Jasarat News:
2025-04-22@06:25:21 GMT

عافیہ صدیقی کی عدم رہائی میں حکمرانوں کا مجرمانہ کردار

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

عافیہ صدیقی کی عدم رہائی میں حکمرانوں کا مجرمانہ کردار

ایک فوجی آمر نے چند ڈالروں کے عوض قوم کی بے گناہ اور بے قصور بیٹی کو امریکا کے حوالے کردیا لیکن اس کے بعد جو سول حکمران آئے وہ کہیں زیادہ بے غیرت اور بے حمیت ثابت ہوئے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کو اُلجھاتے چلے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ کیس ابھی تازہ تازہ تھا۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی اور امریکی عدالت میں یہ کیس لڑنے کا مطالبہ کیا جہاں سے عافیہ کو ایک انتہائی مضحکہ خیز مقدمے میں 80 سال قید سخت کی سزا ہوچکی تھی اور وہ جیل میں یہ سزا بھگت رہی تھیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ کے مطالبہ پر عافیہ کیس لڑنے کے لیے کروڑوں ڈالر فنڈ کی منظوری دے دی۔ یہ فنڈ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے حوالے کردیا گیا جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ہے تو پاکستان کا سفیر لیکن امریکا میں بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کے بجائے امریکا کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ عافیہ کے کیس میں بھی اس نے یہی کیا۔ اس نے عافیہ کی وکالت کے لیے جو امریکی وکیل ہائر کیا وہ مقدمے کی کارروائی کے دوران عافیہ کو بے قصور ثابت کرنے کے بجائے انہیں مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مقدمے کی سماعت کے موقع پر ملزمہ کی حیثیت سے عدالت میں موجود ہوتی تھیں انہوں نے وکیل صفائی کے دلائل سنے تو سر پیٹ لیا اور پاکستانی سفیر سے کہا کہ وہ اپنا وکیل واپس لے لیں۔ حسین حقانی بھی یہی چاہتے تھے انہوں نے معاملہ ختم کردیا۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھڑانے کے معاملے میں بھی انہوں نے رکاوٹ ڈالی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس طرف آنے ہی نہیں دیا۔ یہ واقعہ بہت پرانا ہے اس لیے قارئین کے ذہن میں اس کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہوگی، ہم یہاں مختصراً بیان کرتے ہیں۔ ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اس شبہ میں کہ دو موٹر سائیکل سوار لاہور میں اس کی گاڑی کا تعاقب کررہے تھے پستول کے فائر کرکے انہیں قتل کردیا۔ واردات کے بعد اس نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن سڑک پر ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا جس نے اس کے فرار کی کوشش ناکام بنادی اور اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ امریکی سفارت خانے کو جونہی اس واقعے کا علم ہوا اس نے جاسوس کو چھڑانے کے لیے سفارتی سرگرمیاں شروع کردیں۔ امریکی سفیر نے دعویٰ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس ہمارا سفارت کار ہے اور جنیوا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو سفارتی استثنا حاصل ہے اس لیے ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اسے ہمارے حوالے کیا جائے۔ چونکہ یہ دعویٰ جھوٹا تھا اور اس کا نام سفارت کاروں کی فہرست میں شامل نہ تھا اس لیے شاہ محمود قریشی نے جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان پر بہت دبائو ڈالا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے براہ راست انہیں فون کیا۔ آصف زرداری اس وقت صدر

