لیں۔چین کی چھنگ ہوا یونیورسٹی میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ڈپٹی ڈائریکٹر شیاؤ چھیئن کا ماننا ہے کہ دنیا ملٹی پولرائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے، جو ایک تاریخی ضرورت اور حقیقت دونوں ہے۔ چین سمیت بہت سے ممالک طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں اور بین الاقوامی میدان میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اجلاس کے دوران بہت سے یورپی ماہرین اور اسکالرز نے چین کے ساتھ بات چیت کرنے اور مشترکہ طور پر عالمی مسائل کا حل تلاش کرنے میں پہل کی۔شیاؤ چھیئن نے نشاندہی کی کہ آج کی افراتفری کی دنیا میں چین نے ہمیشہ اس بات کی وکالت کی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق سنبھالا جانا چاہئے اور دنیا میں سب سے بڑا اتفاق رائے تلاش کرنا ہے ، جو کثیر القطبی دنیا کی تعمیر کا اہم سنگ بنیاد ہے۔ہوئزگن کے آنسو محض جذباتی آنسو نہیں ہونے چاہئیں بلکہ بیداری کے محرک ہونے چاہئیں۔ جب دنیا “مینو سیاست” کے حقیقت کو سمجھ لیتی ہے،تو یہ ماننا پڑےگا کہ صرف کثیر قطبیت کے عمل کو فروغ دے کر ہی ہر ملک “پکوان” سے “شیف” میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بہرحال، حقیقی امن کبھی دوسروں کی طرف سے نہیں دیا جاتا ہے، بلکہ مساوی مکالمے اور چیک اینڈ بیلنس سے پیدا ہوتا ہے – اور یہ شاید سب سے بڑا اور اہم انکشاف ہے جو میونخ سیکیورٹی کانفرنس نے دنیا پر چھوڑا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکہ کی امریکہ کے یورپ کو کہ یورپ کی طرف
پڑھیں:
امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
بیجنگ (اوصاف نیوز)چین نے پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک کو سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ درآمدی ٹیکسوں (ٹیرف) سے متعلق مذاکرات کے دوران امریکا کی خوشامد کرنے سے گریز کریں..
چین کی وزارتِ تجارت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ”خوشامد سے کبھی امن حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے عزت کمائی جا سکتی ہے۔“یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ دیگر حکومتوں پر چین کے ساتھ تجارت کو محدود کرنے کے بدلے میں درآمدی محصولات میں رعایت دینے کی پیشکش کرنے پر غور کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں امریکا نے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ جاپان کا وفد گزشتہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کر چکا ہے، جبکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مذاکرات رواں ہفتے شروع ہو رہے ہیں۔
چینی وزارتِ تجارت کے ترجمان نے واضح کیا کہ چین انصاف، بین الاقوامی تجارتی قواعد، اور کثیر الجہتی تجارتی نظام کا دفاع کرتا ہے اور تمام ممالک کو بھی یہی رویہ اپنانا چاہیے۔
واضح رہے کہ ”وال سٹریٹ جرنل“ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ درجنوں ممالک پر دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ وہ چین کے ساتھ اپنی تجارتی سرگرمیاں محدود کریں، بصورتِ دیگر اُنہیں درآمدی ٹیرف سے استثنیٰ نہیں دیا جائے گا۔
دوسری جانب، جاپانی آن لائن ٹریڈنگ پلیٹ فارم ”مونیکس گروپ“ کے تجزیہ کار جیسپر کول نے کہا ہے کہ جاپان کے لیے امریکہ اور چین دونوں اہم تجارتی پارٹنر ہیں، جہاں اسے 20 فیصد منافع امریکہ اور 15 فیصد چین سے حاصل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جاپان کسی بھی صورت میں ان دونوں بڑی معیشتوں میں سے کسی ایک کو چننا نہیں چاہے گا۔