مولانا سید ارشد مدنی نے حکمرانوں کی در پردہ شہ سے ایک بار پھر فرقہ پرست طاقتوں کو صف بند ہونے کا موقع مل گیا۔ اسلام ٹائمز۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے ضمن میں داخل عرضداشتوں پرآج چیف جسٹس آف انڈیا کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا نے اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے پچھلی سماعت پر دئیے گئے اسٹے میں توسیع کردی، اس کے ساتھ ہی عدالت نے تازہ عرضداشتوں پر نوٹس جاری کرنے کی بجائے انہیں بطور مداخلت کار درخواست داخل کرنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس کے حکم پر اب ایک تین رکنی بنچ اپریل کے پہلے ہفتے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ اس قانون کی مخالفت میں آج بھی پانچ تازہ عرضداشتیں سماعت کے لئے پیش ہوئی تھی، جس پر عدالت نے نوٹس جاری کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ وکلاء نے عدالت سے بہت گزارش کی کہ آج تک داخل تمام عرضداشتوں کو سماعت کے لئے قبول کر لیا جائے، لیکن عدالت نے کہا کہ کسی بھی چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور عدالت کو یہ حد طے کرنا ہے، لہذا جن عرضداشتوں پر اب تک نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے ان پر اب نوٹس جاری نہیں کیا جائے گا، البتہ انہیں مداخلت کار کی عرضداشت داخل کرنے کی اجازت ہوگی۔

چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار نے آج عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حمایت اور مخالفت میں داخل تمام عرضداشتوں پر یکجا سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باجود مرکزی حکومت نے اپنا حلف نامہ داخل نہیں کیا، جس پر اس قانون کی مخالفت میں عرضداشت داخل کرنے والے وکلاء نے برہمی کا اظہار کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے عرضداشتیں داخل کرنے کا عمل ختم ہو، اس کے بعد ہی مرکزی حکومت تمام عرضداشتوں پر ایک ساتھ حلف نامہ داخل کرے گی۔ آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول (نوڈل کونسل) نے اب تک اس مقدمہ میں داخل تمام عرضداشتوں کا نچوڑ پیش کیا، جسے چیف جسٹس نے قبول کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ اس معنی میں بہت اہم ہے کہ اس سے فرقہ پرست عناصر کی شرانگیز سرگرمیوں پر قدغن لگی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی حساس اور اہم مقدمہ ہے، کیونکہ اس قانون کو برقرار رکھنے سے ہی ملک کا اتحاد اور بھائی چارہ محفوظ رہ سکتا ہے۔

مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں نے ایک بار پھر اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کردیا ہے اور اس طرح کے معاملوں میں نچلی عدالتوں نے جو غیر ذمہ دارانہ فیصلے دئیے اس سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ بابری مسجد پر آنے والے فیصلے کو ہم نے دل پر پتھر رکھ کر قبول کیا تھا کہ چلو اب مسجد مندر کا کوئی تنازع نہیں ہوگا اور ملک بھر میں امن و امان اور بھائی چارے کا ماحول قائم رہے گا، لیکن ہمارا یہ یقین غلط ثابت ہوا، حکمرانوں کی در پردہ شہ سے ایک بار پھر فرقہ پرست طاقتوں کو صف بند ہونے کا موقع مل گیا اور انہوں نے آئین و قانون کی بالادستی کو ختم کرتے ہوئے کئی جگہوں پر ہماری عبادت گاہوں کو اپنا نشانہ بنا ڈالا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایک واضح اور سخت قانون کی موجودگی میں یہ سب کیا گیا اور مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ بعض صوبائی حکومتوں نے پولس اور انتظامیہ کو آگے کر کے جس طرح فرقہ پرست عناصر کی دانستہ حوصلہ افزائی کی وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ قانون ختم ہوگیا تو ملک میں کوئی مسجد، قبرستان، عیدگاہ اور امام باڑہ محفوظ نہیں رہے گا۔ فرقہ پرست عناصر ہر جگہ مندر ہونے کا دعوی کرکے آئے دن تنازعہ کھڑا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس ابتر صورتحال نے ملک بھر کے تمام انصاف پسند شہریوں کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے، مگر اقتدار میں موجود لوگ اس طرح چپ ہیں، جیسے ان کی نظر میں یہ کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ہماری آخری امید عدلیہ ہے ہم نے اپنی قانونی جدوجہد سے کئی بڑے معاملوں میں انصاف حاصل کیا ہے، اس لئے ہمیں یقین ہے کہ اس اہم معاملے میں بھی انصاف کو سربلندی حاصل ہوگی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عبادت گاہوں کے تحفظ تمام عرضداشتوں عرضداشتوں پر ایک بار پھر نوٹس جاری نے کہا کہ قانون کی چیف جسٹس انہوں نے

پڑھیں:

رنویر الہ آبادیا کیس کی تحقیقات مکمل، پاسپورٹ واپسی کی درخواست سماعت کیلیے مقرر

بھارتی سپریم کورٹ نے یوٹیوبر اور پوڈکاسٹر رنویر الہ آبادیا المعروف "بیئر بائسیپس" کے خلاف جاری تحقیقات کے مکمل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پاسپورٹ واپسی کی درخواست پر سماعت 28 اپریل کو کی جائے گی۔

رنویر الہ آبادیا پر ان کے یوٹیوب شو "انڈیا از گاٹ لیٹنٹ" میں والدین اور جنسی موضوعات سے متعلق نازیبا تبصروں کے باعث متعدد ایف آئی آرز درج ہوئیں۔ ان کیسز کے بعد 18 فروری کو سپریم کورٹ نے انہیں گرفتاری سے عبوری تحفظ دیا اور ان کا پاسپورٹ تھانے سائبر پولیس کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس سریاکانت اور جسٹس این کوتیسور سنگھ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے واضح کیا ہے کہ چونکہ تفتیش مکمل ہو چکی ہے، اس لیے اب عدالت رنویر کی درخواست پر باقاعدہ غور کرے گی۔

یاد رہے کہ 3 مارچ کو عدالت نے رنویر کو ان کا پوڈکاسٹ "دی رنویر شو" دوبارہ شروع کرنے کی مشروط اجازت دی تھی اس شرط کے ساتھ کہ وہ اخلاقیات اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا مواد تخلیق کریں جو ہر عمر کے ناظرین کے لیے موزوں ہو۔

رنویر الہ آبادیا کے علاوہ اس کیس میں کامیڈین سمیہ رائنا، آشش چنچلانی، جسپریت سنگھ اور اپوروا مکھیجا کے نام بھی شامل ہیں، جن پر اسی شو سے متعلق مواد کے باعث قانونی کارروائی جاری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 9 مئی کیسز: صنم جاوید کی بریت کیخلاف سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • 190 ملین پاؤنڈز کیس: اپیلیں مقرر کرنے سے متعلق ڈپٹی رجسٹرار سے پالیسی طلب
  • 190 ملین پاؤنڈز کیس؛ اپیلیں مقرر کرنے سے متعلق ڈپٹی رجسٹرار سے پالیسی طلب
  • شیخ رشید کی بریت کی اپیل، پنجاب حکومت نے شواہد پیش کرنے کیلئے وقت مانگ لیا
  • صنم جاوید کی بریت کیخلاف درخواست پر سماعت ملتوی
  • رنویر الہ آبادیا کیس کی تحقیقات مکمل، پاسپورٹ واپسی کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشل کانفرنس کیلئے آج چین جائیں گے
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشنل کانفرنس کیلیے آج چین جائیں گے
  • وقف قانون کی مخالفت میں "آئی پی ایس" افسر نور الہدیٰ نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دیا