مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کا پولیس ریمانڈ کیوں نہیں دیا گیا؟ عدالت میں سنسنی خیز انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کا پولیس ریمانڈ کیوں نہیں دیا گیا؟ عدالت میں سنسنی خیز انکشافات WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز
کراچی(سب نیوز)اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کیس میں عدالت نے ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تاہم سماعت کے دوران سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے۔
سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس ظفر راجپوت نے مصطفیٰ قتل کیس کی سماعت کی جس دوران سرکاری وکیل اور کیس کے سابق تفتیشی افسر سمیت متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ملزم ارمغان کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔
دوران سماعت عدالت نے سوال کیا کہ اب کیس کا تفتیشی افسر کون ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ محمد علی اب کیس کے تفتیشی افسر ہیں جس پر عدالت نے انہیں طلب کرلیا۔
عدالت نے کیس کے سابق تفتیشی افسر امیر اشفاق سے سوال کیا میڈیکل کا لیٹر کہاں ہے؟ سابق تفتیشی افسر نے جواب دیا مجھے کوئی لیٹر نہیں ملا تھا، عدالت نے سوال کیا آپ نے کوئی لیٹر دیا تھا ایم ایل او کو، وہ کہاں ہے؟ یہ لیٹر کیوں دیا تھا آپ نے؟
سابق تفتیشی افسر نے جواب دیا ایڈمنسٹریٹر جج صاحب نےمجھے زبانی احکامات دیے تھے، اس موقع پر عدالت نے کہا جیل کسٹڈی کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم ہوگئی تھی۔
دوران سماعت رجسٹرار انسداد دہشتگردی عدالت نے کیس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا اور موجودہ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں پہلے پولیس ریمانڈ دیا گیا تھا اور شام 7 بجے جیل کسٹڈی کی ہے۔
اس پر جسٹس ظفر نے ریمارکس دیے کہ پولیس کسٹڈی ریمانڈ پر وائٹو لگا کر اسے جیل کسٹڈی کردیا گیا ہے، پولیس ابھی تک لکھا ہوا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جب کہ پولیس ملزم کو واپس لے گئی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پولیس ریمانڈ عدالت میں قتل کیس دیا گیا
پڑھیں:
غیرملکی فوڈ چین پر توڑ پھوڑ کیس: 9 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے غیر ملکی فوڈ چین پر توڑ پھوڑ کیس کے 9 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں غیر ملکی فوڈ چین پر توڑ پھوڑ کیس کی سماعت ہوئی، پولیس کیجانب سے 15 گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں ملزمان کو پیش کیا گیا، ملزمان کیخلاف تھانہ شالیمار میں مقدمہ درج ہے۔
گرفتار ملزمان نے اپنے کئے پر شرمندگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم اپنی حرکت پر انتہائی شرمندہ ہیں، معافی کے طلبگار ہیں، لوگوں کی دیکھا دیکھی احتجاج میں شامل ہوکر بیوقوفی کی۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی نقصان ہوا وہ ہمارے ہی ملک اور ہمارے ہی بھائیوں کا ہوا، سب پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کبھی بھی توڑ پھوڑ اور تشدد میں شامل نا ہوں، ان کاروباروں پر کام کرنے والے بھی ہمارے ہمارے پاکستانی بھائی ہیں، ان کا نقصان نا کریں۔
عدالت نے تمام 6 گرفتار ملزمان کی ضمانتیں منظور کر لیں اور تفتیشی افسر کی سخت سرزنش کی، عدالت نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر میں جو دفعات لگائی گئیں کیا وہ قابل ضمانت ہیں؟ عدالتی سوال پر تفتیشی آفیسر خاموش رہے اور سر جھکا لیا۔
عدالت نے کہا کہ جب تمام دفعات قابل ضمانت عائد کی تو یہ سب کرنے کی پھر کیا ضرورت تھی؟ تمام مقدمہ کی دفعات قابل ضمانت ہیں عدالت جسمانی ریمانڈ کیوں اور کیسے دے؟
وکیل صفائی نے کہا کہ ملزمان بے گناہ ہیں پہلے انہیں کینٹ کیس شامل کیا پھر انہی کو وارث خان کمیٹی چوک شاپ حملہ میں ملوث کر دیا، اگر یہ ملزم ہیں تو فوڈ شاپس میں لگے کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیج پیش کی جائے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ بے شک قابل ضمانت دفعات ہیں جسمانی ریمانڈ دیا جائے ڈنڈے برآمد کرنا ہیں، عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کر دی۔
عدالت نے 6 ملزمان کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا، عدالت نے 9 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، گرفتار 6 ملزمان کی ضمانتیں منظور کی گئیں اور 5 پانچ ہزار کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
سول جج ڈاکٹر ممتاز ہنجرا نے فیصلہ سنادیا، گرفتار 6 ملزمان کی ہتھکڑیاں کھول کر انہیں رہا کردیا گیا۔