تھے، انہوں نے صدارتی دبائو ڈالا۔ امریکا کے حامی بیوروکریٹس اور فوجی افسروں نے بھی ان سے رابطہ کیا لیکن شاہ محمود قریشی اپنے موقف پر ڈٹے رہے، انہوں نے استعفا دینا قبول کرلیا لیکن امریکی جاسوس کو سفارت کار قرار دینے کی کوشش ناکام بنادی اور قتل کا کیس عدالت میں چلا گیا۔ وکیل استغاثہ بیرسٹر اسد منظور بٹ نے کیس بڑی محنت سے لڑا اگر عدالتی فیصلے پر انحصار کیا جاتا تو امریکی جاسوس کو سزائے موت یقینی تھی لیکن امریکی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ملزم کو چھڑانے کی کوشش میں تھے ایسے میں بعض سیاستدانوں اور رائے عامہ کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے ملزم چھوڑ دیا جائے مقتولین کے ورثا بھی اس پر راضی تھے۔ حسین حقانی کے علم میں جب یہ تجویز آئی تو وہ اس کے خلاف حرکت میں آگئے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں ورثا کو دیت دینے کی تجویز پیش کردی اور آصف زرداری کو اس پر قائل کرلیا۔ چنانچہ عافیہ صدیقی کو رہا کرانے کی تجویز ڈراپ کردی گئی حالانکہ امریکی اس پوزیشن میں تھے کہ وہ باآسانی اس تجویز کو مان سکتے تھے۔ رہا دیت کا معاملہ تو عافیہ صدیقی کی رہائی کے بعد حکومت خاموشی سے مقتولین کے ورثا کو دیت بھی ادا کرسکتی تھی۔ لیکن حسین حقانی نے زرداری کو عافیہ صدیقی کی رہائی کی طرف آنے ہی نہیں دیا۔ عدالتی کارروائی کا رخ بھی موڑ دیا گیا اور دیت کی ادائیگی پر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا گیا۔ حسین حقانی امریکی وزیر خارجہ کے ہمراہ پاکستان آئے اور امریکی جاسوس کو چھڑا کر لے گئے۔ بعد میں ریمنڈ ڈیوس نے ایک کتاب لکھی

جس میں اپنی رہائی میں حسین حقانی کے مرکزی کردار کی تعریف کی۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی عدم رہائی میں نواز شریف کا کردار بھی مجرمانہ رہا۔ انہوں نے بطور وزیراعظم دو امریکی صدور بل کلنٹن اور اوباما کا زمانہ دیکھا۔ وہ صدر اوباما سے ملاقات کے لیے گئے تو جیب سے پرچیاں نکال کر پاکستان کے مسائل پر بات کرتے رہے لیکن کسی پرچی پر عافیہ صدیقی کا نام نہ تھا، ان سے صدر اوباما کے نام خط لکھنے کی درخواست کی گئی لیکن وہ اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ میاں نواز شریف کے بعد 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بنے تو عافیہ صدیقی کے معاملے میں ان کا رویہ بھی بے حسی پر مبنی تھا، حالانکہ انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے پاکستانی اور عالمی پریس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا اور افغان جیل میں ان پر تشدد کا معاملہ اُٹھایا تھا اور اس سلسلے میں برطانوی خاتون صحافی کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن جب وزیراعظم بنے تو عافیہ صدیقی کو بھول گئے۔ انہوں نے دو مرتبہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کی، نہایت بے تکلفانہ ماحول میں بات چیت ہوئی لیکن خان صاحب کو اس بات چیت میں قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی یاد نہیں آئی۔ اب شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی دوسری ٹرم پوری کررہے ہیں ان کے دور میں یہ تو ہوا کہ انہوں نے امریکی صدر کو خط لکھنے کی جرأت کی لیکن اس خط کا سرگرمی سے تعاقب نہیں کیا گیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی سبک دوشی کے موقع پر سیکڑوں مجرموں کو معافی دی لیکن عافیہ کی درخواست مسترد کردی۔ امریکی بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی حکمران قومی حمیت سے خالی ہیں، وہ اس قسم کے کچوکے برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عافیہ صدیقی کی رہائی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی جاسوس پیپلز پارٹی کی رہائی کے ریمنڈ ڈیوس پاکستان کے جاسوس کو انہوں نے کی کوشش کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) اقوامِ متحدہ کی رواں ماہ سات اپریل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2023 میں دنیا بھر میں زچگی کے دوران دو لاکھ 60 ہزار خواتین کی اموات ہوئیں، جن میں سے نصف کا تعلق صرف چار ممالک (نائجیریا، بھارت، جمہوریہ کانگو، پاکستان) سے تھا۔ اُس سال پاکستان میں 11 ہزارخواتین زچگی کے دوران ہلاک ہوئیں، جو عالمی اموات کا 4.1 فیصد بنتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتیں۔ نبیلہ کی کہانی

راولپنڈی کے مضافاتی گاؤں میں رہنے والی 35 سالہ نبیلہ، جو چار بچوں کی ماں تھیں، زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ ہیلتھ ورکر رفعت جبین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نبیلہ کی مسکراہٹ آج بھی گاؤں کی گلیوں میں گونجتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ ہر عورت کا دکھ بانٹتی تھیں لیکن اب اس کے گھر میں خاموشی چھائی ہے۔‘‘ رفعت جبین کے مطابق نبیلہ کی کہانی ان ہزاروں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتی ہے، جو صحت کی سہولیات، شعور اور وسائل کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ زچگی کے دوران اموات کی وجوہات

