اسلام ٹائمز: خود شناسی ایک قیمتی تحفہ ہے، جو آپ خود کو دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور ایک کامیاب اور خوشگوار مستقبل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے تو آئیے آج ہی خود شناسی کے سفر پر گامزن ہوں اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیں۔ توجہ رہے کہ کردار سازی میں علم کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی حس سے نوازتا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
علم وہ روشنی ہے، جو جہالت کے اندھیروں کو چیر کر راستے دکھاتی ہے۔ علم کے بغیر زندگی اس ویران صحرا کی مانند ہے، جس میں بھٹکنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔علم ہی وہ طاقت ہے، جس سے انسان اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو وحی نازل فرمائی، وہ علم کے بارے میں تھی۔ علم صرف کتابوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ تجربات، مشاہدات اور غور و فکر سے بھی علم حاصل ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنے کا کوئی وقت اور عمر نہیں ہوتی۔انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے۔
علم کی بدولت انسان دنیا کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ یہ اسے مسائل کو حل کرنے اور نئے آئیڈیاز پیدا کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ علم انسان کو باشعور بناتا ہے اور اسے اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے قابل بناتا ہے۔ علم کی اہمیت صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ علم کی بدولت معاشی خوشحالی آتی ہے اور سماجی برائیاں ختم ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم کی اہمیت کو کم سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ تعلیم کو صرف نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ علم کا حقیقی مقصد انسان کو بہتر انسان بنانا ہے۔
توجہ رہے کہ زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے، جس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، لیکن یہی نشیب و فراز زندگی کو بامعنی اور دلچسپ بناتے ہیں۔ زندگی کا کوئی ایک راز نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف رازوں کا مجموعہ ہے، جنہیں سمجھ کر ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ زندگی کا سب سے پہلا اور اہم راز خود شناسی ہے۔ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کون ہیں، ہم کہاں سے آئے ہیں۔ ہمارا خالق کون ہے۔؟ہماری خلقت کا ہدف کیا ہے؟ ہماری طاقتیں کیا ہیں؟ ہماری کمزوریاں کیا ہیں؟ اور ہم زندگی سے کیا چاہتے ہیں؟ ہمیں کیسے زندگی گزارنی چاہیئے۔؟
جب ہم خود کو جان لیتے ہیں تو ہم اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں تجربات سے گزرتے ہیں، سیکھتے ہیں اور بدلتے ہیں۔ اس سفر میں خود شناسی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود شناسی کا مطلب ہے اپنی ذات کو سمجھنا، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو جاننا، اپنی اقدار اور مقاصد کا تعین کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جو ہمیں اپنی زندگی کو بامعنی اور کامیاب بنانے میں مدد کرتا ہے۔ خود شناسی ذاتی ترقی کی بنیاد ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو سمجھتے ہیں تو ہم اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ خود شناسی ہمیں بہتر فیصلے کرنے میں مدد کرتی ہے۔
جب ہم اپنی اقدار اور مقاصد کو جانتے ہیں تو ہم ایسے فیصلے کرسکتے ہیں، جو ہمارے لیے صحیح ہوں۔ خود شناسی ہمیں دوسروں کے ساتھ مضبوط تعلقات بنانے میں مدد کرتی ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو سمجھتے ہیں تو ہم دوسروں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ خود شناسی ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو قبول کرتے ہیں تو ہم زیادہ پر اعتماد اور مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ خود شناسی کیسے حاصل کریں۔؟ خود شناسی ایک مسلسل عمل ہے، جس میں وقت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔ انسان مختلف طریقوں سے خود شناسی حاصل کرسکتا ہے۔ سب سے اہم طریقہ غور و فکر ہے۔ اپنے خیالات، احساسات اور رویوں پر غور کریں۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ آپ کیوں اس طرح برتاؤ کرتے ہیں؟
دوسرا اہم طریقہ تجربہ ہے۔ نئی چیزیں آزمائیں۔ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔تیسرا اہم طریقہ مطالعہ ہے۔ خود شناسی کے بارے میں مختلف شخصیات کی کتابیں اور مضامین پڑھیں۔ چوتھا اہم طریقہ مشاورت ہے۔ کسی مشیر سے بات کریں۔ وہ آپ کو اپنی ذات کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے میں مدد کرسکتا ہے۔ الغرض خود شناسی ایک قیمتی تحفہ ہے، جو آپ خود کو دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور ایک کامیاب اور خوشگوار مستقبل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے تو آئیے آج ہی خود شناسی کے سفر پر گامزن ہوں اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیں۔ توجہ رہے کہ کردار سازی میں علم کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی حس سے نوازتا ہے۔
علم کی بدولت ہی انسان معاشرے میں بہتر رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے اور منفی سرگرمیوں سے بچتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کی کردار سازی پر توجہ دیں۔ اساتذہ اپنے طلباء کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے کردار پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ایک استاد کا اپنا ذاتی کردار ایسا ہونا چاہیئے کہ شاگرد اس پر رشک کرے۔ اگر طلبہ کو زندگی کے ابتدائی مراحل میں ایمانداری، انصاف پسندی اور دوسروں کے حقوق کا احترام سکھایا جائے تو وہ آگے چل کر معاشرے کے فعال اور ذمہ دار شہری بن سکتے ہیں۔ کردار سازی کے ذریعے نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
انہیں والدین، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق سکھائے جاسکتے ہیں اور یہ بھی سکھایا جاسکتا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی میں کیسے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں تبدیلی لائی جائے، تاکہ طلبہ پر پڑھائی کا دباؤ کم ہو اور انہیں اپنی شخصیت کو نکھارنے کا موقع مل سکے۔ درسگاہوں میں کردار سازی کی اہمیت کو اجاگر کیا جانا چاہیئے، تاکہ طلبہ مہذب اور با اخلاق بن سکیں۔کردار کی تعلیم ایک جامع اصطلاح ہے، جو بچوں میں خوش اطواری اور خوش اسلوبی کی صلاحیتیں ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ کردار سازی پر مبنی تعلیم کو سماجی ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے لیے ترجیح دی جانی چاہیئے۔ بے شک علم ہے راز حیات۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنی زندگی کو خود شناسی ایک اپنی ذات کو جب ہم اپنی اہم طریقہ ہیں تو ہم اور اپنی کی اہمیت انسان کو کرتے ہیں سکتے ہیں کرتی ہے کرتا ہے کو بہتر ہیں اور ہے اور کے لیے علم کی
پڑھیں:
بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔
اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