یوکرین جنگ: امریکی اور روسی سفارتکارں کی ریاض میں آج میٹنگ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) یوکرین جنگ کے حوالے سے ریاض میں امریکی اور روسی اعلیٰ سفارت کاروں کی یہ میٹنگ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی ملکی خارجہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا مظہر ہے۔ دوسری مدت کے لیے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد یہ امریکی اور روسی اعلیٰ سفارت کاروں کی پہلی میٹنگ ہے۔ امریکہ، روس تعلقات کی بحالی بھی بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
روسی امریکی مذاکرات سے قبل روسی وزیر خزانہ سعودی عرب میں
اس میٹنگ میں نہ تو یوکرین کے نمائندے موجود ہوں گے اور نہ ہی یورپی ممالک کے۔ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کو بھی میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ ادھر یورپی رہنماؤں نے پیر کے روز پیرس میں ملاقات کی اور اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ یوکرین کے معاملے پر انہیں جس طرح نظرانداز کیا جارہا ہے، اس کا جواب کیسے دیا جائے۔
(جاری ہے)
تاہم کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔یوکرین پر یورپی رہنماؤں کا آج ہنگامی سربراہی اجلاس
زیلنسکی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ یوکرین پر روبیو اور لاوروف کے درمیان ہونے والی بات چیت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کہ تنازعہ کا حل، کسی بھی قسم کے مذاکرات میں صرف کییف کی شمولیت سے ہی ہو سکتا ہے۔
یوکرینی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق زیلنسکی نے کہا، کییف کو ریاض میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں "کچھ نہیں معلوم" اور یہ کہ وہ "ہمارے بغیر ہمارے بارے میں کسی بھی چیز یا معاہدے کا فیصلہ نہیں کر سکتے"۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر کہا کہ کسی بھی امن معاہدے میں "مضبوط اور قابل اعتماد" حفاظتی ضمانتیں شامل کرنے کی ضرورت ہو گی، جس کا فرانس اور برطانیہ نے مطالبہ کیا ہے لیکن تمام یورپی طاقتیں حمایت نہیں کرتیں۔
ریاض میٹنگ کتنی اہم؟ٹرمپ تین سال سے جاری یوکرین جنگ کے تنازعے کے فوری حل پر زور دے رہے ہیں، جب کہ روس اسے مراعات حاصل کرنے کا موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔
روس نے میٹنگ سے قبل کہا تھا کہ پوٹن اور ٹرمپ "ناہموار تعلقات" سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اس میں یورپ کے لیے کسی بھی مذاکرات کی میز پر ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے امریکہ منگل کو ریاض میں روسی وفد کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو یوکرین پر "مذاکرات" کے آغاز کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے درمیان فون پر ہونے والی بات چیت کا فالو اپ ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے ریاض میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ "میرے خیال میں اسے تفصیلات یا کسی قسم کی بات چیت میں پیش رفت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے"۔
انہوں نے کہا کہ"جیسا کہ صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) نے درخواست کی یہ دراصل اس فون کال کا فالو اپ ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور کیا ممکن ہے"۔
امیدیں اور امکاناتروس اور امریکہ دونوں اس میٹنگ کو ممکنہ طور پر ایک طویل عمل کے آغاز کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے کہا، "میرے خیال میں یہ ملاقات ایک موقع ہو گا، یہ ایک پیش کش ہو گی" لیکن ساتھ ہی انہوں نے اصرار کیا کہ واشنگٹن سب سے بڑھ کر یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ "آیا (روسی) بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں یا نہیں۔
"دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خارجہ پالیسی کے مشیر یوری یوشاکوف، جو اس میٹنگ شرکت کررہے ہیں، نے کہا کہ ماسکو اور واشنگٹن ابھی تک اس بات پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ یوکرین میں امن کے لیے بات چیت کیسے شروع کی جائے، کیونکہ امریکہ نے ابھی تک روس کے ساتھ بات چیت میں اپنا چیف مذاکرات کار مقرر نہیں کیا ہے۔
یوشاکوف نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ میٹنگ میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا "یوکرین پر مذاکرات کیسے شروع کیے جائیں" ۔
ج ا ⁄ ص ز ( اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوکرین پر ہونے والی کے طور پر اس بات پر ریاض میں انہوں نے بات چیت کسی بھی کی اور کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اتوار کے روز روس پر ایسٹر کے احترام میں جنگ بندی کا جھوٹا دعویٰ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے یوکرین میں عارضی جنگ بندی کے اعلان کے بعد ماسکو نے کییف پر حملے جاری رکھے۔
یوکرینی صدر نے ایکس پر ایک پیغام جاری کیا کہ ایسٹر کے موقع پر روس کی جانب سے جنگ بندی کا عمومی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ماسکو نے اس دوران یوکرین کے کئی علاقوں میں پیش قدمی کی ہے اور یوکرینی املاک اور بنیادی انفراسٹکچر کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کیا۔
روسی صدر کی جانب سے گزشتہ روز ایسٹر کے تہوار کے موقع پر ایک روزہ عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ ماسکو کی جانب سے یوکرین پر درجنوں ڈرون حملے کرنے کے ساتھ ساتھ گولہ باری اور سرحدی علاقوں میں متعدد حملے کیے گئے۔
(جاری ہے)
زیلنسکی نے اس بات پر زور دیا کہ روس کو جنگ بندی کی تمام شرائط پر پوری طرح عمل کرنا چاہیے اور اتوار کی نصف شب سے شروع ہونے والی جنگ بندی کو 30 دن تک بڑھانے کے لیے یوکرین کی پیشکش پر غور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تجویز "میز پر موجود ہے" اور یہ کہ "ہم زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر عمل کریں گے۔" دوسری جانب مقبوضہ یوکرینی علاقے خیرسون میں تعینات روسی فوجیوں کا کہنا ہے کہ یوکرین کی جانب سے مسلسل حملے جاری ہیں۔
اس علاقے میں ماسکو کی جانب سے مقرر کردہ گورنر ولادیمیر سالڈو نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر لکھا، "یوکرین کے فوجیوں نے ایسٹر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خیرسون کے علاقے میں پرامن شہروں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
"روسی صدر نے جنگ بندی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ماسکو کے کیتھیڈرل آف کرائسٹ دی سیویئر میں ایسٹر سروس میں شرکت کی جس کی سربراہی روسی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ، پوٹن اور یوکرین میں جنگ کے حامی پیٹریاارک کیرل نے کی۔
پوٹن کی جانب سے کہا گیا کہ جنگ بندی کا یہ فیصلہ انسانی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ کریملن کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ جنگ بندی کا دورانیہ ہفتے کی شام سے اتوار کی رات تک ہوگا۔
تاہم روس کی جانب سے اس کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں کہ جنگ بندی کی نگرانی کیسے کی جائے گی یا یہ کہ فضائی اور زمینی حملوں کے حوالے سے کیا حکمت عملی ہوگی جو چوبیس گھنٹے جاری رہتے ہیں۔اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مزاکرات کا وقت "آن پہنچا ہے۔" اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی فریق ان کی جانب سے جنگ بندی کے حوالے سے دباؤ کا شکار نہیں ہے۔
ادارت: عرفان آفتاب