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر عظمیٰ الماس کے مطابق خون کی کمی (اینیمیا) حاملہ خواتین میں عام ہے، خصوصاً ان میں، جن کی کم عمری میں شادی ہو جاتی ہے۔

شہری علاقوں میں خواتین حمل کے دوران باقاعدہ طبی معائنہ کراتی ہیں اور غذائیت کا خیال رکھتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں خون کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو زچگی کی اموات کی شرح بڑھاتی ہے۔ دیگر وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، نفلی خون بہنا، انفیکشنز اور غیر محفوظ اسقاط حمل شامل ہیں۔ زچگی کے دوران اموات اور زمینی حقائق

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر اُمِ حبیبہ نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔

سن 2015 میں زچگی کے دوران اموات کم کرنے میں پیش رفت ہوئی تھی لیکن حالات اب بھی جوں کے توں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا صحت کا نظام مسائل کا شکار ہے کیونکہ کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، جو زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ بنیادی مراکز صحت (بی ایچ یوز) اور تحصیل ہیلتھ مراکز (ٹی ایچ یوز) قائم تو کیے گئے لیکن یہ خستہ حال عمارتوں، عملے کی کمی اور ناقص انتظامات کا شکار ہیں۔

کئی علاقوں میں صحت کے افسران صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ صحت کا مسئلہ صرف سیاسی نعرہ

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے رکن ڈاکٹر امجد علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحت پاکستان میں محض ایک سیاسی نعرہ ہے، جو انتخابات کے بعد دم توڑ دیتا ہے۔ ان کے مطابق، ''سیاسی جماعتیں صحت کو منشور کا حصہ بناتی ہیں لیکن بجٹ میں اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور یہ رویہ سن 1947 سے جاری ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں مہنگے علاج پر توجہ دی جاتی ہے لیکن صحت کی بنیادی دیکھ بھال نظر انداز ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو زچگی سے متعلق بنیادی معلومات کی کمی ہے جبکہ غیر تربیت یافتہ دائیوں سے زچگی کرانے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آگاہی پروگرامز سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

وسائل کی کمی یا ترجیحات کا فقدان؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ترجیحات کا فقدان بھی زچگی کے دوران اموات کی شرح بڑھانے کا سبب ہے۔

ڈاکٹر امجد علی خان نے کہا کہ اگر دفاع پر اربوں روپے خرچ ہو سکتے ہیں تو عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''صرف 250 روپے ماہانہ فی فرد سے ہر پاکستانی کو یونیورسل ہیلتھ کوریج دی جا سکتی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق صحت کے لیے پانچ فیصد بجٹ مختص ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں یہ صرف ایک فیصد کے قریب ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ زچگی جے دوران اموات کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔

ماہرین کی رائے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

آگاہی مہمات: دیہی علاقوں میں زچگی سے متعلق آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ صحت کے بجٹ میں اضافہ: صحت کے لیے کم از کم پانچ فیصد بجٹ مختص کیا جائے۔ ہیلتھ انشورنس: یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ذریعے ہر شہری کو صحت کی سہولیات دی جائیں۔ دائیوں کی تربیت: غیر تربیت یافتہ دائیوں کی جگہ تربیت یافتہ عملہ متعارف کرایا جائے۔ مراکز صحت کی بحالی: بی ایچ یوز اور ٹی ایچ یوز کو فعال بنایا جائے اور تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا جائے۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے کنوینئر پارلیمانی کاکس آن چائلڈ رائٹس ڈاکٹر نکہت شکیل خان کی سربراہی میں وفد کی ملاقات
  • اسرائیلی مظالم پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی ،بے حسی افسوسناک :زوار بہادر  
  • ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
  •   عرفان صدیقی کی  شکیل ترابی کو جماعت اسلامی کا سیکرٹری اطلاعات مقرر ہونے پر مبارکباد
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا حریت قیادت سمیت تمام کشمیری نظربندوں کی رہائی کا مطالبہ
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • بیک ڈور رابطوں میں بڑی ڈیل، 45 روز میں عمران خان کی رہائی، بڑی خبر سامنے آگئی
  • مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی
  • پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