Daily Sub News:
2025-04-22@07:16:55 GMT

نئے ججز کی آمد کے بعد سپریم کورٹ میں ہلچل

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

نئے ججز کی آمد کے بعد سپریم کورٹ میں ہلچل

نئے ججز کی آمد کے بعد سپریم کورٹ میں ہلچل WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں نئے ججز کی آمد کے بعد متعدد انتظامی کمیٹیوں میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کردیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنی سربراہی میں 6 رکنی کیس مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی جس میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد شفیع صدیقی اور ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) شامل ہیں، آئی ٹی ڈائریکٹر اس کے سکریٹری ہوں گے، کمیٹی کیس مینجمنٹ کو ہموار کرکے عدالتی کام میں کارکردگی کو یقینی بنائے گی۔

چیف جسٹس نے پاکستان میں خصوصی عدالتوں (انسداد دہشت گردی عدالتوں) کے افعال اور کارکردگی کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے 5 ججوں کو بھی مقرر کیا،جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختونخوا میں اے ٹی سیز کے مانیٹرنگ جج ہوں گی جبکہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس صلاح الدین پنہور بالترتیب پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں مانیٹرنگ ججز کی حیثیت سے کام کریں گے، جسٹس عامر فاروق اسلام آباد کی خصوصی عدالتوں کے مانیٹرنگ جج ہوں گے۔
چیف جسٹس نے جسٹس ملک شہزاد احمد، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل کمیٹی کو ماڈل کورٹس کی نگرانی کا ٹاسک بھی سونپ دیا۔
سپریم کورٹ کی آئی ٹی افیئرز کمیٹی میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے جس میں چیف جسٹس اس کے چیئرمین ہوں گے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اس کے ارکان ہوں گے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہ بھی حکم جاری کیا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر فائیو کے تحت چیمبرز میں متفرق اپیلیں اور آرڈر کے لیے درخواستیں چیف جسٹس اور دیگر ججز کے سامنے پیش کی جائیں گی، اسی طرح سپریم کورٹ رولز 1980 کے رول 3 آرڈر فائیو کے تحت رجسٹرار کے حکم کے خلاف اپیل بھی چیف جسٹس کے سامنے پیش کی جائے گی تاکہ انہیں 5 سینئر ججز میں سے کسی کو تفویض کیا جاسکے۔
دیوانی مقدمات واپس لینے کی اجازت کے لیے درخواستیں فیصلے کے لیے جسٹس حسن اظہر رضوی کے روبرو پیش کی جائیں گی، جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 5 رولز 2 (10) کے تحت ملزم/ اپیل گزار کے سرنڈر نہ کرنے پر اعتراضات اور فوجداری مقدمات / نیب مقدمات واپس لینے کی اجازت کے لیے دائر درخواستوں پر متفرق فوجداری اپیلوں کی نگرانی کریں گے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر28 کے تحت ٹیکسنگ افسر/ رجسٹرار کی جانب سے واپس کیے گئے ٹیکس بلوں کی درخواستوں کی سماعت کریں گے جبکہ جسٹس شکیل احمد درخواستوں/ اپیلوں کی درخواستوں میں ترمیم، وقت میں توسیع یا تخفیف کی درخواستوں، یکطرفہ احکامات کو کالعدم قرار دینے اور کسی فریق کو شامل کرنے سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ کریں گے۔

چیف جسٹس نے جسٹس اشتیاق ابراہیم کو سپریم کورٹ کے سیکیورٹی امور کا انچارج بھی نامزد کیا، وہ سپریم کورٹ کے تمام سابق ججوں کے سیکیورٹی معاملات کی بھی نگرانی کریں گے۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس نے سپریم کورٹ آرکائیوز کمیٹی کی تشکیل نو کی جس میں جسٹس حسن اظہر رضوی چیئرمین، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس میاں گل حسن ممبر ہوں گے، یعقوب بنگش پینل کے کیوریٹر ہوں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس میاں گل حسن لا کلرک شپ پروگرام کمیٹی کے رکن ہوں گے جو لا کلرکوں کی تقرری اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔

چیف جسٹس نے جسٹس میاں گل حسن کو بچوں اور خاندانی قوانین سے متعلق برطانیہ پاکستان پروٹوکول پر رابطہ جج کے طور پر بھی نامزد کیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس عامر فاروق سپریم کورٹ کی تمام عمارتوں بشمول پرنسپل سیٹ، برانچ رجسٹری، ججز گیسٹ ہاؤسز، لاجز اور منسلک اثاثوں کے معاملات کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ بلڈنگز کمیٹی کا حصہ ہوں گے جبکہ سپریم کورٹ کی ریسرچ سینٹر کمیٹی کی سربراہی جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس عامر فاروق کریں گے۔

اس کے علاوہ 8 اکتوبر 2022 کو عملے کی وردی کے لیے کپڑے کے نمونے کے معیار اور انتخاب کی منظوری کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کو فوری طور پر تحلیل کردیا گیا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ ججز کی

پڑھیں:

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے، ان کی عمر 75 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔

رپورٹ کے مطابق مرحوم کی نمازِ جنازہ آج (منگل ) نمازِ عصر کے بعد ڈیفنس فیز 8 کی حمزہ مسجد میں ادا کی جائے گی۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی کا شمار پاکستان کی اعلی عدلیہ کے باوقار اور اصول پسند ججوں میں ہوتا تھا، انہوں نے 1998 میں سندھ ہائیکورٹ کے جج کے طور پر خدمات کا آغاز کیا اور 2009 میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز میں شامل تھے، جس پر انہیں عدلیہ میں آئینی مزاحمت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔

2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہوں نے دوبارہ حلف لیا اور انہیں جسٹس عبدالحامد ڈوگر کی سفارشات پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔

جسٹس عثمانی سپریم  کورٹ کے اس 14 رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

اس فیصلے کی روشنی میں جسٹس ڈوگر کے دور میں ججز کی تقرریوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

ان کی وفات پر عدالتی حلقوں، وکلا برادری، اور مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہلخانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • ججز کے تبادلے چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب